اسلامى ٹيليفون سروس كى بنياد عرب جمہوريہ مصر ميں 2000ء ميں ڈالى گئى، يہ اعتدال پر مبنى دينى خدمت ہے. |    
 
 
   
English عربى الاتصال بنا روابط اخرى فتاوى شائعة من نحن Q & A الرئيسية
 
   
سوال اور جواب --> باب ششم باجماعت نماز اور امامت --> با جماعت نماز کا حکم  

سوال : با جماعت نماز کے حکم کے بارے ميں دريافت کيا گيا؟  

خلاصۂ فتوی: مسجد ميں با جماعت نماز ادا کرنا ہر مکلف پر فرض عين ہے۔

الشيخ ابن باز تبصرہ وذکری صـ 53 – 57

الشيخ سعيد عبدالعظيم www.alsalafway.com

تبصرہ:

جمہور علماء کے نزديک با جماعت نماز ادا کرنا ہر مکلف پر فرض عين نہيں ہے بلکہ يہ سنت مؤکدہ  يا فرض کفايہ ہے ، اگر بعض لوگ با جماعت نماز ادا کر ليں تو باقيوں پر سے (جماعت) ساقط ہو جاتی ہے۔

علمی رد:

بـا جماعت نماز کے حکم کے بارے ميں علمـاء کرام کے درميان اختلاف ہے ۔ امام احمد بن حنبل – رضی اللہ عنہ – کی رائے کے مطابق با جماعت نماز کی قدرت رکھنے والے ہر شخص پر يہ فرض عين ہے انکی دليل حضور – صلی اللہ عليہ و سلم – کی يہ حديث مبارکہ ہے ۔ کہ : آپ – صلی اللہ عليہ و سلم – نے ايک نابينے آدمی کو گھر ميں نماز ادا کرنے کی اجازت دينے سے انکار فرما ديا ، اور يہ با جماعت نماز کے واجب ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہے کيونکہ اگر يہ واجب نہ ہوئی تو آپ – صلی اللہ عليہ و سلم – اسے اجازت دے ديتے۔

انکی دوسری دليل حضرت ابو ھريرہ – رضی اللہ عنہ – سے مروی مسلم شريف کی يہ حديث مبارکہ ہے کہ : ان النبى – صلى الله عليه و سلم – قال: "لقد هممت أن آمر فتيتي فيجمعوا لي حزما من الحطب "، اس کا مفہوم يہ ہيکہ نبی کريم – صلی اللہ عليہ و سلم – نے فرمايا : ميں نے ارادہ کيا کہ اپنے نوجوانوں کو لکڑياں اکٹھی کرنے کا حکم دوں ۔ پھر ايسے لوگوں کی طرف آؤں جو بغير عذر کے گھروں ميں نماز ادا کرتے ہيں ، اور انکے گھروں کو آگ لگا دوں ۔

يہ حديث مبارکہ بھی با جماعت نماز کے واجب ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہے ۔

 جمہور علماء کرام ( جيسے ) امام ابو حنيفہ – رضی اللہ عنہ – ، امام مالک – رضی اللہ عنہ – اور اکثر فقھاء شافعيہ کے نزديک با جماعت نماز ادا کرنا سنت مؤکدہ ہے۔

انہوں نے اس متفق عليہ حديث شريف سے استدلال کيا ہے کہ : أن رسول الله – صلى الله عليه و سلم – قال "صلاة الجماعة تفضل على صلاة الرجل وحده بسبع و عشرين درجة " ([1]

حضور نبی اکرم – صلی اللہ عليہ و سلم – نے فرمايا : با جماعت نماز ادا کرنا تنہا نماز ادا کرنے پر ستائيس درجے قضيلت رکھتا ہے ۔

يہ حديث جواز پر دلالت کرتی ہے کيونکہ واجب کيلئے افضل و غيرہ کے الفاظ نہيں کہے جاتے ، اور جمہور علماء نے بيان فرمايا ہے کہ حضور – صلی اللہ عليہ و سلم – کا نابينا صحابی (حضرت ابن ام مکتوم) کو با جماعت نمازسے پيچھے رہنے کی اجازت نہ دينا اسکے واجب ہونے کی دليل نہيں يہانتک کہ عذر والوں پر بھی ۔ يہ اس وجہ سےكہ آپ – صلی اللہ عليہ و سلم – حضرت ابن ام مکتوم كى نيکی اور بهلائى کی خواہش سے واقف ہيں،  اور آپ – صلی اللہ عليہ و سلم – انکی ذہانت اور کسی بھی راہنما کے بغير جماعت ميں شريک ہونے کی قدرت رکھنے سے بھی واقف ہيں ۔

جبکہ آپ – صلی اللہ عليہ و سلم – نے ( حضرت ابن ام مکتوم ) کے علاوہ  دوسرے  صاحب عذر کو انکے گھر ميں نماز ادا کرنے اور مسجد ميں جماعت کيلئے نہ جانے کی اجازت فرمائی تھی۔

چنانچہ حضرت امام بخاری اور امام مسلم نے روايت کی ہے ، حضرت عتبان بن مالک جو کہ غزوہ بدر ميں شرکت کرنے والے صحابہ کرام ميں سے ہيں، انہوں نے عرض کی: يا رسول اللہ ميری نظر کمزور ہوگئی ہے اور ميں نمازميں اپنی قوم کی امامت کرتا ہوں ۔ جب بارش ہوتی ہے تو ميرے اور انکے درميان برساتی نالہ حائل ہو جاتا ہے اور ميں انکی مسجد ميں جا کر انہيں نماز نہيں پڑھا سکتا ، يا رسول اللہ ميری شديد خواہش ہے کہ آپ ميرے يہاں تشريف لائيں اور ميرے گھر ميں نماز ادا فرمائيں ۔ تاکہ ميں ( اس جگہ ) کو جائے نماز نبالوں ۔

تو آپ – صلی اللہ عليہ و سلم – نے اسکی دعوت قبول فرمائی اور اسکے گھر ميں (نماز کی) دو رکعتيں ادا فرمائيں ۔

اور انہوں نے يہ بھی بيان کيا ہے کہ وہ حديث جو جماعت سے پيچھے رہ جانے والوں کے گھروں کو جلا دينے كےبارے ميں ہے يہ حديث جماعت کے واجب ہونے پر دلالت نہيں کرتی ۔ کيونکہ با جماعت نماز اگر واجب ہوتی تو پيچھے رہنے والوں کے گھروں كو جلانا صحيح ہوتا اور آپ – صلی اللہ عليہ و سلم – انکی نا فرمانی کی سزا کے طور پر انکے گھروں کو جلانے ميں تاخير نہ فرماتے۔

ليکن آپ – صلی اللہ عليہ و سلم – نے ايسا نہ کيا جو اسکے واجب نہ ہونے کی دليل ہے اور اسکا مقصد يہ ہيکہ يہ ( با جماعت نماز ) اھم ہے يا يہ کہ اس سے مراد حقيقی معنی نہيں بلکہ ڈرانا مقصود تھا کيونکہ جلانا صرف کفار کيلئے ہے اور مسلمانوں کو جلانے کی ممانعت پر اتفاق ہے ، يا  اس سے مراد نماز جمعہ ہے، يا يہ کہ پہلے پہل ( ابتدائے اسلام ميں ) تمام لوگوں کو پيغام حق پہنچانے اور انکی راہنمائی کيلئے حضور – صلی اللہ عليہ و سلم – کی انکو جمع کرنی کی خواہش کی وجہ سے فرض تھی اور پھر اسکی فرضيت منسوخ ہوگی ہو ۔

اور اکثر اھل علم کی رائے يہ ہيکہ با جماعت نماز ادا کرنا فرض کفايہ ہے ۔ اھل محلہ کو چاہيے کہ وہ اسے قائم کريں اور اگر ان ميں سے بعض نے ادا کرلی تو باقيوں سے( جماعت كى فرضيت ) ساقط ہو جائيگی ۔ اور انکے حق ميں سنت ہوگی ۔ اور يہ اس لئے کہ موذن کی اذان کا جواب دينا اور با جماعت نماز ادا کرنا اسلامی شعائر کا اظہار ہے ۔

اور اسی رائے کو ترجيح دی جاتی ہے کيونکہ يہ تمام دلائل کی جامع ہے ۔

اور ايک جماعت کی رائے ہے کہ اگر کسی کی بيوی اور بچے ہوں تو وہ انکے ساتھـ گھر ميں با جماعت نماز ادا کرتا ہے ۔ اور اگر وہ انہيں چھوڑ کر مسجد ميں لوگوں کے ساتھـ نماز ادا کرے تو وہ نماز ترک کرتے ہيں ۔ ( اس صورت ميں ) انکو چھوڑ نے اور مسجد ميں اپنی نماز ادا کرنے سے افضل يہ ہيکہ وہ انکے ساتھـ با جماعت نماز ادا کرے ۔ جبتک کہ مسجد ميں اسکے علاوہ کوئی ايسا شخص موجود ہو جو لوگوں کی امامت کرے ۔([2]) اللہ اعلم بالصواب.

ڈاکٹر احمد عيد


[1] بخاری و مسلم اور اصحاب سنن نے روايت کيا يہ ترمذی کے الفاظ ميں 5/2 .

[2] تفسير قرطبی ج 1 – 348 ۔ المغنی از ابن قدامہ  ج 2 ۔ صـ 2 .