اسلامى ٹيليفون سروس كى بنياد عرب جمہوريہ مصر ميں 2000ء ميں ڈالى گئى، يہ اعتدال پر مبنى دينى خدمت ہے. |    
 
 
   
English عربى الاتصال بنا روابط اخرى فتاوى شائعة من نحن Q & A الرئيسية
 
   
سوال اور جواب --> باب ششم باجماعت نماز اور امامت --> جس مسجد ميں قبر ہو اس ميں نماز ادا کرنے کا حکم  

سوال : جس مسجد ميں قبر ہو اس ميں نماز ادا کرنے کے بارے ميں حکم دريافت کيا گيا؟  

خلاصۂ فتوی: وہ مساجد جن ميں قبريں ہوں ان ميں نماز ادا نہ کی جائے ، ان ميں نماز ادا کرنا حرام ہے۔

الشيخ ابن باز ۔ مجموع فتاوی مقالات 5 / 388 389

تبصرہ:

اگر نماز سے نمازی کا مقصد قبر کی تعظيم ہو تو يہ حرام اور باطل ہے ۔ قطع نظر اسکے کہ قبر کہاں ہے ۔ اگر يہ مقصد نہ ہو اور قبر نماز کے سامنے ہو تو نمازى صحيح ہونے کے ساتھـ ساتھـ مکروہ ہے اگر قبر نمازی کے سامنے نہ ہو تو مکروہ بھی نہيں ہے۔

علمی رد:

امام بخاری اور امام مسلم نے روايت کی ہے کہ نبی کريم صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: "قاتل اللہ اليھود  اتخذوا قبور انبياءھم مساجد"، اللہ تعالی نے يہوديوں پر لعنت بھيجی کيونکہ انہوں نے اپنے انبياء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنايا۔

اور امام مسلم نے روايت کی ہے کہ نبی کريم صلی اللہ عليہ و سلم نے اپنے وصال مبارک سے پانچ ( دن ) پہلے فرمايا : کہ تم سے پہلے لوگ اپنے انبياء اور صالحين کی قبروں کو مسجد (سجده گاہ) بنا ليتے تھے خبر دار،  تم قبروں کو مساجد (سجده گاہ) نہ بنانا، بے شک ميں تمھيں اس سے منع کرتا ہوں ۔

امام بخاری اور ابن ماجہ کے علاوہ ( راويوں کی ) ايک جماعت نے آپ صلی اللہ عليہ وسلم کی يہ حديث روايت کی ہے "لا تصلوا الی القبور ولا تجلسوا عليھا"، قبروں کی طرف ( منہ کر کے ) نماز ادا نہ کرو اور نہ ہی ان پر بيٹھو ۔

علماء کرام نے ان احاديث مبارکہ کے بارے ميں ( اپنی ) أرا ء کا اظہار کيا ہے ۔ چنانچہ بعض نے کہا: قابل مذمت بات يہ ہے کہ دفن کے بعد مسجد بنائی جائے ۔ اور يہ قابل مذمت نہيں کہ پہلے مسجد کی تعمير ہو اور پھر اسکے ايک حصے ( يا کو نے ) ميں مسجد وقف کرنے والے يا کسی اور کو دفن کيا جائے ۔ ليکن امام عراقی نے کہا : کہ ظاہرا ان ميں کوئی فرق نہيں،  اگر کسی نے اس مقصد کے لئے مسجد بنائی کہ اسکے کچھـ حصے ميں اسے دفن کيا جائے تو يہ بھی لعنت ميں داخل ہی نہيں بلکہ مسجد ميں دفن کرنا حرام ہے ۔ اور اگر اس نے يہ شرط رکھی کہ اسے وہاں دفن کيا جائے تو يہ صحيح نہيں کيونکہ يہ مسجد وقف کرنے کے مقصد کے خلاف ہے۔

اگرچہ اس حديث سے بعض علماء نے (نھی )سے ممانعت ، تو بعض دوسرے علماء نے اس سے کراہت مراد لی ہے يعنی قبر کی جانب نماز صحيح تو ہے مگر کراہت کے ساتھـ ہے۔

اور جنہوں نے اسکو صحيح کہا ان ميں پھر اختلاف ہے ۔ بعض کہتے ہيں کہ قبر خواہ نمازی کے سامنے يا پيچھے ہو يا دائيں يا بائيں جانب ہو توبهى ( نماز ) مکروہ ہے۔

دوسروں نے کہا : اگر قبر نمازی کے سامنے ہو تو مکروہ ہے کيونکہ اسی حالت ميں وہ (قبر) کو مسجد بناتا۔ اور اس ميں با اسکی طرف ( منہ کر کے ) نماز ادا کرتا ہے ۔ اور اگر قبر ( نمازی کے ) پيچھے با اسکے دائيں يا اسکے بائيں ہو تو کراہت نہيں ہے۔

ائمہ ثلاثھ ( امام ابو حنيفہ ، امام مالک ، اور امام شافعی ) کے نزديک، اگر قبر نمازی کے سامنے ہو تو نماز صحيح ہونے کے ساتھـ ساتھـ مکروہ ہے اور اگر قبر نمازی کے سامنے نہ ہو تو کراہت بھی ( بلکہ صحيح ہے ) جبکہ امام احمد بن حنبل کے نزديک حرام اور باطل ہے۔

اور يہ اختلاف اس صورت ميں ہے کہ قبر مسجد ميں ہو اور اگر اس سے الگ ہو اور لوگ مزار ميں يا اس حصے ميں جہاں قبر ہے نماز ادا نہيں کرتے بلکہ مسجد ميں ادا کرتے ہيں تو اسکے جائز ہونے ۔ حرام يا مکروہ نہ ہونے ميں کوئی اختلاف نہيں ۔

خلاصہ کلام يہ ہيکہ قبر کی طرف نماز ادا کرنے کا مقصد اگر قبر کی تعظيم ہے تو يہ حرام اور باطل ہے قطع نظر اسکے کہ قبر کہاں ہے ۔ اور اگر يہ مقصد نہ ہو اور قبر نمازی کے سامنے نہ ہو تو کراہت بھی نہيں ہے ([1]) ۔  اللہ اعلم بالصواب۔

ڈاکٹر احمد عيد


[1] فتاوی دار الافتاء المصريہ الموضوع 56 . مفتی فضيلت شيخ عطيہ صقر مئی 1997 .