اسلامى ٹيليفون سروس كى بنياد عرب جمہوريہ مصر ميں 2000ء ميں ڈالى گئى، يہ اعتدال پر مبنى دينى خدمت ہے. |    
 
 
   
English عربى الاتصال بنا روابط اخرى فتاوى شائعة من نحن Q & A الرئيسية
 
   
سوال اور جواب --> باب چہارم طہارت اور فطرى سنتيں --> جمعہ کے غسل کا حکم  

سوال : جمعہ کے غسل کے بارے مین کیا حکم ہے؟  

خلاصہ فتوی: جمعہ کى نماز میں شرکت کرنے والے ہر بالغ شخص پر غسل جمعہ واجب ہے ۔

                                  الشیخ ابن عثیمن ،مجموع فتاوی و رسائل 16/135

 تبصرہ:

 اکثر اہل علم کے نزدیک جمعہ کا غسل  واجب نہیں ہے اور کہا گیا ہے کہ اسی پر اجماع ہے۔

  علمی رد :

جمعہ کے نماز میں شرکت کرنے والے ہر بالغ شخص پر غسل کرنا ،صاف کپڑے پہننا اور خوشبو لگانا مستحب ہے ،اسکے مستحب ہونے مین کو ئی اختلاف نہیں  اور اسکے بارے مین بہت سی صحیح احٓادیث  ہيں ،انہیں میں سے حضرت سلمان فارسی رضی اللھ عنہ سے مروی ہے ،انہوں نے کہا کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ و صلم نے ارشاد فرمایا: "لَا يَغْتَسِلُ رَجُلٌ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَيَتَطَهَّرُ بِمَا اسْتَطَاعَ مِنْ طُهْرٍ وَيَدَّهِنُ مِنْ دُهْنِهِ أَوْ ‏ ‏يَمَسُّ ‏‏مِنْ طِيبِ بَيْتِهِ ثُمَّ يَرُوحُ إِلَى الْمَسْجِدِ فَلَا يُفَرِّقُ بَيْنَ اثْنَيْنِ ثُمَّ ‏ ‏يُصَلِّي مَا كَتَبَ اللَّهُ لَهُ ثُمَّ يُنْصِتُ لِلْإِمَامِ إِذَا تَكَلَّمَ إِلَّا غُفِرَ لَهُ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجُمُعَةِ الْأُخْرَى" اسے امام بخاری نے روایت کیا ھے، جو آدمی جمعہ کے دن غسل کرے جہان تک ہو سکے  صفائی و پا کیزگی کا خیال کرے اور جو تیل خوشبو اسکے گھر مین ہو وہ لگائے ،پھر وہ گھر سے نماز کے لے جائے اور مسجد مین پہنچ کر اسکی احتیاط کرے کہ جو آدمی پہلے سے ایک ساتھـ بیٹھے ہوئے ہوں انکے بیچ نہ بیٹھے،[جگہ تنگ نہ کرے ] پھر نما ز یعنی سنن و نوافل کی جتنی رکعتین اسکے لے مقدر ہون پڑھے ،پھر جب امام خطبہ دے تو توجہ و خٓاموشی سے اسکو سنے تو اللھ تعالی كى طرف سے اس جمعہ اور دوسرے جمعہ کے درمیان اسكى ساری خطائین معاف كردى جائین گى ۔

اور اکثر اہل علم کی رائے کے مطابق یہ غسل واجب نہیں. اور کہا گیا ہے کہ اسی پر اجماع ھے. علامہ ابن عبدالبر نے کہا ہے: کہ جدید و قدیم علماء اسلام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جمعہ کے دن غسل فرض و واجب نہیں ,اور انہون نے امام احمد ابن حنبل سے ایک روایت کی ہے کہ وہ واجب ہے ،اسکی دلیل نبی پاک نبی صلی اللہ علیہ و صلم کی یہ حدیث ہے [غسل الجمعة واجب علی کل محتلم ] "غسل جمہ ھر بالغ پر فرض ھے"۔

جبکہ جمھور علماء نے اس سے سنت کی تاکید مراد لی ہے جمھور علماء نے اجماع اور  نبی پاک صلی اللہ علیہ و صلم کی اس حدیث مبارکہ سے استدلال کیا ہے جس مین آپ نے فرمایا: "من توضأ یوم الجمع’ فبھا و نعمت ،ومن اغتسل فالغسل افضل "، جس نے جمعہ کے دن وضو کیا سو اس نے اچھا  کیا  اور جس نے غسل کیا تو غسل افضل ہے ] اس حدیث کو امام نسائی و ترمذی نے نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ ([1])

عبد اللھ فقیہ کی زیر نگرانی فتوی مرکز كا فتوی ہے کہ چارون فقہی مذاہب مین غسل جمعہ مستحب ہے اور یہ واجب نہیں ہے اور یہی زیادہ صحیح ہے اور اسی کو ترجیح حٓاصل ہے اور جہان تک ہو سکے غسل جمعہ باقاعدگی سے کرنا چاہئے کیونکہ اسکی ترغیب دلائی گی ہے۔

ڈاکٹر علی منصور


[1] فتاوی اسلام سوال و جواب زیر نگرانی محمد صالح المنجد ج1،1779۔