اسلامى ٹيليفون سروس كى بنياد عرب جمہوريہ مصر ميں 2000ء ميں ڈالى گئى، يہ اعتدال پر مبنى دينى خدمت ہے. |    
 
 
   
English عربى الاتصال بنا روابط اخرى فتاوى شائعة من نحن Q & A الرئيسية
 
   
سوال اور جواب --> باب ششم باجماعت نماز اور امامت --> فاسق اور بدعتی کی امامت کا حکم  

سوال : فاسق اور بدعتی کی امامت کے بارے ميں دريافت کيا گيا؟  

خلاصۂ فتوی:  فاسق اور بدعتی کے پيچھے نماز ادا نہ کی جائے۔

اللجنھ الدائمھ للبحوث العلميھ والافتاء 7 / 364

تبصرہ:

صحابہ کرام اور تابعين فرسقوں اور بدعتيوں کے پيچھے نماز ادا کرنے تھے۔

ہر وہ شخص جسکی اپنی نماز صحيح ہے تو اسکے ( پيچھے ) دوسروں کی نماز بھی صحيح ہے۔

علـمی رد:

امـام بخـاری – رضی اللہ عنہ – نے روايت کی ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر   – رضی اللہ عنہ – حجاج بن يوسف الثقفی کے پيچھے نماز ادا کرتے تھے ، اور امام مسلم نے روايت کی ہے کہ ابو سعيد الخدری – رضی اللہ عنہ – نے " مروان " کے پيچھے نماز عيد ادا کی اور حضرت عبداللہ بن مسعود – رضی اللہ عنہ – نے وليد بن عقبھ بن ابی معيط کے پيچھے نماز ادا کی اور وہ شراب پيتے تھے ( اور اسی وجہ سے ) ايک مرتبہ اس نے نماز فجر کی چار رکعتيں پڑھاديں تو حضرت عثمان – رضی اللہ عنہ – اس وجہ سے اسے کوڑے مارے تھے ، اور صحابہ کرام اور تابعين ابن عبيد کے پيچھے نماز ادا کرتے تھے در آنحالانکہ اس پر بے دينيت کا الزام تها اور وہ گمراہی کی طرف بلايا کرتے تھے۔

ہر وہ شخص جسکی اپنی نماز صحيح ہے اسکے ( پيچھے ) دوسروں کی نماز بھی صحيح ہے ليکن منحرفين کے پيچھے نماز ادا کرنا مکروہ ہے۔

ايک مرتبہ ايسا ہوا کہ کسی شخص نے ايک قوم کی امامت کی ، اور اس نے قبلے کی سمت تھوکا جبکہ نبی کريم – صلی اللہ عليہ و سلم – اسے ديکھـ رہے تھے چنانچہ آپ – صلی اللہ عليہ و سلم – نے ( ان لوگوں سے ) فرمايا کہ ( اب ) وہ تمھيں نماز نہ پڑھائے ۔ تو انہوں نے اس وجہ سے اسے نماز پڑھانے سے منع کر ديا ۔ جب اس نے حضور – صلی اللہ عليہ و سلم – سے شکايت کی تو آپ – صلی اللہ عليہ و سلم – نے اسے فرمايا: "نعم، انك آذيت اللہ و رسولھ")[1](، "ھاں، تم نے اللہ اور اسکے رسول کو اذيت دی ہے"۔

اگر نيک شخص موجود ہو تو اسکے پيچھے نماز ادا کرنا افضل ہے اور اگر کسی بدنام اور منحرف کے پيچھے نماز اس وجہ سے ضروری ہو جائے کہ اسکا کام امامت ہے تو اسکے پيچھے نماز جائز ہے ليکن اسکے ساتھـ اسے يہ نصيحت کرنا واجب ہے تاکہ لوگ اس  سے راضی اور اسکی امامت سے مطمئن ہوں ۔ چنانچہ ابن ماجہ نے اپنی سنن ، اور ابن حبان نے اپنی صحيح ميں ايک حديث مبارکہ روايت کی ہے " اللہ تعالی تين آدميوں کی نماز قبول نہيں کرتا ۔ وہ امام جسے قوم نا پسند کرتی ہو ۔ اور وہ عورت جس نے اس حالت ميں رات گزاری کہ اسکا شوھر اس سے ناراض تھا ، قطع تعلقی کرنے والے دو بھائی"، گو کہ فاسق کے پيچھے نماز ادا کرنا مکروہ ہے مگر يہ صحيح ہے باطل نہيں ۔

اور امام بخاری اور امام مسلم کی بيان کردہ روايات کے علاوہ امام بيھقی کی يہ حديث بھی اسکی تائيد کرتی ہے ۔"صلوا خلف كل برّ وفاجر"، ہر نيک اور بدکار کے پيچھے نماز ادا کرو، ہر نيک اور بدکار کے پيچھے نماز ادا کرو اور ہر نيک اور بدکار کے ساتھـ ملکر کوشش کرو۔

شيخ عبداللہ بن حميد کے فتاوی ميں ہے کہ : اھل علم کی اکثريت نے بيان کيا ہيکہ فاسق کے پيچھے نماز ادا کرنا صحيح ہے ۔ اور جس نے اس کے پيچھے نماز ادا کی اس کو حضور –  صلی اللہ عليہ و سلم – کے اس فرمان :کے مطابق اسے نماز لوٹانے کا حکم نہيں ديا جاتا ہے جسميں آپ نے فرمايا: " صلوا خلف من قال لا الھ الا اللہ " ([2]) ۔ ہر اس کے پيچھے نماز ادا کرو جس نے " لا الھ الا اللہ " کہا ہے۔ اللہ اعلم بالصواب.

ڈاکٹر احمد عيد


[1] ابو داود ، اور ابن حبان نے روايت کی ہے ابو داود ( اسکے حکم کے بارے ميں ) خاموشی اختبار کی ،يہ حديث مقبول ہے۔

[2] ابو نعيم نے 1 / 320 ۔ دارقطنی 2 / 56 پر روايت کی ہے۔