اسلامى ٹيليفون سروس كى بنياد عرب جمہوريہ مصر ميں 2000ء ميں ڈالى گئى، يہ اعتدال پر مبنى دينى خدمت ہے. |    
 
 
   
English عربى الاتصال بنا روابط اخرى فتاوى شائعة من نحن Q & A الرئيسية
 
   
سوال اور جواب --> باب چہارم طہارت اور فطرى سنتيں --> عطر وغیرہ میں كيميكل کے استعمال کا حکم  

سوال : عطر وغیرہ میں كيميكل کے استعمال کے حکم کے بارے میں دریافت کیا گیا؟  

خلاصہ فتوی :  چنانچہ جواب دیا گیا کہ ناجائز ہے کیونکہ یہ نشہ آور اور نجس ہے۔

                                                                       فتاوی اللجنہ الدائمہ (13- 54- 55 )                                                                                                                           الشیخ سعید عبدالعظیم www.alsalafway.com

تبصرہ:

كيميكل کى نجاست میں اختلاف ہے ۔اور اسکا استعمال میڈسن ،صفائی مختلف تجزیاتی معاینوں  اور عطر وغیرہ میں عام ہو چکا ہے ۔اور اسکی پاکیز گی کا قول معتبر دلائل پر مبنى ہیں ۔

علمی رد:

كيميكل سے تیا ر کردہ عطور کے استعمال کا حکم كيميكل کے حکم پر منحصر ہے کہ کیا وہ نجس ہے یا ناپاک؟   اس میں علماء کا اتفاق ہے کہ اسکا پینا حرام ہے کیونکہ یہ نشہ آور ہے اور ہر نشہ آور چیز (خمر) شراب ہے اور ہر شراب حرام ہے ۔جیسا کہ حدیث مبارکہ میں آیا ہے۔

اسکو شراب کی مانند کہنے والو ں کے درمیان اسکى ناپاکی پر اختلاف ہے۔ چنانچہ چاروں ائمہ کرام کے نزدیک شراب نجس ہے ،کیونکہ ارشاد باری تعالی ہے۔

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلاَمُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (المائدہ 90)، تر جمہ: اے ایمان والو ںبےشک شراب اور جوا اور (عبادت کے لۓ) نصب کۓ گۓ بتوں اور (قسمت معلوم کرنے کے لۓ ) فال سب ناپاک اور شیطانی کام ہے سو تم ان سے پرہیز کرو تاکہ تم فلاح پاجاؤ.

اس حکم میں بعض اسلاف جیسے امام مالک کے استاد امام ربیعہ ،لیث بن سعد او رالمزنی وغیرہ  نے اختلاف کیا ہے ۔اور انکی راۓ میں شراب پاک ہے ،اور انہو ںنے اسکے حرام کرنےکی نص کے نازل ہونے پر مدینہ منورہ میں شراب کے بہا‎ۓ جانے کے واقعہ سے اسکی پاکیزگی کا استدلال کیا ہے، اور کہا ہے کہ اگر یہ ناپاک ہوتی تو صحابہ کرام ایسا نہیں کرتے  اور یقینا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس سے منع فرماتے تھے جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رستے میں پاخانہ اور پیشاب کرنے سے منع فرمایا تھا اور اس بنا پر كيميكل پاک ہے۔

اور جمہور کے نزدیک اسکے نجس ہو نے کی دلیل جوکہ مذکورہ آیت کریمہ ہے، کا جواب دیا ہے کہ یہا ں نجاست حکمی ہے ۔جیسا کہ مشرکین  کے نجس ہونے پر اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ﴿إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ (التوبہ 28)، تر جمہ: مشرکین تو سراپا نجس ہیں۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ حرام چیز حکما نجس ہے۔

اور اسکی تائید اس سے ہوتی ہے كہ آیت کریمہ میں الرجس جوکہ شراب ،جوۓ نصب کۓ گۓ بت اور فال کے تیرو ں کی صفت ہے ۔اور کسی نے بھی ان چیزوں کی نجاست کو نجاست حقیقی نہیں کہا ۔لہذا شراب بھی ایسے ہی ہے اور اسکی نجاست حقیقی نہیں بلکہ نجاست حکمی ہے ،اور اسے نجاست حقیقی ثابت کرنے کے لۓ دلیل کی ضرورت ہے([1]

اور متاخرین میں سے امام شوکانی ،ضعانی مؤلف کتاب سبل السلام ،صدیق حسن خان ،روضۃالھبہ اور شیخ محمد رشید رضا نے اپنی تفسیر میں اسکے بارے میں اس طرح بیان کیاہے کہ علماء اسلام کے نز دیک شراب کی ناپاکی  کا مسئلہ اختلافی ہے ۔

امام ابو حنیفہ کے نز دیک نبیذ پاک ہے اور اس میں كيميكل ہوتا ہے اور كيميكل شراب نہیں ہوتی ہے اور   یورپی عطور كيميكل نہیں بلکہ ان میں كيميكل کی کچھـ مقدار پائی جاتی ہے جیسے بالاتفاق دوسری اشیاء میں پائی جاتی ہے ۔ اور بے شک اسکو نجس کہنےکی کوئی وجہ نہیں ۔یہاں تک کہ شراب کو نجس کہنے والو ں کے پاس بھی دلیل نہیں ۔

اور جبکہ یہ ایک اختلافی معاملہ ہے اور شاید میڈسن ،صفائی کرنے ، مختلف تجزیاتی معاینوں اور عطور وغیرہ میں اسکا استعمال عام ہونے کے بعد آسانی کے لۓ رجحان اسکی پاکیزگی کے قول کی طرف ہے1 اور وہ آجکل مختلف چیزو ں سے نکالاجاتاہے ۔

اس بنا پر جسم یا لباس وغیرہ کو اگر کو لو نیا  لگ جاۓ تو اسکا دھونا لاز م  نہیں اوراسکے ساتھـ نماز ادا کرنا بھی صحیح ہے([2])

شیخ ابن عثمین نے کہا ہے کہ ایسی خوشبو جن میں کولونیا یا الکوہل ہو تا ہے ان دونو ں میں ہمیں فرق کرنا چاہۓ تو ہم کہتے ہیں کہ اگر اسکا استعمال کم ہو جاۓ تو نقصان نہیں دیتی تو انسان کو چاہۓ کہ وہ اسے بغیر پریشانی کے استعمال کرے جیسے کہ اسکی مقدار 5 فیصد یا اس سے بھی کم ہو تو اسکی تاثیر نہیں ۔ہا ں اگر اسکی مقدار زیادہ ہو کہ وہ اثر کرتی ہے تو پھر افضل یہ ہے کہ انسان اسے ضرورت جیسے زخم کی صفائی وغیرہ كے علاوہ استعمال نہ کرے ۔جبکہ اگر ضرورت نہ ہو تو افضل یہ ہے کہ وہ استعمال ہی نہ کرے اور ہم یہ بھی نہیں کہتے کہ یہ حرام ہے۔([3])

 

 ڈاکٹر أنس أبو شادى


[1]  امام نودی نے  مجموع میں کہا ہے آیت کریمہ سے واضح دلالت ظاہر نہیں ہوتی کیونکہ اہل لغت کے نزدیک الرجس سے مراد گندگى ہے اور اس سے نجاست لازم نہیں آتی ،اور اسی طرح اجتناب کا معاملہ ہے اس سے بھی نجاست لازم نہیں ہوتی اور اس کے بارے میں جو کچھـ  بھی کہا گیا اس میں امام غزالی نے جو  بیان کیا ہ ےوہ اقرب ہے کہ کتے کے جوٹھے پر قیاس کرتے ہوۓ اس سے منع کرنے کے لۓ نجاست غلیظہ کا حکم لگایا جاتاہے ۔ اللہ اعلم  المجموع از نودی  2/ 582 ۔ 

 [2] فتاوی دارلافتاء المصریہ موضوع 9 ،مفتی فضلت شیخ عطیہ صقر مئی 1997 ۔

[3] کتاب فتاوی السلامیہ سوال وجواب ج/1 ص171 سوال نمبر 1365، لقاءالباب المفتمح از ابن عثمین 240۔