اسلامى ٹيليفون سروس كى بنياد عرب جمہوريہ مصر ميں 2000ء ميں ڈالى گئى، يہ اعتدال پر مبنى دينى خدمت ہے. |    
 
 
   
English عربى الاتصال بنا روابط اخرى فتاوى شائعة من نحن Q & A الرئيسية
 
   
سوال اور جواب --> باب چہارم طہارت اور فطرى سنتيں --> وضوء کے دوران ذکر کرنے کا حکم  

سوال : وضوء کے اثنا ء میں ذکر کرنے کے حکم کے بارے میں دریافت کیا گیا۔  

خلاصہ فتویٰ: وضوء کے دوران ذکر کرنا بدعت ہے کیونکہ یہ ثابت نہیںاوراسکی کوئی اصل نہیں ہے۔   

                                                       اللجنۃ الدائمہ للبحوث العلمیہ والافتاء ٥ /٢٠٥

تبصرہ:

وضوء کے دوران دعائیں پڑھنے میں کوئی حرج نہیں اگرچہ حضور اکرم - صلى الله عليه وسلم- کے کوئی حدیث شریف ہمارے سامنے نہیں ہے لیکن یہ سلف صالحین سے منقول ہے۔ اور اللہ رب العزت کے عمومی حکم کے ضمن میں آتاہے ۔ اور اس سے منع کرنے کا کوئی حکم نہیں ہے۔         

علمی رد:

وضوء کے آغاز میں بسم اللہ پڑھنا سنت ہے ۔ رسول اکرم - صلى الله عليه وسلم- کی حدیث شریف ہے: " كل أمر ذي بال لا يبدأ فيه ببسم اللَّه الرحمن الرحيم فهو أقطع "، جو بھی اہم کام بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم سے شروع نہیں کیا جاتا وہ ادھورا اور نامکمل رہ جاتا ہے۔ ایک اور حدیث شریف ہے: "لَا وُضُوءَ لِمَنْ لَمْ يَذْكُرْ اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ"، جو وضوء شروع کرتے وقت اللہ کا نام نہیں لیتا اُس کا وضوء نہیں۔ یہ دونوں احادیث شریف روایت کی ہیں۔ لیکن اگر کوئی بھول سے یا ارادۃً اسے ترک کردے تو اکثر علماء کی رائے کے مطابق اُس کا وضوء صحیح ہوتا ہے۔ حنابلہ کے نزدیک بسم اللہ پڑھنا واجب ہے اور اگر کوئی ارادۃً اسے ترک کرتا ہے تو اُس کا وضوء باطل ہوجاتا ہے۔ وضوء کرنے کے بعد یہ پڑھنا بھی سنت ہے۔ اُشھد لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ، واشھد ان محمد عبدہ ورسولہ : میں گواہی دیتا ہو کہ نہیں کوئی معبود سوائے اللہ کے ، وہ یکتا ہے اُس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد - صلى الله عليه وسلم- اُس کے بندے اور رسول ہیں۔

مسلم میں حدیث شریف ہے جس نے یہ کہا ،اُس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔ وہ جس دروازے سے چاہے اُس میں داخل ہو۔ ایک اور روایت میں ہے : اللھم اجعلنی من التوابین واجعلنی من المتطھرین ۔

اے اللہ مجھے بہت زیادہ توبہ کرنے والوں میں بنا اور مجھے پاکی حاصل کرنے والوں میں سے بنا۔ ایک اور روایت میں ہے: 

سبحانک اللھم وبحمدک اشھد ان لا الہ الا انت استغفرک و اتوب الیک ۔ ([1])

 اے اللہ میں تیری پاکی بیان کرتا ہوں تیری حمد و ثناء کرتا ہوں اور گواہی دیتا ہوں کہ نہیں کوئی معبود سوائے تیرے ،میں تیری مغفرت طلب کرتا ہوں اور تیری طرف توبہ کرتا ہوں۔ جہاں تک وضوء کے دوران ذکر کا تعلق ہے تو (حضرت) ابی موسیٰ الاشعری سے مروی صحیح حدیث شریف ہے: رسول اللہ - صلى الله عليه وسلم- وضوء کا پانی لے کر تشریف لائے چنانچہ میں نے آپ - صلى الله عليه وسلم- کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ''اللھم اغفر لی ذنبی، ووسع لی فی داری، وبارک لی فی رزقی''،  ا ے اللہ ! میرے گناہوں کی مغفرت فرمادے ، میرے لئے میرا گھر وسیع فرما اور میرے رزق میں برکت عطا فرما۔ حضوراکرم - صلى الله عليه وسلم- نے یہ دعا وضوء کے آغاز میں پڑھی تھی یا درمیان میں یا آخر میں اس میں اختلاف ہے ،بعض نے کہا یہ وضوء کرنے سے اثناء میں پڑھی تھی اور بعض نے کہا کہ وضوء کے آخر میں پڑھی تھی اور اسی میں یہ ہے کہ اباموسی نے عرض کیا: یا رسول اللہ - صلى الله عليه وسلم- میں نے آ پ - صلى الله عليه وسلم- کو یہ دعا کرتے ہوئے سنا ۔آپ - صلى الله عليه وسلم- نے فرمایا جس کا مفہوم ہے: کیا تم نے کوئی چیز چھوڑی؟ جہاں تک وضوء کے دوران اعضاء کی دعاؤں کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں حضور اکرم - صلى الله عليه وسلم- سے کوئی شئی وارد نہیں۔ امام نووی اپنی کتاب ''الاذکار'' میں کہتے ہیں : فقہا نے کہا سلف صالحین کی دعائیں پڑھنا مستحب ہیں ۔ اسی میں انہوں نے اضافہ اور کمی کی ہے ۔ انہوں نے جو کچھ کہا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ بسم اللہ کے بعد کہے: الحمد اللہ الذی جعلاالماء طہوراً: تمام تعریف اللہ رب العزت کیلئے ہے جس نے پانی کو پاک کرنے والا بنایا ، کلی یا غرارا کرتے ہوئے کہے: اللھم اسقنی من حوض نبیک - صلى الله عليه وسلم- کأسا لا أظمأ بعدہ أبداً ،ا ے اللہ! مجھے اپنے نبی - صلى الله عليه وسلم- کے حوض سے ایک پیالا پلا جس کے بعد کبھی پیاسا نہ ہوں ۔ ناک میں چڑھاتے ہوئے کہے: اللھم لا تحرمنی رائحۃ نعیمک وجناتک،اے اللہ ! مجھے اپنی نعمتوں اور جنتوں کی خوشبو سے محروم نہ کرنا۔ چہرہ دھوتے ہوئے کہے : اللھم بیض وجھی یوم تبیض وجوہ وتسود وجوہ،
اے اللہ! میرا چہرہ اُس دن سفید(روشن) بنانا جس دن کے روشن ہوجائےں گے کچھ چہرے اور کچھ چہرے سیاہ ہوجائےں گے ۔ اپنے دونوں ہاتھ دھوتے یہ پڑھے: اللھم أعطنی کتابی بیمینی وحاسنبی حسابا یسیرا، اللھم لا تعطنی کتابی بشالی ولا من وراء ظہری، اے اللہ ! مجھے میری کتاب (نامہ اعمال) میرے سیدھے ہاتھ میں دینا اور میرا حساب آسان کرنا اے اللہ! میری کتاب بائیں طرف سے یا پیچھے سے نہ دینا۔ اور سر کا مسح کرتے وقت کہے: اللھم حرم شعری و بشری علی النار، وأظلنی تحت عرشک یوم لا ظل الاظلک، اے اللہ! میرے بال اور بشرے پر آگ حرام کردے اور اُس دن اپنے عرش کے نیچے مجھ پر سایہ کرنا ،جس دن تیرے سائے کے علاوہ کسی اور کا سایہ نہیں ہوگا۔ دونوں کانوں کا مسح کرتے ہوئے کہے: اللہم اجعلنی من الذین یستمعون القول فیتبعون أحسنہ ۔

اے اللہ! مجھے اُن لوگوں میں بنادے جو کان لگا کربات سنتے ہیں پھر اُس کی بہترین باتوں کی پیروی کرتے ہیں۔ دونوں پیروں کو دھوتے ہوئے کہے: اللھم ثبت قدمی علی الصراط المستقیم۔   اے اللہ! میرے قدموں کو صراط مستقیم پر مضبوطی سے قائم کردے۔         
یہ دعائیں ہیں۔ اگرچہ اِن کے بارے میں رسول اللہ - صلى الله عليه وسلم- کی کوئی حدیث وارد نہیں ہوئی لیکن اِن کے پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ۔ بالخصوص جب کہ یہ سلف صالحین سے وارد ہوئی ہیں۔ اور اللہ رب العزت کے ذکر کے بارے میں عمومی حکم کے ضمن میں آتی ہیں۔ اور اِن سے منع نہیں کیا گیا۔  واللہ اعلم
۔     

ڈاکٹر احمد عید


[1] الأذکار از النووی ص: ٣٢۔