اسلامى ٹيليفون سروس كى بنياد عرب جمہوريہ مصر ميں 2000ء ميں ڈالى گئى، يہ اعتدال پر مبنى دينى خدمت ہے. |    
 
 
   
English عربى الاتصال بنا روابط اخرى فتاوى شائعة من نحن Q & A الرئيسية
 
   
سوال اور جواب --> سوئم بدعت اور اسكا اطلاق --> نماز کے بعد عام طور پر مصافحہ کرنے کا حکم  

سوال : نماز کے بعد عام طور پر مصافحہ کرنے کا حکم دریافت کیا گیا۔  

خلاصہ فتوی: نماز کے بعد مصافحہ کرنے کی کوئی اصل نہیں ہے اور یہ بدعتِ مذموم ہے۔

                                                                      الشیخ ابن باز فتاویٰ اسلامیہ ١٧٩

تبصرہ: 

 مصافحہ کی اصل سنت ہے بعض حالات میں اس کی حفاظت کرنا سنت کےخلاف نہیں ہے۔    
علمی رد: 

مصافحہ بذات خود مباح ہے بلکہ کہا گیا ہے کہ یہ محبت ،احترام ،الفت اور تعلقات کی مضبوطی کے مظہر کے طور پر سنت ہے ۔ اس کے فضیلت کے بارے میں متعدد احادیث شریف روایت کی گئی ہیں۔

صحیح بخاری شریف میں (حضرت ) قتادہ سے مروی حدیث شریف ہے، انہوں نے کہا: میں نے (حضرت ) انس (رضی اللہ تعالیٰ عنہ )سے کہا کیا رسول اللہ - صلى الله عليه وسلم- کے صحابیوں میں مصافحہ کا رواج تھا ا نہوں نے کہا :ہاں۔([1])
سنن الترمذی میں( حضرت )ابوامامہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اکرم - صلى الله عليه وسلم- نے فرمایا'' مریض کی پوری عیادت یہ ہے کہ تم میں سے کوئی اپنا ہاتھ اسکی پیشانی پر یا آپ - صلى الله عليه وسلم- نے فرمایا: اسکے ہاتھ پر رکھ کر پوچھے کہ مزاج کیسا ہے اور تمہارے درمیان پوری تحیت (سلام کرنا) یہ ہے کہ مصافحہ کیا جائے''۔ ([2])
سنن ابی داؤد میں (حضرت ) البراء سے روایت ہے کہ رسول اللہ - صلى الله عليه وسلم- نے فرمایا: ''
مَا مِنْ مُسْلِمَيْنِ يَلْتَقِيَانِ فَيَتَصَافَحَانِ إِلاَّ غُفِرَ لَهُمَا قَبْلَ أَنْ يَفْتَرِقَا"، تر جمہ: جب دو مسلمان آپس میں ملتے ہیں اور مصافحہ کرتے ہیں تو اُن دونوں کے جدا ہونے سے پہلے ہی ان دونوں کے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں''۔([3])

مسند امام احمد میں (حضرت) انس بن مالک (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے روایت ہے :انہوں نے کہا : رسول اللہ - صلى الله عليه وسلم- نے فرمایا: "يَقْدَمُ عَلَيْكُمْ غَداً أَقْوَامٌ هُمْ أَرَقُّ قُلُوباً لِلإِسْلاَمِ مِنْكُمْ "،  اس کا مفہوم ہے ''کل تمہارے پاس اقوام آئیں گی اسلام کیلئے ان کے دل تم سے زیادہ نرم ہےں''۔ انہوں نے کہا الاشعری آئے ان میں (حضرت) ابو موسیٰ عشری تھے، جب وہ مدینہ شریف کے قریب پہنچے تو رجز پڑھنے لگے کہتے کل ہم محمد - صلى الله عليه وسلم- کے احباء سے اور ان کی جماعت سے ملیں گے۔ جب وہ آئے تو انہوں نے مصافحہ کیا اور وہ پہلے آدمی ہیں جنہوں نے آکر مصافحہ کیا اور اس میں یہ ہے کہ انہوں نے مصافحہ کر کرنا شروع کیا اسے برقرار رکھا اور نماز کے بعد مخصوص کیا۔ ابن تیمیہ نے نماز کے بعد مصافحہ کرنے کو اس وجہ سے مکروہ بتایا کہ سرورِ کونین - صلى الله عليه وسلم- کے زمانے میں ایسا نہیں کیا جاتا تھا اور نہ ہی خلفاء راشدین کے زمانے میں ایسا تھا۔ اکثر علماء کرا م نے ان کی (ابن تیمیہ) کی مخالفت کی کیونکہ کسی عمل کے وارد نہ ہونے کا مفہوم ممانعت نہیں ہوتااور نہ یہ بدعت.

مذموم ہے۔ بشرطِ کہ کسی معلوم نص (عبارت) کہ خلاف نہ ہو۔ (حضرت) امام نووی نے کہا صافحہ کی اصل سنت ہے اور بعض طریقوں سے اس کی حفاظت کرنا سنت کے خلاف نہیں۔ مصافحہ کرنے کے حکم کے بارے میں اختلاف کی وجہ درحقیقت بدعت کی تعریف میں اختلاف ہے اور جب مسئلہ اختلافی ہو تو کسی بھی رائے کی طرف داری یا اُس کے بارے میں تعصب نہیں کیا جانا چاہیئے۔ واللہ اعلم .

                                                                                    ڈاکٹر یاسر عبدالعظیم


[1]  صحیح البخاری ١٢٦٣۔

[2]  سنن الترمذی٢٩٥٠ ۔  

[3] سنن ابی داؤد ٥٢١٤.