سوال :
دريافت كيا گيا كہ نماز نہ
پڑهنے والے شوهر كے ساتهـ عورت كا رہنا يا نماز ادانہ كرنے
والى بيوى كے ساتهـ مرد كے رہنے كا كيا حكم ہے.
سوال :
اس شخص كے بارے ميں سوال كيا
گيا جسكا انتقال ہوگيا اور اسے اسلام كى دعوت پہنچى ہى نہيں.
اور اگر پہنچى ہے تو صحيح انداز سے نہيں.
سوال :
اس شخص کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے جو یہ کہتا ہوں کہ
داڑھی منڈوانا اور لباس کو چھوٹا کرنا سطحی امور میں سے
ہےں۔
سوال :
بالوں کو سیاہ رنگنے کے حکم کے
بارے میں دریافت کیا گیا۔
سوال :
غیر اسلامی ممالک میں رہنےكے
بارے میں دریافت کیا گیا.
سوال :
مذہبي اور قومي عيد دن اور مناسبات کو منانے کے بارے ميں حکم
دريافت کيا گيا.
سوال :
فوٹو گرافی ، تصویروں
،مجسموں اور بچوں کے کھلونوں کے حکم کے بارے میں بارے
دریافت کیا گیا۔
سوال :
ٹیلی ویژن کا مشاہدہ کرنے کا حکم دریافت کیا گیا۔
سوال :
مخلوط تعلیم کا حکم دریافت کیا
گیا ہے۔
سوال
:
اجنبی (دوسری اقوام کی)
زبانیں سیکھنے کے حکم کے بارے میں دریافت کیا گیا.
سوال :
تعلیم میں موسیقی اور آلات
موسیقی استعمال کرنے کے حکم کے بارے میں دریافت کیاگیا۔
سوال :
دريافت
كيا گيا كہ نماز نہ پڑهنے والے شوهر كے ساتهـ عورت كا رہنا يا
نماز ادانہ كرنے والى بيوى كے ساتهـ مرد كے رہنے كا كيا حكم
ہے.
خلاصہ فتوى:
جواب ديا گيا ہے كہ بے نمازى شوہر كے ساتهـ بيوى كا رہنا جائز
نہيں كيونكہ تاركـ صلاة كافر اور ملت اسلاميہ سے خارج ہے اور
اسكا نكاح ختم ہو چكا ہے، وه وراثت حاصل نہيں كريگا، اگر وه
فوت ہو جائے تو اسے غسل بهى نہيں ديا جائے گا نہ ہى اس كى نماز
جنازه اداكى جائے گى، نہ مسلمانوں كے قبرستان ميں دفن كيا
جائيگا بلكہ اسے صحراء ميں لے جاكر اسكے كپڑوں ہى ميں اسے دفن
كيا جائے كيونكہ اسكا كوئى احترام نہيں ہے.
شيخ ابن عثيمين. رسالة صفة
صلاة النبي صلى الله عليہ وسلم، 29- 30
تبصره:
اس فتوے نے
بيكـ قلم پورى دنيا كے تقريبًا ايكـ چوتهائى يا ايكـ تہائى
مسلمانوں كو اسلام سے خارج كر ديا ہے يعنى تقريبًا 500 ملين
مسلماں مرتد ہوگئے اور انكا قتل كرنا واجب ہوگيا ہے اور انكے
انتقال پر نہ تو انكى نماز جنازه اداكى جائے اور نہ ہى انہيں
مسلمانوں كے قبرستان ميں دفن كيا جائے نہ وراثت حاصل كريں اور
نہ ہى انكا كوئى وارث بنے گا اور شوہروں اور بيويوں كے درميان
اس وجہ سے عليحدگى ہو گئى كہ وه نماز نہيں پڑهتے، اور تاريخ
اسلام كے كسى زمان ومكان ميں اسلامى ممالكـ ميں بے نمازيوں كے
ساتهـ كبهى ايسا نہيں ہوا بلكہ وه اپنى بيويوں كے ساتهـ رہتے
ہيں، وراثت سے حصہ ليتے اور ديتے ہيں اور(فوت ہونے پر)
مسلمانوں كے قبرستان ميں دفن كئے جاتے ہيں كيونكہ وه مسلمان
ہيں، هم يہ جاننے سے قاصر ہيں كہ ان كمزور آراء پر قائم رہنے،
ائمہء كرام، ملت اسلاميہ كے جمہور علماء كى مخالفت اور
مسلمانوں كو الله كے دين سے فوج در فوج نكالنے كا مقصد كيا ہے.
علمى رد:
نماز اسلام
كے بنيادى اركان ميں سے اهم ركن ہے اور ايمان ميں اسكا مقام
ومرتبہ ايسے ہى ہے جيسے جسم ميں سر كا ہے. پابندى نماز كى
فرضيت ، اسے تركـ كرنے يا اسے ہيچ سمجهنے پر تحذير وتنبيہ كے
بارے بہت سى نصوص آئى ہيں. اور تركـ نماز كے سلسلے ميں سب سے
اهم امام مسلم كى روايت كر يہ حديث شريف ہے:
«بَيْنَ الْكُفْرِ وَالْإِيمَانِ
تَرْكُ الصَّلَاةِ»
ترجمہ: آدمى اور كفر كے درميان حد فاصل نماز ہى ہے.
اس حديث پر
امام نووى كى شرح كا خلاصہ يہ ہے كہ تاركـ نماز اگر اسكى فرضيت
كا منكر ہو تو وه تمام مسلمانوں كے نزديكـ متفقہ طور پر ملت
اسلاميہ سے خارج اور كا فر ہے. سوائے اس كے كہ اسے اسلام لائے
ہوئے زياده وقت نہيں گزرا اور مسلمانوں سے اس قدر ملنے جلنے كا
اتفاق نہيں ہوا كہ نماز كى فرضيت سے واقف ہو. اور اگر كسى نے
نماز كى فرضيت پر عقيده وايمان ركهتے ہوئے كاہلى اور سستى سے
نماز تركـ ہو جيسا كہ اكثر لوگوں كا حال ہے. تو جمہور علماء كے
نزديكـ اسے كافر نہيں بلكہ فاسق كہا جاتا ہے اور اسے توبہ كرنے
كى ترغيب دى جاتى ہے. جبكہ امام احمد بن حنبل سے مروى دو
روايتوں ميں سے ايكـ روايت كے مطابق وه اسے كافر قرار ديتے
ہيں.
اور انہوں
نے مذكوره حديث شريف كے ظاهرى مفہوم سے استدلال كيا ہے.
تاركـ نماز
كى تكفير نہ كرنے والوں كے دلائل:
1-
ارشاد بارى تعالى ہے.﴿إِنَّ
اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ
ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ﴾
(النساء116)، ترجمہ: بے شكـ الله تعالى اس(بات) كو معاف نہيں
كرتا كہ اس كے ساتهـ كسى كو شريكـ ٹهہرايا جائے اور جو گناه اس
سے نيچے ہے جس كيلئے چاہے معاف فرما ديتا ہے.
اور حضور
صلى الله عليہ وسلم كا آرشاد گرامى اسى پر دلالت كرتا ہے.
جسميں آپ نے فرمايا:
"مَنْ قَالَ لَا
إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ دَخَلَ الْجَنَّةَ" ايكـ اور مقام
پر آپ صلى الله عليہ وسلم نے فرمايا:
"حَرَّمَ عَلَى النَّارِ مَنْ
قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ"
جس
نے.لا الہ الا الله كہا. اس پر جہنم حرام ہو گئى.
اور وه لوگ
جو تاركـ نماز كو كافر قرار نہيں ديتے وه اس حديث پاكـ.
"بَيْنَ
الْكُفْرِ وَالْإِيمَانِ تَرْكُ الصَّلَاةِ" آدمى
اور كفر وشركـ كے درميان حد فاصل نماز ہى ہے، كے بارے ميں
جواب ديتے ہيں كہ اسكا مفہوم يہ وه كفر كى سزا كا مستحق ہے.
اور وه ہے قتل بشرطكہ اس سے توبہ كرنے كا مطالبہ كيا گيا اور
وه تركـ نماز پر مصّر رہا يا حلال سمجهنے پر قائم رہا يا يہ كہ
اسكے اس عمل سے كفر كى تاويل كى جائے. يا اسكے اس فعل كو
كافروں كا فعل قرار ديا جائے.
امام السبكى
طبقات الشافعيہ ميں بيان كرتے ہيں. تاركـ نماز كے موضوع پر
امام شافعى اور امام احمد بن حنبل كے درميان مناظره ہوا: تو
امام شافعى نے امام احمد سے كہا كيا آپ كہتے ہيں كہ اس(تاركـ
نماز) كو كافر كہا جائے؟ امام احمد بن حنبل نے كہا. هاں.
امام
الشافعى نے كہا: اگر وه كافر ہے تو پهر مسلماں كس سے ہوگا
امام احمد
نے كہا: وه كہے. لا اله الا الله محمد رسول الله
امام شافعى
نے كہا: وه ہميشہ يہ قول كہتا ہے اور اس نے كبهى تركـ نہيں كيا
امام احمد
نے كہا: واسلام قبول كرتا ہے كہ نماز اداكرے
امام شافعى
نے كہا: كافر كى نماز صحيح نہيں ہوتى ہے اور (نماز ادا كرنے)
سے اسكے اسلام كا حكم نہيں لگايا جاتا. تو امام احمد خاموش ہو
گئے([1])
امام ابن
قدامہ نے اپنى كتاب"المغنى" ميں اسى رائے كہ ترجيح دى ہے كہ
وه(تاركـ نماز) امام احمد بن حنبل كے مذهب كے مطابق بهى كافر
نہيں ہے. تو ثابت ہوا كہ تاركـ نماز چاروں ائمہ كرام اور جمہور
اهل علم كے نزديكـ كافر نہيں ہے.
چنانچہ اسكے
بعد اسميں بهى كوئى شبہ نہ رہا كہ اسكے اپنى بيوى كے ساتهـ
تعلقات بهى صحيح ہيں.
ابن قدامہ
نے مزيد بيان كيا هيكہ پورى اسلامى تاريخ ميں يہ ثابت نہيں كہ
كسى مسلماں جج نے تركـ نماز كى وجہ سے بيوى اور شوهر ميں
عليحدگى كرائى ہو. باوجود اسكے كہ تمام زمانوں ميں بےنماز يوں
كى تعداد بہت زياده رہى ہے... اور انہوں نے كہا كہ هميں يہ
معلوم نہيں كہ كسى زمانے ميں تاركـ نماز كو غسل دئيے بغير، اس
پر نماز جنازه كى ادائيگى اور مسلمانوں كے قبرستان ميں اسكى
تدفين نہ كى گئى ہو، اور نہ ہى اسكے ورثاء كو اسكا وارث بننے
اور اسے اپنے مورث كا وارث بننے سے منع كيا گيا. اور نہ ہى
تاركين نماز كى كثرت كے باوجود زوجين ميں سے كسى كے تاركـ نماز
ہونے كى وجہ سے ان ميں عليحدگى كرائى گئى، اور اگر وه كافر
ہوتا تو يہ سارے احكام ثابت ہوتے([2])
فضيلت مآب
ڈاكٹر سعود بن عبد الله الفنيسان كہتے ہيں:
پورى
اسلامى تاريخ ميں آجتكـ ايسى بات سامنے نہيں آئى كہ كسى شخص كو
نماز تركـ كرنے كى وجہ سے مرتد كے طور پر قتل كيا گيا ہو-
علاوه ازين اس قول كى وجہ سے اسكى بيوى كو طلاق اور اسكى اولاد
نا جائز ہوگى جبكہ نماز تركـ كرنے والوں كى تعداد بہت زياده
ہے.
اور ميرے
نزديكـ سستى اور عدم اهتمام كى وجہ سے نماز ادا نہ كرنے والوں
كى تكفير نہ كرنے والا قول صحيح ہے([3])
والله أعلم بالصواب.
اس بناپر
نماز نہ پڑهنے والا شوهر اس وقت تكـ كافر نہيں سمجها جاتا
جبتكـ كہ وه اسكے يعنى نماز كے واجب ہونے پر ايمان ركهتا ہے،
اور بيوى كو چاہيے كہ اسكو سلسل نصيحت كرتى رہے اور نا
ہوئے بغير اسے نماز كى طرف بلاتى رہے اور اسے نماز تركـ كرنے
كے انجام كا خوف دلائى رہے اور ايسى اچهى صحبت دے جو اسے راه
حق پر لے آئے ان حالات ميں اچهى صحبت جادوئى اثر ركهتى ہے. اور
نماز نہ پڑهنے والى بيوى كا بهى يہى حكم ہے اور هم اسكے شوهر
كو بهى يہى نصيحت كرتے ہيں. كہ وه اسے نماز اور استقامت كى
ترغيب دے اور اسے طلاق دينے ميں عجلت نہ كرے اور الله رب العزت
كا يہ فرمان.
﴿وَأْمُرْ
أَهْلَك بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا﴾
(سورة طه 132). سوره طہ كى اس آيت كريمه كا مفہوم ہے اور آپ
اپنے گهر والوں كو نماز كا حكم فرمائيں اور اس پر ثابت قدم
رہيں.
اور ان
دونوں كو چاہئے كہ وه نماز تہجد اور فجر كى دعاؤں سے مد د حاصل
كريں اور اسے يہ جان لينا چاہيے كہ اگر الله رب العزت بے نمازى
كو هدايت عطا فرمائے توبہ اسكے دين و دنيا اور جو كچهـ اسميں
ہے اس سے كہيں بہتر ہے. و الله أعلم بالصواب.
ڈاكٹر محمد فؤاد
سوال : اس شخص
كے بارے ميں سوال كيا گيا جسكا انتقال ہوگيا اور اسے اسلام كى
دعوت پہنچى ہى نہيں. اور اگر پہنچى ہے تو صحيح انداز سے نہيں.
خلاصہ فتوى:
جس شخص كو دعوت(اسلام) نہيں پہنچى تو اسكا حكم اهل فتره كا ہے.
روز قيامت اسكا فيصلہ كيا جائے گا اور جس شخص كو غلط انداز پر
اسلام كى دعوت پہنچى ہے تو اسكے لئے كوئى عذر نہيں. اسے چاہيے
كہ وه صحيح بات كو دريافت كرے.
الشيخ ابن جبرين، فتاوى
واحكام،ص
79-
80
تبصره:
يہ فتوى بهى
ان تمام فتوؤں كى طرح تشدّ د كا حامل ہے.
محقق علماء
كرام نے دعوت كے لازم ہونے كيلئے يہ شرط لگائى كہ جسے دعوت
پہنچے تو يہ صحيح ہو اسے بگاڑ كر پيش نہ كيا گيا ہو اور اگر
اسے دعوت غلط طريقے سے پہنچى ہے تو وه اسلام قبول نہ كرنے ميں
معذور ہے.
علمى رد:
همارے آج كے
دور ميں كسى كو دعوت نہ پہنچى ہو تو يہ غاروں، جنگلوں اور دور
دراز واقع جزائر كى مثال ہے جو اپنے اطراف كى دنيا ميں رابطوں
اور وسائل سے نا واقف ہيں اور اس زمانے ميں انكى تعداد بہت ہى
كم ہے جبكہ آجكل سلكى ولا سلكى اور ديگر وسائل اتصالات بہت
بڑهـ چكے ہيں. اسفار، دنيا كے مختلف علاقوں ميں ان وسائل سے
بهرپور استفاده كرنے كيلئے مقابلوں ميں اضافہ ہوچكا ہے-
جس شخص نے
سنا كہ ايكـ رسول اسلام نام مذهب ليكر آئے ہيں تو اس پر واجب
ہو گيا كہ اگر وه استطاعت ركهتا ہو تو اسكى تحقيق كرے- اور اگر
اس نےنہيں سنا يا سنا اور تحقيق نہيں كر سكا تو وه علماء كرام
كى رائے كے مطابق معذور ہے.
دعوت كے
لازم ہونے كيلئے علماء كرام نے يہ شرط لگائى ہے كہ جنكو دعوت
پہنچے تو وه صحيح طريقے سے پہنچے غلط صورت ميں نہ پہنچے، اگر
غلط صورت ميں پہنچے تو ايمان نہ لانے ميں وه معذور ہيں.
اور اسے
امام غزالى نے اپنى كتاب"فيصل التفرقه" ميں بيان كيا ہيكہ انكے
زمانے ميں اكثر رومى اور تركى عيسائى صرف دعوت كے نہ پہنچے كى
وجہ سے نجات پانے والوں ميں سے ہيں- انہوں نے مزيد كہا كہ ميں
تو يہ كہتا ہوں كہ وه لوگ جنهيں رسول كريم صلى الله عليہ وسلم
كى دعوت غير صحيح صورت ميں پہنچى ہے اور انكے خاندان والوں نے
بچپن ہى سے رسول الله صلى الله عليہ وسلم كے بارے ميں غلط اور
بے بنياد باتيں بتائيں وه بهى ميرے نزديكـ پہلى قسم كى طرح
ہيں. يعنى ناجى ہيں.
اور وه تمام
اقوام جنہوں نے اپنے تواتر علم كے باوجود آپ صلى الله عليہ
وسلم كے ظہور صفات آپكے عقل كو خيره كرنے والے معجزات جن ميں
سر فہرست قرآن كريم ہے كے بعد رسول الله صلى الله عليہ وسلم كى
معاذ الله تكذيب كى، آپ صلى الله عليہ وسلم سے روگردانى كى اور
آپ صلى الله عليہ وسلم كى تعليمات ميں غور نہيں كيا تو يہ كافر
ہيں.(اهـ ملخص)
اس بناپر يہ
كہہ سكتے ہيں كہ جسے اسلام كى دعوت سرے سے پہنچى ہى نہيں يا
غلط طريقے سے پہنچى يا صحيح طور پر دعوت پہنچى اور اس نے تلاش
حق ميں كوتا ہى نہيں كى تو وه معذور ہے. يعنى اسكے لئے اميد كى
جاتى ہے كہ وه ہميشہ جہنم ميں نہيں رہے گا([4]).
ڈاكٹر عبد
الله الفقيه كى زيرنگرانى فتوى مركز(كى تحقيق كے مطابق):
كافر وه
شخص ہے جسكا انتقال اسلام كے علاوه كسى اور مذهب پر ہو جہاں
تكـ اس شخص كا تعلق ہے جس نے اسلام كے بارے ميں بالكل نہيں
سنا. يا جنہيں اسلام كى دعوت غلط انداز اور غير صحيح طريقے سے
پہنچى ہو.(انكے بارے ميں) صحيح بات تويہ ہيكہ روز قيامت انكا
امتحان ليا جائے گا.
جيسا كہ
فتوى نمبر 39860، 42857، 56323، 3191، 48406، ميں تفصيل سے
اسكا بيان آچكا ہے.
شيخ الاسلام
ابن تيميہ نے كہا: انبياء كرام كے درميانى زمانوں اور جگہوں
ميں لوگوں كو تهوڑے اور ضعيف ايمان پر بهى ثواب ديا جائيگا.
اور الله تعالى اس شخص كى مغفرت فرماتا ہے جس پر حجت قائم نہ
ہوئى ہو. اور اسكو معاف نہيں فرماتا جس پر حجت قائم ہوئى ہو.
جيسا كہ
مشہور حديث مباركہ ميں ہے.
لوگوں پر
ايكـ ايسا زمانہ آئے گا جسميں وه نماز، روزے، حج، اور عمرے سے.
صرف بڑى عمر كے اشخاص اور بوڑهے ہى واقف ہونگے اور وه كہيں گے
هم نے اپنے اباء واجداد كو پايا جو يہ كہتے ہيں لا اله الا
الله .
چنانچہ
حذيفہ بن يمان سے كہا گيا كہ لا اله الا الله كہنے سے انكو كيا
فائده حاصل ہوگا
تو
آپ نے فرمايا كہ يہ انہيں عذاب سے نجات دلائے گا.([5]).
والله أعلم بالصواب.
ڈاكٹر محمد فؤاد
سوال : اس شخص
کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے جو یہ کہتا ہوں کہ داڑھی منڈوانا
اور لباس کو چھوٹا کرنا سطحی امور میں سے ہےں۔
خلاصہ فتویٰ:
داڑھی چھوڑنا(رکھنا) متفقہ طور پر واجب ہے اورلباس کو طول
دینا(ٹخنوں سے نیچے تک ہونا)خواہ یہ خودپسندی اورتکبرکے
طورپرہو یا کسی اور مقصد سے ،حرام ہے ۔
الشیخ ابن باز مجلۃ الدعوۃ العدد١٦٠٧
تبصرہ:
داڑھی کو
موزوں شکل دینا اسے درست کرنا اور اس کے کچھ بالوں کو ترشوانہ
تمام ائمہ کے نزدیک جائز ہے یہ سنت یا واجب ہوسکتا ہے۔ داڑھی
مکمل طور پر منڈوانے کے بارے میں علماء کی آراء مختلف ہےں۔
اسلاف میں سے بعض نے اسے حرام بتایا ہے اور بعض نے اسے حرام
قرار نہيں ديا ہے.
لباس کا
طویل ہونا (ٹخنوں سے نیچے ہونا) اگر خودپسندی اور تکبرکے طور
پر ہوتو حرام اورخودپسندی اور تکبر کے طور پر نہ ہوتو حرام
نہیں ہے۔
علمی رد:
سنن الترمذی
میں حدیث شریف جو حضرت عمر وبن شعیب سے انہوںنے اپنے والد
اورانہوں نے دادا سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ - صلى الله عليه
وسلم- اپنی داڑھی مبارکہ کے طول عرض میں سے کچھ ترشواتے تھے ([6])۔
صحابہ اکرام
رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے ثابت ہے کہ وہ اپنی داڑھی
کو درست کرتے (یعنی اسے موزوں شکل دیتے تھے ) اور اس میں سے
کچھ ترشواتے تھے ([7])
اور کسی کو بھی صحابہ اکرام کے بارے میں یہ گمان نہیں کرنا
چاہئے کہ وہ تساہل پسند یا سنت کے مخالف تھے ۔داڑھی چھوڑنے کے
بارے میں علماء میں اس بات پر اختلاف ہے کہ یہ واجب ہے یاسنت
ہے ([8])۔
شیخ البانی
نے داڑھی ترشوانے کے بارے میں کئی صحابہ کرام کے آثار کا ذکر
کرنے کے بعداپنی تحقیق میں کہا میرا خیال ہے کہ بعض اسلاف اور
ائمہ کی انہیں نصوص کی اہمیت کے پیش نظر،میںکچھ وسعت کے ساتھ
اسے پیش کروں کیوں کہ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ یہ عام
انداز''واعفو اللحی''(داڑھی چھوڑ دو)کے خلاف ہے اور انہوں نے
اس قاعدے کی طرف توجہ نہیں کی کہ اگر کوئی عام شخص اس پر عمل
نہیں کرتا تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ اس سے مقصود ہی نہیں
ہے ([9])
جہاں تک لباس کو لمبا کرنے کے حکم کا تعلق ہے توامام بخاری نے
تعلیق کرتے ہوئے روایت کی ہے کہ رسول اللہ - صلى الله عليه
وسلم- نے فرمایا جس کا مفہوم ہے کھاؤ اور پیو اور پہنوں
اورصدقہ دو اسراف اور تکبر نہ کرو۔یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ جو
بات ممنوع ہے وہ درحقیقت اسراف اور تکبر ہے اور اگر یہ دونوں
نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں (حضرت)ابوبکر صدیق رضی اللہ
تعالیٰ عنہ نے عرض کیا یارسول اللہ - صلى الله عليه وسلم- اگر
میں گرہ نہ لگاؤ ںتو میرا تہبند ڈھیلا ہو جاتا ہے چنانچہ رسول
اللہ - صلى الله عليه وسلم- نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے
فرمایا تم ان میں سے نہیں جو تکبر اور خود پسندی کرتے ہیںیہ
بات یعنی تکبر کرنا مذموم (ناپسندیدہ) ہے خواہ یہ لباس ہی سے
ہو۔او جو کوئی اللہ رب العزت کی نعمت کے اظہار کے مقصد سے اچھا
لباس پہنتا ہے اسکی تیاری کرتا ہے اس پر اللہ رب العزت کا شکر
ادا کرتا ہے اور جس کے پاس ایسا لباس نہ ہواسے حقیر نہ سمجھتا
ہو تو اچھا لباس پہننا اس کے لئے مباح ہے حتیٰ کہ لباس انتہائی
نفیس ہو تو بھی اس کے پہننے میں کوئی حرج نہیں ۔صحیح مسلم میں
ہے کہ رسول اللہ - صلى الله عليه وسلم- نے فرمایا: "لَا
يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ
ذَرَّةٍ مِنْ كِبْرٍ"،
تر جمہ:
جس شخص کے دل میں ذرہ برابر بڑائی (تکبر ) ہو وہ جنت میں نہیں
جائے گا۔چنانچہ ایک شخص نے عرض کیا کہ کوئی شخص اس بات کو پسند
کرتا ہے کے اسکا لبا س اچھا ہو اسکی پاپوش (جوتی ) اچھی ہو تو
آ پ - صلى الله عليه وسلم- نے فرمایا: إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ
الْجَمَالَ وَلَكِنَّ
الْكِبْرَ مَنْ بَطَرَ الْحَقَّ وَغَمَصَ النَّاسَ''،
تر
جمہ:
اللہ رب العزت جمیل ہے اور وہ جمال کو پسند کرتا ہے ''کبر'' ا
ترانا غرور اورتکبر کرناہے اور ''غمط'' لوگوں کو حقیر سمجھنا
ہے۔
([10])
ڈاکٹر احمد عید
سوال : بالوں کو
سیاہ رنگنے کے حکم کے بارے میں دریافت کیا گیا۔
خلاصہ فتویٰ: بالوں کوسیاہ رنگنے کی ممانعت ہے اس وجہ
سے یہ جائز نہیں۔
الشیخ ابن عثیمین مجموع فتاوی ١١/123
تبصرہ:
بالوں کو
سیاہ رنگنے کا مسئلہ اختلافی ہے بعض کے نزدیک یہ ممنوعہ بعض کے
نزدیک مکروہ اور بعض کے نزدیک مباح (جائز )ہے ۔
علمی رد:
سرور کونین -
صلى الله عليه وسلم- کی حدیث شریف ہے: "مَنْ كَانَ لَهُ شَعْرٌ
فَلْيُكْرِمْهُ"،
تر جمہ:
جس کے بال
ہوں اسے چاہئے کہ وہ ان کی عزت کرے (انہیں سنوارے)۔
یہ حدیث شریف
امام ابوداؤد نے روایت کی ہے ان کے علاوہ دیگر احادیث شریف ہیں
جن میں سے بعض صحیح ہے مرد اور عورت کے لئے عزت وتکریم کی کئی
صورتیں ہیںہر وہ بات جو انکے مناسب اور ان کے لائق ہو عزت
وتکریم ہے مثال کے طور پر ۔ ترجیل،بالوں میں کنگھی کرنا ، تیل
لگانا ہے اسی طرح بڑھاپے کو چھپانے کے لئے انہیں رنگنا بھی ہے۔
علماء اکرام نے بالوں کو سیاہ رنگنے کے بارے میں گفتگو کی ہے
چنانچہ اکثر نے اس سے منع کیا ہے لیکن ان کے دلائل مردوں اور
اُن سن رسیدہ خواتین پر مرکوز ہےں۔ جو اپنی شادی کی خواہش میں
جوان دیکھائی دینے کی خواہاں ہوتی ہیں۔جہاں تک شادی شدہ عورت
کا تعلق ہے جس کا شوہر بیوی کے بالوں سے اچھی طرح واقف ہے اس
کا بالوں کو رنگنے میں کوئی حرج نہیں جو اسکے اور اسکے شوہر کے
لائق ہو۔یہی نہیں بلکہ ابن الجوزی نے تو مردوں کو بھی اس کی
اجازت دی ہے اور اسکی ممانعت کے بارے میں جو کچھ واردہوا ہے
اسے فریب اور اطاعت کی طرف عدم توجہی پر محمول کیا ہے ۔جب کے
سن رسیدہ انسان کو اپنے رب سے ملاقات کی تیاری کے طور پر اس کی
اطاعت کرنی چاہئے ۔حنابلہ کا خیال ہے کہ بالوں کی سفیدی کو
تبدیل کرنے کے لئے یہ سنت ہے اور سیاہ رنگنا مکروہ ہے اسحاق بن
راھویہ نے عورت کو اس کی اجازت دی ہے کہ وہ اپنے شوہر کے لئے
بناؤ سنگھار کرسکتی ہے اور یہ جنگ کے لئے مکروہ نہیں ہے شوافع
کے نزدیک مردوعورت دونوں کے لئے سفید بالوں پر زرد یا سرخ رنگ
کا خضاب لگانا مستحب ہے لیکن سیاہ خضاب لگانا حرام ہے ختم ۔
جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بالوں کو سیاہ
رنگنے کے بارے میں علماء کے درمیان اختلاف ہے بعض نے اس سے
روکا ہے بعض کے نزدیک یہ مباح ہے اور بعض کے نزدیک یہ مکروہ
ہے۔ واللہ اعلم۔
ڈاکٹر عبداللہ الفقیہ کی
زیر نگرانی مرکز فتویٰ کی رائے:
مرد اور عورت
دونوں کے لئے بالوں کو سوائے سیاہ رنگ کے کسی بھی رنگ میں
رنگنے کی ممانعت نہیں ہے اہل علم میں سے بعض نے اسے مکروہ اور
بعض نے حرام بتایا ہے غالبا یہ آخری رائے راجح ہے ([11])۔
ڈاکٹر احمد
عید
سوال : غیر اسلامی ممالک میں
رہنےكے
بارے میں دریافت کیا گیا۔
خلاصہ فتوی:
کام تجارت اور تعلیم کے لۓ ان ممالک میں رہنا جائز نہیں۔ صرف
علم وبصیرت تبلیغ اسلام کے مقصد سے رہ سکتے ہیں۔
الشيخ ابن
باز مجموعھ فتاوے9/401-402
تبصرہ:
كسى بهى
مسلمان كا ايسى جگہ سكونت اختيار كرنا جائز ہے جہاں وه اپنے
دينى شعائر كى ادائيگى ، معاشرے ميں مثبت اقدامات ميں شركت،
اپنے دين كى خوبيوں، اخلاق حسنہ اور اعلى اقدار كو قائم ركهـ
سكتا ہو.
مسلمان پر
بحيثيت مسلمان لازم ہے كہ وه نيكى كا حكم دے اور برائى سے منع
كرے خواه وه اسلامى يا غير اسلامى يا دينى اعتبار سے مخلوط
معاشرے ميں رہتا ہو. اور يہ كہ جس معاشرے ميں وہ رہتا ہے اسكے
مفادات كيلئے مثبت سرگرميوں ميں شريک ہو.
علمی
رد:
جب زمين كے
كسى بهى خطے ميں اگر مسلمان كى جان اور دين محفوظ ہو، اور اسے
ايسے حقوق حاصل ہوں كہ وہ اپنے دينى شعائر بلا ضرر ادا كرسكے
تو ايسے خطے ميں سكونت اختيار كرنے كے بارے ميں تين احكام ہيں:
پہلا حكم :
جائز ہے كيونكہ اس جگہ يا كسى دوسرى جگہ سكونت اختيار كرنے ميں
كوئى فرق
نہيں.
دوسرا حكم:
مستحب ہے يہ اس حالت ميں ہےكہ وہ اس خطے اور كسى دوسرے خطے
كےمقابلے ميں ، معاشرے ميں مثبت سرگرميوں ميں شركت، اپنے دين
كى خوبيوں، اخلاق حسنہ اور اعلى اقدار كو قائم ركهـ سكتا ہو.
تيسرا حكم:
واجب ہے يہ اس صورت ميں ہےكہ جب اسكے ہجرت كرنے سے ضرر اور
فساد يقينى ہو.
اسى پر ان
آيات كريمہ اور حديث مباركہ كا اطلاق كيا جاتا ہے، ارشاد بارى
ہے:
﴿إِنَّ
الَّذِينَ تَوَفَّاهُمْ الْمَلائِكَةُ ظَالِمِي أَنفُسِهِمْ
قَالُوا فِيمَ كُنتُمْ قَالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي
الأَرْضِ قَالُوا أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةً
فَتُهَاجِرُوا فِيهَا فَأُوْلَئِكَ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ
وَسَاءَتْ مَصِيراً﴾
(النساء 97)، تر جمہ: بے شک جن لوگوں کی روح فرشتے اس
حال میں قبض کرتے ہیں کہ وہ دشمن ماحول میں رہ کے اپنے جانوں
پر ظلم کرنے والے ہیں تو وہ ان سے دریافت کرتے ہیں کہ تم کس
حال میں تھے (تم نے اقامت دین کی جدوجہد کی نہ سر زمین کفر کو
چھوڑا)؟ وہ(معذرۃ ) کہتے ہیں کہ ہم زمین میں کمزور وبےبس
تھے،فرشتے (جوابا) کہیں گے کیا اللہ کی زمین فراخ نہ تھی کہ تم
اس میں کہیں ہجرت کر جاتے۔ سو یہی وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانا
جہنم ہے ۔اور وہ بہت ہی برا ٹھکانا ہے۔
اور حديث
مباركہ ہے: (انا بری من کل مسلم یقیم بین اظھر المشرکین) میں
مشرکوں کے درمیان رہنے والوں سے بری ہوں" ( اسکی تخریج امام
ابوداؤد نے 2645 اور ترمذی نے 1609 کی ہے).
محقیقین کا
کہنا ہے اگر دار کفر میں مسلمان کا رہنا دار اسلام میں مفید
ہو،دار کفر میں تعلیم اور اپنی مصلحتوں کو پورا کرنے کی غرض سے
دار کفر میں موجود مسلمانوں کیلۓ مفید ہو یا اسلام اور اسکے
اصولوں کی نشر واشاعت نیز اسکے بارے میں پیدا کردہ شبہات کے
ازالے کیلۓ مفید ہو تو اس حالت میں اسکی اس معاشرے میں
موجودگی وہاں سے ہجرت کرنے سے افضل ہے ،اس کے لۓ ضروری ہے کہ
وہ قوی الایمان،قوی الشخصیت اور صاحب اثر نفود ہو تاکہ وہ ا س
کام کی ادائیگی کر سکے۔
ابتدائی زمانوں
میں مبلغین اور تاجروں کا کافروں کے ممالک میں اسلام کی
نشرواشاعت میں بڑااثر رہا ہے([12]).
مسلمان پر
بحيثيت مسلمان لازم ہے كہ وه نيكى كا حكم دے اور برائى سے منع
كرے خواه وه اسلامى يا غير اسلامى يا دينى اعتبار سے مخلوط
معاشرے ميں رہتا ہو. اور يہ كہ جس معاشرے ميں وہ رہتا ہے اسكے
مفادات كيلئے اسلامى نقطہ نظر كے مطابق مثبت سرگرميوں ميں
شريک ہو.
پروفیسر ڈاکٹر
سعود بن عبداللہ الفنیسان:
حصول علم یا
علاج یا تجارت کی غرض سے کافروں کے ملک کی طرف سفر کرنا جائز
ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں بلکہ تعلیم کی غرض سے آپکے سفر پر
اجر بھی ملے گا انشاء اللہ،اور آپ اللہ ربالعزت کی اطاعت ،نیک
کام اور ان ممالک کے لوگوں، وہاں رہنے والوں کو حسب استطاعت
اسلام کی دعوت دینے کی پابندی کرتے رہیں ۔ان ممالک میں۔
موجود مساجد
اور اسلامی مراکز میں دعوت اسلامی اور عمومی منفعت کے امکانات
کافی میسر ہیں ۔جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث
شریف: "انا بری من کل مسلم یقیم بین اظھر المشرکین" ( اسکی
تخریج امام ابوداؤد نے 2645 اور ترمذی نے 1609 کی ہے) "میں
مشرکوں کے درمیان رہنے والوں سے بری ہوں " میں وارد ممانعت کے
بارے میں آپکے خوف کا تعلق ہے تو علماء کرام نے اسکی تفسیر یہ
بیان کی ہے کہ اگر کافروں کے درمیان رہنے کی خواہش حصول علم یا
علاج یا تجارت یا طلب رزق یا اللہ رب العزت کی طرف دعوت دینے
وغیرہ جیسے شرعی اسباب کے علاوہ ہو اور مسافر صرف کافروں کے
ممالک یا اسکے باشندوں سے محبت کا قصد کرتا ہے تو حدیث میں
اسکی ممانعت ہے۔اللہ آ پ کو توفیق دے اور آپکی مدد فرماۓ اور
اس سے آپکو نفع پہنچاۓ۔
ڈاکٹر
یاسر عبدالعظیم
سوال : مذہبي اور
قومي عيد دن اور مناسبات کو منانے کے بارے ميں حکم دريافت کيا
گيا؟
خلاصہ فتوى:
مذہبي مناسبات کے علاوہ دوسري مناسبات کا منانا جائز نہيں۔ صرف
ان عيد کا منانا جائز ہے جنکے منانے کا شرعي طور پر ذکر موجود
ہے۔ مثال کے طور عيد الفطر اور عيد الاضحے۔
عيد مادر:
قومي دن اور سالگرہ يہانتک کہ اسرا اور معراج جيسے ايام مساجد
کے افتتاح اسيطرح کے ديگر ايام منانا جائز نہيں۔ يہ بدعت
اورمذہب ميں بعد کي پيدہ کردہ چيزيں ہيں۔
اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیہ والافتاء ج
3/59-61
تبصرہ:
کسي مناسبت
کا جشن منانا اچھا ہے اسمين کوئي حرج نھيں جبکہ مقصد جائز اور
منانے کا طريقہ مذہب کے دائرے ميں ہو۔ جشن کو عيد کا نام دينے
ميں کوئي نقصان نہيں۔ نصيحت اعلے کامون ميں ہے نامون مين نہين۔
اور ہر نئي بات بدعت مذموم نہيں۔ حضرت عمر نے مسلمانون کے ايک
بڑے مجمع ميں ايک امام کے پيچھے نماز تراويح کے بارے ميں
فرمايا يھ کتني اچھي بدعت ھے۔
علمي رد:
عيدون کا لفظ
ہر آدمي کے بارے ميں بولا جاتا ہے جو واپس اور بار بار آتي ھے
اور غالبا يہ جماعت کي سطح پر ہوتي ہے خواہ يہ خاندان ہو يا
اہل گاوں يا اہل قلم۔ ان عيدون پر جشن منانے کا مفہوم انہيں
اہميت دينا ہے۔ اور جن مناسبات کا جشن منايا جاتا ہے يھ محض
دنيوي بھي ہوتى ہيں اور ديني بھي۔ مذہب اسلام دنيوي جشن کو منع
نہيں کرتا بشرطيکہ انکا مقصد اچھا ہو اور اسکے مظاہر شريعت کي
حدود ميں ہوں۔ جہانتک مذہبي جشن کا تعلق ہے تو ان ميں سے بعض
مقرر ہيں جيسے عيد الفطر اور عيد الاضحے۔ اور بعض غير مقرر ہيں
جيسے ہجرت اسرا اور معراج اور عيد ميلاد النبي۔ جو عيديں غير
مقرر ہيں انہيں اسي طريقہ سے منايا جائے جو شريعت نے بتايا ہے
اور انہيں شريعت کي حدود سے باہر نہيں ہونا چا ہئے۔ جہانتک غير
مقرر عيدون کا تعلق ہے تو انکو منانے کے بارے ميں لوگوں کے دو
مواقف ہيں ايک موقف منع کا ہے کيونکہ يھ بدعت ہے اور ايک موقف
جائز ہونے کا ہے۔ کيونکے ممانعت کے بارے ميں کوئي نص يعني
عبارت نہيں ہے۔
ممانعت کے
حامي امام نسائي اور ابن حبان کي صحيح سند سے روايت کردہ اس
حديث شريف کو حجت بناتے ہيں کہ حضرت انس نے کہا: نبي کريم -
صلى اللہ عليھ وسلم- مدينہ شريف تشريف لائے اور انکے لئے دو
دن تھے جنميں وہ کھيلتے تھے۔ سو آپ - صلى اللہ عليھ وسلم- نے
فرمايا:
"َقَدْ أَبْدَلَكُمْ اللَّهُ بِهِمَا خَيْرًا مِنْهُمَا يَوْمَ
الْفِطْرِ وَيَوْمَ الْأَضْحَى"،
تر جمہ:
اللہ رب
العزت نے تمھارے لئے ان دو دنوں کو ان سے بہتر دوسرے دو دنون
سے بدل ديا، يوم الفطر اور عيد الاضحے۔
اس بنياد پر
ان دو عيدوں کے علاوہ دوسري جتني عيديں ہيں وہ بدعت ہيں اسکا
جواب يہ ديا جاتا کہ حديث شريف نے عيدون کو ان دو عيدون ميں
محدود نہيں کيا ہے، بلکہ اہل مدينہ کي عيدوں جو انہوں نے فرس
سے لي تھي ان دو عيدوں کي افضليت بيان کي گئي اور اسکا ثبوت يہ
ہے کہ يوم جمعہ کو عيد کا نام ديا گياہے۔
اور ان دو
عيدون کے علاوہ کسي اور دن خوشي اور مسرت کو منع کرنے والي
کوئي عبارت وارد نہيں ہوئي، قرآن کريم ميں سورة روم کے آغاز
ميں روم کي فتح و نصرت کي خاطر دوسري اقوام پر اللہ رب العزت
کي مدد پر مسلمانون کي خوشي کو بيان کيا ھے، جبکے روم مغلوب
تھے، اور جيسا کہ جواب ديا جاتا ہے کہ ھر نئي بات بدعت مذموم
نہيں ہے، حضرت عمر نے ايک امام کي اقتدا ميں نماز تراويح کے
بارے ميں مسلمانوں کے اجتماع سے فرمايا: يہ کتني اچھي بدعت ہے۔
خلاصہ کلام
يہ ہے: کسي بھي اچھي مناسبت کا جشن منانے ميں کوئي حرج نہيں
بشرطيکہ اسکا مقصد جائز اور اسلوب مذہب کي حدود ميں ہو اور جشن
کو عيد کا نام دينے ميں بھي کوئي نقصان نہيں ھے، کيونکہ نصيحت
اعلے کاموں ميں ھے ناموں ميں نہيں۔
شيخ سلمان
عودہ کے نزديک ولادت پر ايک سال گزرنے کا جشن يعني سالگرہ
منانا جائز ہے، انہوں نے يہ بھي کہا، ولادت پر ايک سال گزرنے
يا انسان کے کسي بھي خوشي کے موقع مثال کے طور پر شادي پر ۲۰
سال گزرنے کا جشن منانا جائز ہے اور وہ وليمہ کي تقريب منعقد
کرے جسميں وہ رشتہ داروں اور دوستوں کو مدعو کرے، شيخ عودہ نے
ام بي سي چينل پر ،، الحياة کلمہ ،، کے زير عنوان اپنے پروگرام
ميں مزيد کہا، اس جشن کو عيد کا نام دينے کا حکم پہلے سے معروف
ہے، اور وہ ممانعت کا ہے، اور سالانہ مناسبات کا جشن عيد کي
اصطلاح کا ذکر کئے بغير منانا جائز ھے، جيسے ولادت کي مناسبات
ايک سال گزرنے کي مناسب کا جشن يا شادي پر ۲۰ سال ھونے کي
مناسبت اسيطرح کي ديگر مناسبات کا جشن منانا جائز ہے۔
شيخ عودہ نے
لفظ عيد سے بچنے کي ضرورت کي دعوت دي ہے جو شريعت اسلام کے
منافي ہے، جيسے شريعت اسلام مسلمانوں کے لئے سال ميں دو عيديں
مقرر ہيں۔
ڈاکٹر ياسر
عبدالعظيم
سوال : فوٹو
گرافی ، تصویروں ،مجسموں اور بچوں کے کھلونوں کے حکم کے بارے
میں بارے دریافت کیا گیا۔
خلاصہ فتویٰ:
ذی روح (جاندار) کی تصویر بنانا حرام ہے۔ خواہ یہ مجسم ہو یا
کاغذ یا کسی اور چیز پر ہاتھ یا آلے سے بنائی گئی ہو۔ اور
تصویر کی کمائی حرام ہے۔ اور اسے دیواروں پر لٹکانا یا یادگار
کے طور پر انہیں رکھنا حرام ہے۔ جس جگہ تصویریں ہو وہاں یا جن
کپڑوں پر تصویریں ہو انہیں پہن کر نماز پڑھنا جائز نہیں سوائے
ضرورت کے۔ بچوں کی گڑیا حرام ہیں۔ ضرورت کیلئے مثال کے طور پر
پاسپورٹ اسی طرح ویزا کے امور کے لئے تصویر کھنچوانے کی اجازت
دی جاتی ہے۔
اللجنۃ ادائمۃ للبحوث
العلمیہ والافتاء ١/٤٥٥۔ ٤٥٧
تبصرہ:
انسان اور
جانوروں کی فوٹو گرافی تصویروں یا ہاتھـ سے تصویریں یا تصویر
بنانے میں کوئی حرج نہیں بہ شرطیکہ لوگوں کیلئے مفید علمی
مقاصد کیلئے کی گئی ہوں۔ تصویریں اور رسوم تعظیم کے مظاہر اور
تکریم و عزت کے خیالات یا فواحش اور ممنوعہ امور کے ارتکاب کے
خاطر خواہشات کو ابھارنے سے خالی ہوں۔ اور جاندار کا پورا
مجسمہ جائز نہیں ۔ بچوں کی تعلیم اور ان کی تفریح کیلئے بچوں
کے کھلونوں خواہ یہ مجسموں کی صورت میں ہو استعمال کرنا جائز
ہے۔
علمی رد:
ایک بت پرست
قوم اور معاشرے میںرسول اللہ -صلى الله عليه وسلم- پر قرآن
کریم نازل ہوا۔ یہ قوم اپنے بت تراش کر خانہ کعبہ کے اطراف
رکھتی تھی وہ تصویریں بناتے اور اُن کی عبادت کرتے تھے۔ رسول
اللہ -صلى الله عليه وسلم- نے اپنی بہت سی احادیث میں تصویروں
اور انہیں بنانے کی مذمت کی ہے۔ غالباً یہ اللہ رب العزت کی
تخلیق سے مشابہت اور اسے چھوڑ کر اِن تصویروں اور بتوں کی
عبادت کرنے کی وجہ سے ۔ امام بخاری اور حدیث شریف کی کتابوں کے
دیگر مؤلفین کی روایت کردہ احادیث شریف اسی مفہوم پر دلالت
کرتی ہیں ۔ فقہاء کی کتابوں میں بار بار آیا ہے کہ انسانوں اور
جانوروں کی اس وقت معروف ضوئی تصویر اور ہاتھ کی بنائی ہوئی
تصویر اگر لوگوں کیلئے مفید علمی مقاصد کیلئے ہوں تو ان میں
کوئی حرج نہیں۔اور یہ تصویریں اور خاکے تعظیم کے مظاہر ، عزت و
تکریم کے خیالات اور عبادت سے خالی ہوں اسی طرح یہ تصویریں
ممنوعہ جنسی خواہشات کو ابھارنے ، فحاشی کو پھیلانے ، ممنوعہ
باتوں کے (حرام افعال) کے ارتکاب پر آمادہ کرنے والے عوامل سے
پاک ہوں۔
جہاں تک سنگ تراشی اور کھدائی کے کام جن سے جاندار کا پورا
مجسمہ تیار ہوتا ہے كا تعلق ہے تو یہ حرام ہے۔ امام بخاری اور
امام مسلم نے (حضرت) مسروق سے روایت کی ہے: انہوں نے کہا: ہم
عبداللہ کے ساتھ ایک گھر میں داخل ہوئے جس میں مجسمے تھے انہوں
نے ان میں سے ایک مجسمہ کے بارے میں کہا : یہ کس کا مجسمہ ہے؟
انہوں نے کہا: یہ (حضرت) مریم کا مجسمہ ہے، (حضرت) عبداللہ نے
کہا: رسول اللہ -صلى الله عليه وسلم- نے فرمایا: "إن أشد
الناس عذابا يوم القيامة المصورون،
وفي رواية الذين يصنعون هذه الصور يعذبون يوم القيامة يقال لهم
أحيوا ما خلقتم''، "روز قیامت مصوروں کو شدید ترین عذاب دیا
جائے گا''۔ ایک اور روایت میں ہے کہ: ''ان تصویروں کو بنانے
والوں کو روز قیامت عذاب دیا جائے گا۔اور ان سے کہا جائے گا ،
تم نے جو بنایا ہے اسے زندہ کرو۔ (ان میں جان ڈالو)۔
یہ نص واضح
ہے کہ مجسموں کا بنانا گناہ ہے اور اس کی حکمت بت پرستی اور
انہیں اللہ رب العزت سے تقرب کا وسیلہ بنانے کا دروازہ بند
کرنا ہے۔ امام قرطبی نے اپنی کتاب الجامع لاحکام القرآن میں
اللہ رب العزت کے اس فرمان:
﴿یَعْمَلُوْنَ
لَہ، مَا یَشَآءُ مِنْ مَّحَارِیْبَ وَ تَمَاثِیْلَ﴾
(سورۃ
سبأ آیت نمبر ١٣)، (وہ جنات) اُس کیلئے وہ چیزیں بناتے جو کچھ
وہ چاہتا ، اونچے اونچے محل اور تصویریں۔
اسکی تفسیر میں لڑکیوں کے مجسم کھلونوں (گڑ یوں) کو بت تراشی
کی حرمت سے مستثنیٰ قرار دیتے ہیں۔ جیسا کہ ثابت ہے کہ( اُم
المومنین حضرت) عائشہ صدیقہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) جب دلھن بن
کر رسول اللہ - صلى الله عليه وسلم- کے پاس آئیں اور ان کا
کھلونا اُن کے پاس تھا ، وہ رسول اللہ -صلى الله عليه وسلم-
کے سامنے اس کھلونے سے کھیلا کرتی تھیں۔ اور ان کے ساتھ ان کی
سہیلیاں بھی ان کے ساتھ کھیلا کرتی تھیں۔ اور جب رسول اللہ -
صلى الله عليه وسلم- تشریف لاتے تو وہ حیاء کرتی ہوئی آپ -
صلى الله عليه وسلم- سے چھپ جاتی تھیں۔ ([13])
ڈاکٹر
عبداللہ الفقیہ
کی زیر نگرانی فتویٰ مرکز کے مطابق تصویریں ٣ قسم کی ہوتی ہیں:
(١) جاندار کی مجسم تصویر : یہ شرعی طور پر ممنوع ہے
اور اس میں اختلاف نہیں ہونا چاہئے۔
(٢)ہاتھـ
سے بنائی ہوئی جاندار کی غیر مجسم تصویر : یہ تصویر اللہ
رب العزت کی تخلیق کے مشابہہ ہونے کے ضمن میں آتی ہے اس وجہ سے
اکثر اہل علم نے اس سے منع کیا۔ اور بعض علماء نے اس کی اجازت
دی ہے۔
(٣) عکسی
تصویر: یہ کیمرے اور ویڈیوں کی تصویریں ہوتی ہیں۔ ان کے
بارے میں اہل علم کے درمیان اختلاف ہے۔ بعض اسے جائز قرار دیتے
ہیں اور بعض اس سے روکتے ہیں۔ ہم اس کے جائز ہونے کی طرف مائل
ہیں ۔ ([14])
واللہ اعلم.
ڈاکٹر یاسر عبدالعظیم
سوال : ٹیلی ویژن کا مشاہدہ
کرنے کا حکم دریافت کیا گیا۔
خلاصہ فتوی: عقیدے اور اخلاق پر ٹیلی ویژن کے نقصانات
پر ، ان میں گانے، موسیقی اور تصویریں ہونے نیز اسی طرح کے
دیگر منکر امور دکھائے جانے کی وجہ سے اسے دیکھنا جائز نہیںہے۔
الشیخ ابن
باز: مجموعہ فتویٰ ٣/٢٢٧
تبصرہ:
اگر ٹیلی
ویژن مفاسد سے محفوظ ہو تو مفید پروگرام کا مشاہدہ کرنا اور ا
سے رکھنا جائز ہے۔ اور اگر ٹیلی ویژن کے مفاسد سے محفوظ نہ رہا
جائے تو اسے اپنے یہاں رکھنا اور اسکا مشاہدہ کرنا جائز نہیں۔
علمی رد:
ٹیلی ویژن پر
ایسی متعدد معلومات پیش کی جاتی ہیں کہ ان آلات کے نہ ہونے کی
صورت میں ان معلومات کا حصول بہت سے لوگوں کے لئے مشکل ہوتا ہے
یہ معلومات اور پروگرام اصلاً جائز ہوتے ہیں۔ اور انسانی عقیدے
اور اخلاق پر ان کے منفی اثرات مرتب نہیں ہوتے۔ اور اگر یہ
نقصان دہ نہ ہو تو ان کا سننا اور مشاہدہ کرنا جائز ہے۔ اور
اگر ٹیلی ویژن پر پیش کئے جانے ولاے پروگرام اس کے برعکس ہو
ںتو یہ ممنوع ہیں اور اس کی ذمہ داری مشاہدہ کرنے والے اور
پروگرام پیش کرنے والے دونوں پر عائد ہوتی ہے۔ اس کے بارے میں
اکثر یہ دریافت کیا جاتا ہے کہ اس میں ناچنے والی عورتوں ،
اداکاراؤں اور دوسری عورتوں کو دکھایا جاتا ہے۔ جو اپنی زیب و
زینت اور سنگھار کو ظاہر کرتی ہیں۔ اور جسم کے اُن حصوں کو
کھلا رکھتی ہیں جنہیں ڈھاپنے کا اللہ رب العزت نے حکم دیا ہے۔
تو اس کے جواب میں یہ کہا جاتا ہے کہ مشاہدہ کرنے والا عورتوں
کو نہیں دیکھتا بلکہ ان کی تصویروں کو دیکھتا ہے ۔ ٹیلی ویژن
کے آنے سے پہلے فقہاء کرام نے آئینہ میں عورت کی صورت کو
دیکھنے کے حکم کے بارے میں اپنی آرا ء کا اظہار کیا تھا آیا
آئینہ میں عورت کی شبیہہ دیکھنا عورت کو دیکھنے کے حکم میں آتا
ہے یا نہیں؟اس کے بارے میں اُن کی آرا ء مختلف ہےں۔ راجح رائے
یہ کہ اگر یہ شہوت کے ارادے سے ہو تو یہ جائز نہیں۔ کیونکہ یہ
ممنوعہ امر اور بڑی معصیت اور گناہ میں مبتلا ہونے کا ذریعہ
ہے۔ اس طرح کا ہر مشاہدہ اور فعل دونوں حرام ہیں۔ خواہ یہ براہ
راست ہو یا آئینہ کے واسطہ سے ہو۔ اور اگر معیار اور وجہ فتنہ
ہو تو لوگوں میں اس امر میں اختلاف ہے کہ کس میں فتنہ ہے اور
کس میں فتنہ نہیں۔ ہر شخص اپنے آپ سے زیادہ واقف ہے۔ بے ضرر
اور اچھے کھیلوں نیز ڈراموں کے مشاہدہ کے جائز ہونے کی دلیل وہ
حدیث شریف ہے جو امام بخاری اور امام مسلم نے ( اُم المومنین
حضرت) عائشہ صدیقہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) سے روایت کی ہے۔
انہوں نے کہا : میں نے نبی اکرم - صلى الله عليه وسلم- کو
دیکھا کہ آپ - صلى الله عليه وسلم- مجھے اپنی چادر مبارک میں
چھپائے ہوئے تھے اور میں حبشیوں کو دیکھ رہی تھی جو کھیل رہے
تھے اور میں نو عمر تھی۔ تم بھی (اے مسلمانوں ) نو عمر لڑکی جو
کھیلنے پر مفتون ہو، کی قدر کیا کرو۔ ایک دوسری روایت کا مفہوم
ہے :حبشی عید کی خوشی میں نیزے ہلا ہلا کر پہلوانی کے کرتب
دکھا رہے تھے۔ ( اُم المومنین حضرت) عائشہ صدیقہ (رضی اللہ
تعالیٰ عنہا) نے یہ کرتب دیکھنا چاہا تو آپ - صلى الله عليه
وسلم- آگے اور وہ پیچھے کھڑی ہوگئیں۔ اور جب تک وہ خود تھک کر
نہ ہٹ گئیں آپ- صلى الله عليه وسلم- برابر اوٹ کئے کھڑے رہے۔
کتاب المطالب
العالیہ از ابن حجر ([15])میں
ہے کہ ( اُم المومنین حضرت) عائشہ صدیقہ (رضی اللہ تعالیٰ
عنہا) در گلہ نامی کھیل دیکھتی تھیں یہ بچوں کے مارنے کے
کھیلوں میں سے ایک ہے اور یہ بھی کہا گیا کہ یہ رقص ہے ۔ اسلام
نے بے ضرر لطف اندوزی کی اجازت دی ہے۔ اور اس کی تاکید اس حدیث
شریف سے ہوتی ہے کہ رسول اللہ - صلى الله عليه وسلم- نے (حضرت
)ابو بکر صدیق (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے اس وقت جب کہ حضرت ابو
بکر صدیق (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے اُن بچیوں کو گانے سے منع
کیا جو ( اُم المومنین حضرت) عائشہ صدیقہ (رضی اللہ تعالیٰ
عنہا) کے لئے عید کے دن گارہی تھیں ، یہ فرمایا کہ: "دعهن يا
أبا بكر فإنها أيام عيد، لتعلم اليهود أن في ديننا فسحة، وإنى
أرسلت بالحنيفية السمحة" اے
ابو بکر انہیں گانے دو یہ عید کے ایام ہیں تاکہ یہودی جان لیں
کہ ہمارے مذہب میں خوشی ہے اور میں رواداری والے دینِ حنیف کے
ساتھ بھیجا گیا ہوں۔ یہ حدیث امام احمد نے ( اُم المومنین
حضرت) عائشہ صدیقہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) سے روایت کی ہے۔
یہاں یہ کہنے کی چنداں ضرورت نہیں کہ رسول اللہ - صلى الله
عليه وسلم- نے (اُم المومنین حضرت) عائشہ صدیقہ (رضی اللہ
تعالیٰ عنہا) کو حبشہ کھیل دیکھنے اور گیت سننے کی اجازت اس
وجہ سے دے دی تھی کہ وہ ابھی کم سن اور بالغ نہیں تھیں۔ یا ان
پر حجاب (پردہ) فرض اور کھیل ممنوع ہونے سے پہلے تھا۔ اور اگر
ایسا ہوتا تو اس حکم کے بارے میں فقہاء کے درمیان اختلاف نہیں
ہوتا۔ ([16])
ڈاکٹر
عبداللہ الفقیہ کی زیر نگرانی مرکز فتویٰ کی رائے:
ٹیلی ویژن
رکھنے اور اس کا مشاہدہ کرنے کا بیان اس سے پہلے ہوچکا ہے ۔
سابق جواب نمبر ١٨٨٦ ۔ ہمارا فیصلہ یہ ہے کہ اگر ٹیلی ویژن
کے مفاسد سے محفوظ رہا جائے تو مفید پروگرام دیکھنا اورٹیلی
ویژن رکھنا جائز ہے اور اگر اس کے فساد اور خرابیوں سے بچا نہ
جاسکے تو اسے رکھنا اور اسکا مشاہدہ کرنا جائز نہیں۔ ([17])
ڈاکٹر یاسر
عبدالعظیم
سوال : مخلوط
تعلیم کا حکم دریافت کیا گیا ہے۔
خلاصہ فتویٰ:
مخلوط تعلیم جائز نہیںاور نہ ہی مخلوط اسکولوں میں تعلیم حاصل
کرنا جائز ہے۔
اللجنۃ الدائمہ فتاویٰ اسلامیہ٣/١٠٣اویٰ اسلامیہ٣/١٠٣
تبصرہ:
اختلاط (مرد
اور عورت کا ساتھ ہونا) میں تجاوزات ہونے کی وجہ سے تعلیم اور
کام کر ترک کرنا درحقیقت دو نقصانات میں سے بڑے نقصان کا
ارتکاب کرنا ہے۔ جبکہ شرعاً واجب یہ ہے کہ دو نقصانات میں سے
کم نقصان کو قبول کیا جائے۔ اگر تجاوزات اور خلاف ورزیاں وقوع
پذیر ہوں تو حکمت اور اچھی نصیحت سے انہیں سمجھایا جائے اور
راہ راست پر لایا جائے ۔
علمی رد:
آغاز ِ اسلام
کے وقت ہی سے بازاروں ، مساجد اور دوسری جگہوں پر مرد اور
عورتوں کا اختلاط پایا جاتا رہا۔ لیکن یہ پابندی کے اندر اور
شرعی آداب کے دائرے میں تھا۔ کسی بھی دانشگاہ اورکام کے ادارے
میں مرد اور عورتیں اُسی طرح موجود ہوتی ہیں جس طرح کہ راستوں
میں ، بازاروں میں ، اور عمومی اجلاسوں میں جاتے ہوئے ہوتے ہیں
اور ہر جنس کو چاہئے کہ وہ شرعی آداب کی پابندی کرے۔ جن میں سب
سے اہم اللہ رب العزت کا یہ ارشاد ہے:
﴿قُلْ لِلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوا مِنْ اَبْصَارِہِمْ وَیَحْفَظُوا
فُرُوْجَہُمْ﴾
(النورر ٣٠)،
ترجمہ: اے
محبوب - صلى الله عليه وسلم ) مسلمانوں کو حکم دیں کہ وہ اپنی
نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔
دوسری آیت
کریمہ میں ہے:
﴿وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِہِنَّ وَیَحْفَظْنَ
فُرُوْجَہُنَّ وَلاَ یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ اِِلَّا مَا
ظَہَرَ مِنْہَا وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلٰی
جُیُوبِہِنَّ﴾(النورر ٣١)، (اسی طرح ) مسلمان عورتوں کو حکم دیں کہ وہ اپنی نگاہیں
نیچی رکھیں اور اپنی عصمت کی بھی حفاظت کریں اور اپنا بناؤں
ظاہر نہ کریں مگر جتنا خود ہی ظاہر ہے اور اوڑھنیاں اپنی
گریبانوں پر ڈالیں رہا کریں ۔ سورۃ النور: آیت نمبر٣٠۔٣١ سنت
نبوی شریف میں مشکوک خلوت ابھارنے والے مس (چھونا) غیر مؤدب
گفتگو ، تیز عطر اور انتہائی ازدحام، اسی طرح کے دیگر امور جن
باتوں سے روکا گیا ہے ان کی پابندی کی جائے۔ ہر جنس اپنے
مطلوبہ آداب کی پابندی کرے اور جو ان آداب کی خلاف ورزی کرے تو
اللہ رب العزت کے فرمان ہے:
﴿وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ
یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ﴾ (التوبۃ ٧١)
ترجمہ:
"اورمسلمان مرد اور عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے مدد گار ہیں۔
حکم کرتے ہیں اچھے کاموں کا اور منع کرتے ہیں برے کاموں سے"۔
لیکن ایسا حکمت اور خوش اسلوبی سے کیا جائے۔ اور وہ اسے مان لے
یا کم از کم اس کے بری الذمہ ہونے کی امید کی جائے۔
وعظ و نصیحت کے واجب ہونے کے سلسلے میں اللہ رب العزت کا یہ
ارشاد ہے:
﴿واِذْ قَالَتْ اُمَّۃٌ مِّنْھُمْ لِمَ تَعِظُوْنَ قَوْمَا نِ اللّٰہُ
مُھْلِکُھُمْ اَوْ مُعَذِّبُھُمْ عَذَابًا شَدِیْدًا قَالُوْا
مَعْذِرَۃً اِلٰی رَبِّکُمْ وَ لَعَلَّھُمْ یَتَّقُوْنَ
﴾
(الأعراف ١٦٤)،
ترجمہ:
اور جب کہا
ایک گروہ نے اس بستی والوں میں سے کیوں نصیحت کرتے ہو اُن
لوگوں کو جنہیں اللہ تعالیٰ ہلاک کرنے والا ہے یا سخت عذاب
انہیں دینے والا ہے۔ بولے تمہارے رب کے سامنے عذر کرنے والوں
کیلئے اور شاید کہ وہ ڈر بھی جائےں۔
اللہ رب العزت کے اس فرمان کے مطابق آداب اسلامی کی مخالفت پر
خاموشی اختیار کرنا جائز نہیں۔ ا للہ رب العزت کا ارشاد ہے: .﴿عَلَیْکُمْ اَنْفُسَکُمْ لَا یَضُرُّکُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا
اھْتَدَیْتُمْ﴾
(المائدۃ ١٠٥)،
تم
اپنی حفاظت کرو ،تمہارا کچھ نہ بگاڑے گا وہ شخص جو گمراہ ہوا
جب کہ تم راہ راست پر ہو۔
چنانچہ ہدایت
اور راہ راست پر اسی وقت آیا جاسکتا ہے جب کہ امر بالمعروف و
النھی عن المنکر کے واجب کی ادائیگی کی جائے۔ جیسا کہ دوسری
نصوص میں آیا ہے اور اگر نصیحت کرنے کے بعد بھی اس کا نتیجہ
سامنے نہ آئے تو اس برائی کو دل سے برا جاننا اور اُس کا انکار
کرنا واجب ہے۔ اور مخالفین سے ایسا سلوک کیا جائے کہ وہ یہ
محسوس کریں کہ ہم اُن سے خوش نہیں ہیں۔ اس طرح ہوسکتا ہے کہ وہ
اپنے رویہ اور سلوک کو تبدیل کرنے کے بارے میں سوچےں ۔ اس قسم
کے مخلوط فضاؤں یا معاشروں میں تعلیم یا کام ترک کرنے میں مشقت
اور پریشانی ہے۔ تقریباً تمام یا اکثر میدانوں میں خواہ وہ
عالمی معاشرے ہو ں یا مقامی ، مرد اور عورت دونوں ہی ہوتے ہیں۔
چنانچہ جو کوئی بھی ایسی جگہوں پر ہو اسے چاہئے کہ وہ آدابِ
اسلامی کی پابندی کرنے کے ساتھ ساتھ حکمت اور اچھی نصیحت کے
فرض کی ادائیگی بھی کرتا رہے۔ اور یہی بات شرعاً واجب ہے۔ تمام
جگہوں پر مردوں اور عورتوں کو مکمل طورایک دوسرے سے علیحدہ
کرنا بالخصوص اس زمانہ میں ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور
ہے۔ مرد اور عورت کے اختلاط یا حد سے تجاوز ہونے کی وجہ سے
تعلیم یا کام کو ترک کرنا دو شر میں سے بڑے شر کا ارتکاب ہے۔
کیونکہ اس میں کام یا حصو ل علم کا ضیاع ہے جو انسان یا امت پر
فرض ہے۔ اور اس کا عکس (الٹ) واجب ہے کہ ہم علم حاصل کرےں اور
کام کریںخواہ یہ مخلوط طریقے پر ہو اس طرح ہم دو شر میں سے
ہلکے یا کم شر کے مرتکب ہوتے ہیں، اور اسی کے ساتھ ساتھ حکمت
اور موعظہ حسنہ سے نصیحت کرنے کے واجب کی ادائیگی بھی کرتے
رہیں۔ جو ہم پر شرعاً واجب ہے۔ اور یہ واجب انسان کو گناہ اور
پریشانی سے محفوظ رکھتا ہے۔ واللہ اعلم ([18])۔
ڈاکٹر
یاسر عبدالعظیم
سوال :اجنبی
(دوسری اقوام کی) زبانیں سیکھنے کے حکم کے بارے میں دریافت کیا
گیا.
خلاصہ فتویٰ : اگر اجنبی (دوسری اقوام کی ) زبانیں
سیکھنے کی ضرورت نہ ہو تو ان کا سیکھنا مکروہ (ناپسندیدہ).
اللجنہ الدائمہ للبحوث العلمیہ والافتاء12/133
تبصرہ:
زبانیں اچھی
طرح سیکھنا ان میں مہارت حاصل کرنا ، ان کے اسرار سے واقف ہونا
جائز امر ہے۔ ا س میں مشغول ہونے والا ایک ایسے علم کے حصول
میں مشغول ہوتا ہے جس کی نہ صرف قدر و قیمت اور اہمیت ہے بلکہ
ثواب بھی ہے۔ بشرطیکہ نیت اچھی ہو اور اسے جائز طریقہ پر
استعمال کیا جائے۔
علمی رد:
اسلام کی دعو
ت دینے کیلئے مسلمانوں میں دوسری اقوام کی زبانیں جاننا نہایت
ضروری ہے۔ بالخصوص آج کی دنیا میں زندگی گزارنے کیلئے اس کے
بغیر چارہ نہیں۔ اور دوسری اقوام کی زبان کو سیکھنے سے منع
کرنے والی کوئی نص نہیں ملتی۔بلکہ اس کی طرف بلانے اور اس پر
زور دینے والی نصوص موجود ہیں۔
امام بخاری
(حضرت) زید بن ثابت (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے روایت کرتے ہیں
کہ رسول اللہ - صلى الله عليه وسلم- نے یہود کی کتاب کی تعلیم
حاصل کرنے کا حکم فرمایا۔ یہاں تک کہ میں نے رسول اللہ - صلى
الله عليه وسلم- کے فرامین لکھے۔ اور ان کی (یہود )جانب سے آپ
- صلى الله عليه وسلم- کے نام آئی تحریروں کو پڑھ کر سنایا۔
اور ابو جمرہ نے کہا میں ابن عباس اور لوگوں کے درمیان ترجمہ
کیا کرتا تھا۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے حاکموں کیلئے ترجمہ کرنے
والوں کا ہونا انتہائی ضروری اور ناگزیر ہے۔
جب (حضرت)
زید مدینہ شریف تشریف لائے تو رسول اللہ - صلى الله عليه وسلم-
کو ان کا مدینہ شریف آنا پسند آیا کیونکہ وہ اکثر قرآن کریم کے
حافظ تھے۔ آپ - صلى الله عليه وسلم- نے اُن سے فرمایا:
" تعلم كتاب يهود، فإنى ما آمن من يهود على كتابى"،
یہود کی کتاب (تحریر) سیکھو، مجھے اپنی تحریر کے بارے میں
یہودیوں پر بھروسہ نہیں۔ چنانچہ آ پ نے آدھے مہینے یعنی ١٥ دن
میں یہ زبان سیکھ لی اور یہودیوں کے نام آپ - صلى الله عليه
وسلم- کے فرامین لکھے۔ اور جب انہوں نے آپ - صلى الله عليه
وسلم- کو تحریر بھیجی تو اُسے آپ - صلى الله عليه وسلم- کی
خدمت میں پڑھ کر سنایا۔
چنانچہ
(حضرت) زید نے رسول اللہ - صلى الله عليه وسلم- کے حکم پر عبری
اور سریانی زبانیں سیکھیں ۔ کیونکہ ان زبانوں کی ضرورت تھی۔
علماء کرام نے زبان کو اچھی طرح سیکھنے اور صحیح ترجمہ کے بارے
میں گفتگو کی ہے۔ تاکہ احکام اور قضیوں کے بارے میں یہ ترجمہ
دستاویز کی مانند اور موسوخ ہو۔
اس کی روشنی
میں یقین دھانی ہوتی ہے کہ زبانوں کو اچھی طرح سیکھنا اور ان
کے اصرار ورموز سے واقف ہونا جائز امر ہے اور اس کے حصول میں
مشغول رہنے والا شخص درحقیقت ایسے علم کے حصول میں مشغول رہتا
ہے جس کی قدر و قیمت ، اہمیت اور جس کے حاصل کرنے پر ثواب ہے۔
بشرطیکہ سیکھنے والے کا قصد و ارادہ اور اس کا استعمال
جائزہو۔([19])
ڈاکٹرعبداللہ الفقیہ کی زیر نگرانی مرکز فتویٰ کی رائے: ضرورت
ہو تو انگریزیں اور اسی طرح کی دوسری زبانیں سیکھنے میں کوئی
حرج نہیں اوراگرمعاشرےکےبعض مفادات انہیں زبانوں پرموقوف ہو ں
تو ان کا سیکھنا فرض کفایہ ہوجاتا ہے۔ ([20])
واللہ اعلم.
ڈاکٹر یاسر عبدالعظیم
سوال : تعلیم میں موسیقی اور آلات موسیقی استعمال کرنے کے حکم کے بارے
میں دریافت کیاگیا۔
خلاصہ فتویٰ: تعلیم اور اسلامی نغموں وغیرہ میں موسیقی اور ان کے علاوہ
دوسرے مقاصد کیلئے لھوو لعب کے آلات استعمال کرنا جائز نہیں۔
اللجنۃ الدائمۃ
للبحوث العلمیہ والافتاء ١٢/١٨٣۔١٨٦
تبصرہ:
موسیقی کے
ساتھ نغمے گانے کے حکم کے بارے میں فقہاء کی آرا ء مختلف ہیں
جو حرام اور مباح کے درمیان ہیں۔ جنہوں نے اس کی اجازت دی ہے
انہوں نے حسن کلام کی موجودگی اور نسواں سے ہم کلامی اور
فضولیات سے پاک ہونے کی شرط لگائی ہے۔
علمی رد:
موسیقی کے
ساتھ نغمے اور گانوں کے بارے میں فقہا کی آراء مختلف ہیں جو
جائز اور ناجائز ہونے کے درمیان ہیں۔ ناجائز ہونے کی آرا ء
زیادہ ہیں۔ تحقیق کار علماء کی جماعت کا خیال ہے کہ گانے کے
بارے میں جتنی بھی احادیث وارد ہوئی ہیں وہ یا تو صحیح نہیں
ہیں اور جو صحیح ہیں ان سے استدلال صحیح طور پر نہیں کیا گیا۔
یعنی اُن سے صحیح مفہوم اخذ نہیں کیا گیا۔ یا پھر موسیقی کو
حرام یا ناجائز قرار دینے والی کوئی قرآنی آیات نہیں ہیں۔
ابن العربی المالکی کا کہنا ہے کہ یہ احادیث جو گائیکی کے بارے
میں ہم پیش کرتے ہیں ان میں کوئی چیز صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ ان
کو بیان اور منتقل کرنے والے اہل ثقہ نہیں ہیں جہاں تک کھیل کے
طبلہ کا تعلق ہے جو دف کے مانند ہوتا ہے ،اسی طرح نکاح کی شہرت
اور اسکا اعلان کرنے والے آلات ہیں۔ ان آلات کا استعمال شادی
بیاہ میں جائز ہے بشرطیکہ کلام اچھا ہو اور یہ نسوانی گفت و
شنید سے پاک ہو ۔ انہوں نے شادی میں بعینہ دف بجانے کی اجازت
نہیں دی ہے بلکہ انہوں نے ہر اس آلے کے استعمال کی اجازت دی ہے
جس سے شادی کا اعلان ہوتا ہو اور لوگوں میں اسے مشہور کیا جاتا
ہو۔ (حضرت) ابو بکر صدیق (رضی اللہ تعلی عنہ) کے اس قول''یہ
کیا ؟ رسول اللہ - صلى الله عليه وسلم-کے گھر میں شیطانی
بانسری؟
چنانچہ رسول
اللہ - صلى الله عليه وسلم- نے فرمایا: "دعهن''اے ابوبکر،
انہیں چھوڑ دو (یعنی بجانے دو)آج یوم عید ہے '' کی بناء پر کہ
شادی میں بانسری کا استعمال جائز ہے ۔ لیکن عورتوں کا مردوں کے
سامنے آنا جانا اور بے پردگی جائز نہیں اور نہ ہی رفث (یعنی
عورتوں کے ساتھ گفتگو ) جائز ہے۔ ([21])
اگر اس میں
مذکورہ کوئی خلاف ورزی کی گئی تو یہ ابتدا ء ہی سے جائز نہیں
اور یہ اپنے اصل حکم سے علیحدہ ہوجاتی ہے۔ ابی مالک الاشعری کی
بخاری شریف میں وارد وہ حدیث شریف جس کا مفہوم ہے کہ رسول اللہ
- صلى الله عليه وسلم- نے فرمایا: "لَيَكُونَنَّ
مِنْ أُمَّتِى أَقْوَامٌ يَسْتَحِلُّونَ الْحِرَ وَالْحَرِيرَ
وَالْخَمْرَ وَالْمَعَازِفَ"،
ترجمہ:
''یقینا میری اُمت میں ایسی اقوام ہونگی جو لباس کو طویل ،
ریشم ، شراب اور موسیقی کو حلال کرلیگی۔ ([22])
ابن حزم نے
اس حدیث کو منقطع بتایا ہے اور امام بخاری اور اور صدقہ بن
خالد کے درمیان اس کا صلہ نہیں۔ اور اس باب میں کوئی چیز صحیح
نہیں اس میں جو بھی ہے وہ موضوع ہے۔ خدا کی قسم یہ تمام یا ان
میں سے کوئی ایک یا ایک سے زائد سلسلہ ثقات سے رسول اللہ - صلى
الله عليه وسلم- تک پہنچتی تو ہم انہیں قبول کرنے میں کوئی
تردد نہیں کرتے۔([23])
ان بیانات سے واضح ہوا کہ موسیقی کے ساتھ گانے بجانے کے بارے
میں علماء کے درمیان اختلاف ہے اور اس سے پہلے گزر چکا ہے کہ
جس مسئلہ میں علماء کا اختلاف ہو توکوئی شخص کسی ایک مفتی کے
قول کو لےتا ہے اور دوسرا شخص کسی دوسرے مفتی کے قول کوقبول
کرتا ہے۔اور اس میں جس کسی کی رائے پسند آئے اسے قبول کرنے کی
گنجائش ہوتی ہے۔ نغمے گانے کے مسئلہ میں انتہائی ضروری بات یہ
ہے کہ یہ آداب اسلامی اور اس کی تعلیمات کے خلاف نہ ہوں۔ مثلاً
کسی نغمے میں شراب کی تعریف کی جائے، اس کے پینے پلانے کی طرف
رغبت دی جائے، تو ایسا گانا پیش کرنا اور اس کا سننا دونوں
حرام ہے اور دین ہر چیز یہاں تک کہ عبادت میں بھی غلو اور حد
سے بڑھنے نیز اصراف کے خلاف جنگ کرتا ہے تو کھیل کود میں اصراف
اور وقت ضائع کرنے کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
جب کہ وقت
زندگی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ جائز امور میں وقت کا
اسراف کیا جائے تو ان میں واجبات کی ادائیگی کا وقت بھی ضائع
ہوجاتا ہے اور کسی نے یہ بات بالکل صحیح کہی ہے کہ میں نے کوئی
اسراف نہیں دیکھا جس کے ساتھ ساتھ حق کا ضیاء نہ ہوتا ہو۔واللہ
اعلم.
ڈاکٹر یاسر عبدالعظیم
[1]
فتاوى دار الإفتاء المصرية. موضوع 35. مفتى شيخ عطيہ
صقر مئى 1996ء. اور يہ معمولى رد وبدل كے ساتهـ
انٹرنيٹ سے مصرى وزارة اوقاف كى ويب سائيٹز سے نقل كيا
گيا ہے.
[2]
المغنى لابن قدامہ 2/ 158. اس نے كہا كہ رسول كريم صلى
الله عليہ وسلم نے فرمايا:
"صلّو على من
قال لا اله الا الله" كہ جو لا اله الا الله كہے اس پر
نماز پڑها كرو. اور يہ كہ يہ اجماع امت ہے.. اور
مسلمانوں كے درميان اسميں بهى اختلاف نہيں كہ تاركـ
نماز پر اسكى قضاء ہونے والى نمازوں كى ادائيگى واجب
اور فرض ہے اور اگر وه مرتد ہوتا تو اس پر روزوں اور
نمازوں كى قضاء لازم نہ ہوتى-
اور جہاں تكـ
بيان كر ده احاديث مباركہ كا تعلق ہے تو يہ سختى اور
كفار سے اسے (تاركـ نماز) تشبيه دينے كے طور پر لائى
گئى ہيں حقيقت كے طور پر نہيں جيسا كه آپ صلى الله
عليہ وسلم كا فرمان عاليشان ہے. "سباب المسلم فسوق،
وقتاله كفر" مسلمان كو گالى دينا فسق اور ا س سے لڑنا
كفر ہے.
ايكـ اور حديث
مباركہ ہے-
" ومن آتى
حائضا أو أمرأة في دبرها فقد كفر بما أنزل على محمد"
كہ جس نے حائضہ عورت سے ہم بسترى، با كسى اور عورت سے
لواطت كى تو اس نے حضور صلى الله عليہ وسلم پر نازل
شده(شريعت) كا انكار كيا.
ايكـ اور حديث
شريف ہے- "ومن قال مطرنا بنوء الكواكب فهو كافر بالله،
مؤمن بالكواكب". جس كسى نے كہا كہ هم پر سيّاروں نے
بارش كى چنانچہ وه الله تعالى كا منكر اور سياروں پر
ايمان ركهنے والا ہے. ايكـ اور مقام پر ارشاد فرمايا:
"من حلف بغير
الله فقد أشرك" جس نے الله تعالى كے علاوه كسى اور كى
قسم كهانى يس اس نے شركـ كيا. اور ايكـ اور حديث مبار
كہ ہے"شارب الخمر كعابد وثن" شراب نوشى كرنے والا بتوں
كى عبادت كرنے والے كى مانند ہے، اور اسى طرح كى دوسرى
احاديث مباركہ جن سے وعيد كى شدت بتانا مقصود ہے. اور
دونوں اقوال ميں صحيح ترين يہى(عدم كفر) ہے.
[3]
فضيلت سعود بن عبد الله الفنيسان، سابق ڈين كليہ
الشريعہ. جامعہ اسلاميه امام محمد بن سعود. الاسلام
اليوم ويب سائيٹز. بتاريخ آٹهـ ذيقعد 1427هـ
[4]
فتاوى دار الافتاء المصريہ. الموضوع(31) المفتى فضيلة
شيخ عطيہ صقر مايو 1997.
[5]
فتوى مركز زيرنگرانى ڈاكٹر عبد الله الفقيه. فتوى نمبر
59524. كافر ہميشہ جہنمى تاريخ فتوى 21 محرم 1426هـ.
[6]
سنن
الترمذی:٢٩٨٨اورکہا : یہ حدیث غریب ہے میں نے امام
بخاری سے سنا ہے وہ کہتے ہیں کہ عمر بن ھارون جنہوں نے
حدیث بیان کی ہے ان کی بیان کردہ کسی اور حدیث سے میں
واقف نہیںاور بنیادی طور پر ان کی کوئی سند نہیں ،یا
کہا انہوں نے صرف یہی حدیث شریف بیان کی ہے جس کا
مفہوم ہے رسول اللہ - صلى الله عليه وسلم- اپنی لحیہ
مبارکہ کے طول عرض میں سے ترشواتے تھے ۔یہ بات ہم صرف
عمر بن ھارون کی حدیث شریف سے جانتے ہیں اوروہ حسن
الرأی ہے یعنی ان کے بارے میں اچھی رائے ہے۔ابوعیسی
کہتے ہیں میں نے قتیبہ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ عمر
بن ھارون صاحب حدیث تھے ۔اورگویا کہ وہ کہتے تھے کہ
ایمان قول اور عمل کا نام ہے ابن حبان نے اس حدیث
کوصحیح بتایا ہے دیکھئے : تحفۃ المحتاج فی شرح
المنھاج٩/٣٧٦.
[7]
بخاری شریف میں( حضرت )عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے
اپنی لحیہ میں سے ترشوانے سے متعلق حدیث شریف ابوداؤد
نے (حضرت) جابر سے روایت کی ہے انہوں نے کہا ہم حج
اورعمرہ میں داڑھی کو ترشواتے تھے ان کے علاوہ دوسرے
ایام میں چھوڑدیا کرتے تھے (یعنی ترشواتے نہیں تھے
)منصف میں عبدالرزاق نے (٦/١٠٨)سماک بن یزید سے روایت
کی ہے انہوں نے کہا (حضرت) علی اپنی لحیہ مبارکہ کے
سامنے کے حصے سے ترشواتے تھے ابی زرعہ سے روایت ہے
انہوں نے کہا (حضرت) ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ
اپنی داڑھی کو مٹھی میں لیتے اور ایک مٹھی سے زیادہ
حصے کو ترشوادیتے تھے عطا بن ابی رباح سے روایت ہے
انہوں نے کہا وہ داڑھی کوچھوڑنا پسند کرتے تھے سوائے
حج اور عمرہ کے اور ابراہیم داڑھی میں تعارض کرنے والے
بالوں (اطراف کے بالوں کو)ترشواتے تھے ابن طاؤوس نے
اپنے والد سے روایت کی ہے وہ اپنی داڑھی کے غیر ضروری
حصے کو ترشواتے تھے ۔حضرت امام حسن سے روایت ہے :انہوں
نے کہا :وہ داڑھی کے ایک مٹھی سے زائد حصے کو ترشوانے
کی اجازت دیتے اور قاسم جب اپنا سر منڈواتے تو اپنی
داڑھی اورمونچھوں کو بھی ترشواتے تھے ۔حضرت جابر سے
روایت ہے کہ ہم داڑھی لمبائی میں صرف حج اور عمرہ میں
ترشواتے تھے ابی ہلال سے روایت ہے انہوں نے کہا :میں
نے (حضرت)امام حسن اور ابن سیرین سے دریافت کیا توان
دونوں نے کہا :اپنی داڑھی کی لمبائی کے کچھ حصہ کو
کاٹنے میں کوئی حرج نہیں(حضرت) ابراہیم سے روایت ہے کہ
انہوں نے کہا کہ وہ اپنی داڑھیوں میں خوشبو لگاتے اور
اطراف میں سے ترشواتے تھے۔
[8]
شوافع کی یہاں معتمد بات یہ ہے کہ داڑھی کو چھوڑنا سنت
اور اسے منڈوانا مکروہ ہے ۔شوافع کی حنابلہ کے یہاں
بھی دوروایات ہےں سنت اور واجب مالکیہ نے داڑھی کی حد
مقرر نہیں کی ہے ان کے یہاں اسے چھوڑنے یا چھوٹی کرانے
پر مسئلہ ختم ہو جاتا ہے بلکہ ان کے یہاں داڑھی اتنی
چھوڑنا لازم ہے کے یہ نہ تو بے ہنگم ہو اور نہ ہی بہت
چھوٹی ہو اس کے لئے کوئی حد نہیں احناف کا کہنا ہے کہ
ایک مٹھی سے کم داڑھی کاٹنا جائز نہیں اور ایک مٹھی سے
زیادہ حصہ کو کاٹنا واجب یا سنت ہے ۔
[9]
الشیخ ناصر الدین الابانی :ـالسسلۃ الضعیفۃج ٥ص
٣٧٥اسکے بعد۔
[10]
مختلف مسالک کے علماء کی رائے یہ ہے کہ کپڑوں کا غیر
ضروری لمبا ہونا اگر یہ تکبر اور خودپسندی کے طور پر
ہو تو حرام ہے اوریہ تکبر اوربڑائی کے طورپرنہ ہو
توحرام نہیں،فقہ حنفی کی کتاب فتاوی ہند میں ہے کہ مرد
کا اپنی چادر یعنی تہبند کو ٹخنوں سے نیچے تک لمبا
کرنااگر غرور اور تکبر کی وجہ سے نہ ہو تو مکروہ
تنزیہی ہے المنتقی شرح الموطأ(مالکی ) میں ہے کہ جس نے
طویل لمباس گھسیٹا یااس کے پاس دوسرا لباس نہ ہو یا
کوئی عذر ہو تو اس کے لئے وعید نہیں ہے ۔ الحسن بن ابی
الحسن البصری نے ابی بکر سے روایت کی ہے کہ سورج گہن
ہو اس وقت ہم رسول اللہ - صلى الله عليه وسلم- کے پاس
تھے آپ - صلى الله عليه وسلم- کھڑے ہوئے اور تیزی سے
اپنا لباس کھینچتے ہوئے مسجد تشریف لائے ۔المجموع از
اللنووی (شافعی )میں ہے لباس۔تہبند اور شلوار کو تکبر
اور خود پسندی کے طور پر ٹخنوں تک لمبا کرنا حرام ہے
اور تکبر نہ کرنے والوں کے لئے مکروہ ہے کشاف القناع
(حنبلی ):امام احمد نے کہا تہبند کا گھسیٹنااورنماز
میں چادرکو دراز کرنا اگر خود پسندی اورتکبر کے طور پر
نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
[11]
ڈاکٹر عبداللہ الفقیہ کی زیر نگرانی مرکز فتویٰ:
٢١٢٩٦تاریخ الفتویٰ ١١جمادی الثانیہ ١٤٢٣ ھ
[12]
فتاوی
دارالافتاء المصریہ الموضوع27 مفتی فضیلت شیخ عطیہ
صقر1997.
[13]
اسے
امام مسلم نے روایت کیاہے.
[14]
فتاویٰ دارالافتاء المصریہ : موضوع (١٢٧٩) المفتی:
فضیلۃ الشیخ جاد الحق علی جاد الحق جمادی الآخر ١٤٠٠ھ
، ١١ مئی ١٩٨٠ء. ڈاکٹر عبداللہ الفقیہ کی زیر نگرانی
فتویٰ مرکز : فتویٰ نمبر ٦٨٠ تاریخ فتویٰ ١٦ صفر ١٤٢٠ھ
۔ اور شیخ عثیمین کے فتووں میں ہے (٢/٣١٨)فوٹو گرافی
تصویریں جو آج ہم دیکھتے ہیں فوری طور پر آلہ تیار
کرتا ہے اور اس تصویر کی تیاری میں انسان کا کوئی عمل
نہیں ہوتا ہمارے خیال میں یہ تصویر بنانے کے ضمن میں
نہیں آتی اور احادیث شریف میں جن تصاویر کا ذکر ہے وہ
وہ تصویریں ہیں جو بندے کے فعل سے ہوں۔ اور وہ اس سے
تخلیق خدا سے مشابہہ ہوتا ہو۔ اور یہ بات آپ کے سامنے
اس طرح واضح ہوجاتی ہے کہ اگر کوئی شخص آپ کو خط لکھے
اور فوٹو گرافی کے آلے سے اس کی تصویر لے لی جائے تو
اس خط کی تصویر سامنے آتی ہے تو یہ خط جو تصویر ہے اس
شخص کا عمل نہیں جس نے آلہ استعمال کیا اور اس آلہ کو
حرکت دی۔ کیونکہ یہ شخص جس نے آلے کو حرکت دی ممکن ہے
کہ وہ بنیادی طور پر لکھنا ہی نہ جانتا ہو۔ اور لوگ
یہی جانتے ہیں کہ یہ پہلی تحریر ہے۔ اور دوسری تحری
میں آلہ کو حرکت دینے والے کا کوئی عمل نہیں۔ لیکن یہی
آلہ ممنوعہ مقاصد کیلئے تصویر بنائے تو وسائل کے حرام
ہونے کی وجہ سے تصویر حرام ہوگی۔ انہوں نے یہ بھی لکھا
ہے کہ جدید ذرائع سے تصویر بنانے کی دو قسمیں ہیں۔
پہلی قسم کی تصویر کشی میں کوئی منظر ، مشہداور مظہر
نہیں ہوتا جیسا کہ ویڈیوں تصویر کے بارے میں بتایا گیا
ہے۔ تو یہ مطلق حرام کے دائرے میں نہیں آتی۔ اس وجہ سے
کیمرے سے کاغذ پر تصویر لینے والے کو منع کرنے والے
علماء نے اس کی اجازت دی ہے۔ اور انہوں نے کہا : اس
میں کوئی حرج نہیں۔ الشرح الممتع ١/١٩٧۔١٩٩.
[15]
المطالب العا لیۃ از ابن حجر جلد ٤ صفحہ نمبر ١٢٨.
[16]
فتاویٰ دارلافتاء المصریہ : الموضوع (٧٢) المفتی فضیلۃ
الشیخ عطیۃ صقر مئی ١٩٩٧ء.
[17]
د عبداللہ الفقیہہ کی زیر نگرانی فتویٰ مرکز: فتویٰ
نمبر ١٥٧٠٢ تاریخ فتویٰ ٩ صفر ١٤٢٣ھ.
[18]
فتاویٰ داردار الافتاء المصریہ : الموضوع (١٠٤)
المفتی: فضیلۃ الشیخ عطیۃ صقر مئی ١٩٩٧ء ، فضیلۃ الشیخ
عبدالمحسن العبیکان
www.alwatanyh.com/forum.
[19] فتاوی دار
الافتاء المصریۃ : الموضوع (٣٢٨) المفتی: فضیلۃ الشیخ
عطیۃ صقر : مئی ١٩٩٧ء.
[20] ڈاکٹر
عبداللہ الفقیہ کی زیر نگرانی مرکز فتویٰ نمبر : ٥١٣١١
بتاریخ : ٢ جمادی الثانی ١٤٢٥ھ.
[21]
احکام قرآن از ابن عربی ٣/٥٢٧.
[23]
المحلی از ابن حزم ٧/٥٦٥.