اسلامى ٹيليفون سروس كى بنياد عرب جمہوريہ مصر ميں 2000ء ميں ڈالى گئى، يہ اعتدال پر مبنى دينى خدمت ہے. |    
 
 
   
English عربى الاتصال بنا روابط اخرى فتاوى شائعة من نحن Q & A الرئيسية
 
   
سوال اور جواب --> باب ششم باجماعت نماز اور امامت --> نماز تراویح میں کچھـ نئ چیزوں کا حکم  

سوال : نماز تراویح میں بعض نئ چیزوں جیسے یہ کہنا: صلاہ القیام اثابکم اللھ [نماز تراویح اللھ تعالی آپ كو اجر دے] ذکرو اذکار کے بارے میں کیا حکم ہے؟  

خلاصہ فتوی۔ صلاہ القیام اثابکم اللھ [نماز تراویح اللھ تعالی آپ كو اجر دے] کہنا اور نمازکی رکعتوں کے درمیان تسبیح یا ذکر کرنا بدعت ھے اور اسلام میں کو ئی بدعت حسنہ نہیں ہے ۔

                                            اللجنۃ الدائمہ للبحوث العلمیہ والافتاء 2/352۔۔353

تبصرہ:

جمہور علماء کے مطابق دین میں نئ چیزوں کی دو قسمیں ھے:

 پہلی قسم مذمو م: وہ قسم ھے جو کہ ؛اللھ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ و صلم کے حکم کے خلاف ھو۔

دوسری قسم ممدوح: وہ قسم ہے جو کہ عممومی حکم کے تحت آتی ہے ۔اور اللھ اور اسکے رسول نے اسکی ترغیب دی ہے اور یہ بدعت حسنہ ہے ۔

  علمی رد :

 امام نووی نے مجموع میں بیان کیا ھے کہ اذان اور اقامت دونوں صحیح نصوص اور اجماع سے پانچوں نمازوں کے لے مشروع ہیں اور ان پانچوں نمازں کے علاوہ اذان اور اقامت متفقہ طور پر ناجائزہیں،لیکن نماز عید ،کسوف اور استسقاء کے لے ۔الصلاہ جامعة ([1])کے الفاظ سے ندا دی جا تی ھے ،اس طرح اگر نماز تراویح با جماعت ادا کی جاے تو اس کے لے بھی الصلاة جامعة الفاظ سے ندا دی جاتی ھے([2]

اس سے اخذ کیا جاتا ہے کہ" الصلاة جامعة" کہنا اور اسی طرح "صلاة القیام اثابکم اللھ" کہنا اور تراویح کی رکعتوں کے درمیان  نبی پاک صلی اللہ علیہ و صلم پر دروود و سلام پڑھنے میں کوئی حرج نہیں۔

جس چیز کو مسلمان اچھا سمجھین  تو وہ اللھ کے نزدیک بھی اچھی ہوتی ہے۔

 جمھور علماء کے نزدیک بدعت کی دو قسمیں ھین  حسنہ اور سیہء،اور دلیل  نبی پاک صلی اللہ علیہ و صلم کا يہ فر مان ھے:  [من سن فی الاسلام سنہ حسنہ فلھ اجرھا و اجر من عمل بھا([3]

جو شخص اسلام میں کسی نیک کام کی بنیاد ڈالے تو اس کے  لے اسکے اپنے اعمال اور جو لوگ اس پر عمل  کریں گے ان کا بھی ثواب ھے بغیر اسکے كہ انكے ثواب میں کوئی کمی کى جائے ۔اور جس نے اسلام مین کسی بری بات کی ابتدا کی  تو اس کے  لے اسکے اپنے اعمال اور جو لوگ اس پر عمل  کرین گے ان کا بھی گناہ  ھے  اسکے گناہ مین کوئی کمی کئےبغیر،اور حضرت عمر رضی اللھ عنہ کا فر مان ھے :[نعمت البدعھ ھذہ۔ ([4])

یہ کتنی اچھی بدعت ہے جبکہ وہ نیک اعمال مین سے ہے اور مدح  کے زمرے مین ائی ھے اسے بدعت کا نام دیا اور اسکی تعریف فر مائی  کیونکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے صحابہ کرام کے لے سنت نہیں بنایا بلکہ اسے کبھی ادا کیا پھر ترک فرما دیا اور اسکی پابندی نہیں فرمائی ، اورنہ ہی لوگون کو اسکے لے جمع فرمایا اور نہ ہی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللھ عنہ کے زمانے مین تھی جبکہ حضرت عمر  رضی اللھ عنہ نے لوگون کو اسکے لے جمع کیا اور انہیں اسکی ترغیب دی ، اسی  لئے اسے بدعت سے موسوم کیا  درحقیقیت یہ سنت ہی ہے۔

 چنانچہ بدعت کی دو قسمین ہيں  ،بدعت ھدایت و بدعت ضلالت ، سو جو  بات اللھ اوراسکے  رسول کے حکم کے خلاف ہو وہ منکر و مذموم ہے اور   جو  بات اللھ تعالى كى عمومى دعوت كے تحت آتى ہے اور اللھ تعالى ,يا  رسول الله صلى علیہ وسلم نے  اسکی ترغیب دی ہو تو وہ ممدوح ہے ،اور یہی راے جمھو ر اہل علم کی ہے اور اکثر اہل علم کی رائے بھی یہی ہے۔ واللھ اعلم۔

                                                                          ڈاکٹر احمد عید


[1] بخاری 1051،حضرت عمر سے مروی ھے ،انھون نے فرمایا  جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے مبارک میں سورج گرھن ھوا تو الصلاہ جامعہ الفاظ کی ندا دی گئ۔

[2] - المجموع النووی۔3۔83۔

[3] صحیح مسلم2398۔حدیث جریرمین سے۔

[4] موطا امام مالک249۔