اسلامى ٹيليفون سروس كى بنياد عرب جمہوريہ مصر ميں 2000ء ميں ڈالى گئى، يہ اعتدال پر مبنى دينى خدمت ہے. |    
 
 
   
English عربى الاتصال بنا روابط اخرى فتاوى شائعة من نحن Q & A الرئيسية
 
   
سوال اور جواب --> سوئم بدعت اور اسكا اطلاق --> نبي کريم صلى اللہ عليھ وسلم کے روضہ اطہر پر حاضري دينے کے لئے سفر کرنے کا حکم  

سوال : نبي کريم - صلى اللہ عليھ وسلم- کے روضہ اطہر پر حاضري دينے کے لئے سفر کرنے کے حکم کے بارے ميں دريافت کيا گيا؟  

خلاصہ فتوى: رسول - صلى اللہ عليھ وسلم-  کے روضہ اطہر کي زيارت کے لئے سفر کرنا نعوذ باللہ جائز نہيں ہے۔ اسي طرح ان پر بني ہوئي عمارتوں کو مسجد بنانا يا وہاں نماز ادا کرنا يا مردوں کو دفن کرنا جائز نہيں ہے۔

الشيخ ابن جبرين فتاوے في التوحيد ص ۲۳ - ۲۵

تبصرہ:

سرور کونين - صلى اللہ عليھ وسلم-  کے روضہ اطہر کي زيارت قبروں کي  زيارتوں  ميں سب سے زيادہ مستحب ہے، قبروں کو مساجد بنانا يعني اللہ رب العزت کي عبادت کي غرض سے وہاں اور ان ميں جو ہيں کي طرف جانا مستحب ہے۔

علمي رد:

نبي کريم - صلى اللہ عليھ وسلم-  کے روضہ اطہر کي زيارت يا زيادہ صحيح طور پر يہ کہ آپ - صلى اللہ عليھ وسلم-  روضہ اطہر ميں آپ  - صلى اللہ عليھ وسلم-  کي زيارت، تمام مزاروں کي زيارت ميں سر فہرست  مستحب ہے، اور زيارت کے مقصد سے سفر کي غايت آپ - صلى اللہ عليھ وسلم-  کے روضہ اطہر کے ساتھـ مدينہ شريف کي مسجد ہے اور زائر کا قصد اس ذات اقدس کي تعظيم ہے جو وہاں موجود ہے، جس طرح کہ آپ - صلى اللہ عليھ وسلم-  ظاہري زندگي ميں تھے اور قصد بعينہ بقعہ قبر نہيں بلکہ انکي تعظيم مقصود ہے جو وہاں ہيں، اور آپ - صلى اللہ عليھ وسلم-  کي مسجد کي زيارت درحقيقت آپ ﷺ کي زيارت ہے، جسکي افضليت کے بارے آپ - صلى اللہ عليھ وسلم-  کا يہ فرمان مبارک ہے: "صَلَاةٌ فِي مَسْجِدِي هَذَا خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ صَلَاةٍ‏ ‏أَوْ كَأَلْفِ صَلَاةٍ ‏ ‏فِيمَا سِوَاهُ مِنْ الْمَسَاجِدِ إِلَّا أَنْ يَكُونَ ‏‏الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ"، تر جمہ:   ميري اس مسجد ميں نماز دوسري مسجد کي ہزار نماز سے بہتر ہے، سوائے مسجد حرام کے. اور انبياء و صالحين کے مزارات کي زيارت مستحب ہے، قاضي عياض نے اپني کتاب :الشفا في التعريف بحقوق المصطفے ميں امام مالک بن انس کے بارے وہ واقعہ بيان کيا ہے جب ابو جعفر المنصور نے مسجد نبوي ميں ان سے مناظرہ کيا تھا، امام مالک نے ان سے کہا: اے امير المؤمنين اس مسجد ميں اپني آواز بلند نہ کرين، پس اللہ تعالے نے ايک قوم کو يوں ادب سکھايا ہے، چنانچہ اللہ رب العزت نے فرمايا: ﴿لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ (الحجرات 2)، تر جمہ: تم اپنی آوازوں کو نبیِ مکرّم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز سے بلند مت کیا کرو اور اُن کے ساتھ اِس طرح بلند آواز سے بات (بھی) نہ کیا کرو جیسے تم ایک دوسرے سے بلند آواز کے ساتھ کرتے ہو (ایسا نہ ہو) کہ تمہارے سارے اعمال ہی (ایمان سمیت) غارت ہو جائیں اور تمہیں (ایمان اور اعمال کے برباد ہوجانے کا) شعور تک بھی نہ ہو.

اور ايک قوم جو آداب بجا لائي انکي يوں تعريف کي:

﴿إِنَّ الَّذِينَ يَغُضُّونَ أَصْوَاتَهُمْ عِندَ رَسُولِ اللَّهِ أُوْلَئِكَ الَّذِينَ امْتَحَنَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ لِلتَّقْوَى لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ عَظِيمٌ (الحجرات 3)، تر جمہ: بيشک جو لوگ رسول اللہ - صلى اللہ عليھ وسلم-  کي بارگاہ ميں ادب اور نياز کے باعث اپني آوازوں کو پست رکھتے ہيں يہي وہ لوگ ہيں جن کے دلوں کو اللہ نے تقوے کے لئے چن کر خالص کر ليا ہے، ان ہي کے  لئے بخشش اور اجر عظيم ہے.

 ايک قوم کي يوں مذمت فرمائي: اللہ رب العزت نے فرمايا: ﴿إِنَّ الَّذِينَ يُنَادُونَكَ مِن وَرَاءِ الْحُجُرَاتِ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ (الحجرات 4)، تر جمہ: بيشک جو لوگ آپ - صلى اللہ عليھ وسلم-  کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہيں ان ميں سے اکثر آپ کے بلند مقام و مرتبہ اور آداب تعظيم کي سمجھ نہيں رکھتے۔

آپ - صلى اللہ عليھ وسلم-  کے اپنے رفيق اعلے کے پاس جانے کے بعد آپکا احترام ويسے ہي ضروري ہے جيسے آپ - صلى اللہ عليھ وسلم-  کي حيات مبارکہ ميں تھا، ابو جعفر نے تابعداري کي اور کہا، اے ابو عبداللہ ميں قبلے کي طرف رخ کر کے دعاء کروں يا رسول اللہ - صلى اللہ عليھ وسلم-  کي طرف منہ کروں؟ چنانچہ امام مالک نے کہا تم اپنا چہرہ آپ ﷺ کي طرف سے کيں پھيرتے ہو؟ حالانکہ آپ - صلى اللہ عليھ وسلم-  روز قيامت اللہ رب العزت کي بارگاہ ميں تمہارا وسيلہ ہيں، اور تمہارے باپ حضرت آدم عليہ السلام کا وسيلہ ہيں، بلکہ تم آپ - صلى اللہ عليھ وسلم-  کي طرف ہي رخ کرو اور آپ - صلى اللہ عليھ وسلم-  سے شفاعت کے طالب ہو، پس اللہ تعالے آپ- صلى اللہ عليھ وسلم- کي شفاعت قبول فرماتا ہے، اللہ رب العزت کا ارشاد ہے: ﴿وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمْ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّاباً رَحِيماً (النساء4).

اور (اے حبیب!) اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاتے اوراللہ سے معافی مانگتے اور رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ان کے لئے مغفرت طلب کرتے تو وہ (اس وسیلہ اور شفاعت کی بنا پر) ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتے.

انبياء اور صالحين کے مزارات کي زيارت کے مستحب ہونے کے ساتہ ساتہ انہيں مساجد بنانے سے منع کرنے کي وعيد آئي ہے اس سے تنبيہ ضروري ہے، اس سلسلہ ميں کئي نصوص وارد ہوئي ہيں، انہي ميں رسول اللہ - صلى اللہ عليھ وسلم-  کي يہ حديث شريف ہے: "لعن الله اليهود والنصارى اتخذوا قبور أنبيائهم مساجد"، اللہ تعالے نے يہود ونصارے پر لعنت کي انہوں نے اپنے انبياء کي قبور کو مساجد بنايا، اور ايک يہ حديث شريف ہے: "اللهم لا تجعل قبري وثنا يعبد، اشتد غضب الله على قوم اتخذوا قبور أنبيائهم مساجد "، اے الله  ميري قبر کو بت نا بنانا جسکي عبادت کي جاتي ہے، اس قوم پر اللہ کا غضب شديد ہو گيا جس نے اپنے انبياء کي قبروں کو مساجد بنايا،  اور آپ - صلى اللہ عليھ وسلم-  کا يہ فرمان ہے: "لا تجعلوا بيوتكم قبورا،ولا تتخذوا قبري عيدا، وصلوا علي، فإن صلاتكم تبلغني حيث كنتم"، اپنے گھروں کو قبريں نہ بناؤ اور نہ ميرے روضہ کو عيد بنانا اور مجھ پر درود شريف پڑہو، سو تمہارا درود مجھ تک پہونچايا جاتا ہے تم جہاں کہيں ہو.

قبروں کو مساجد بنانے کا مفہوم عبادت کے لئے انکي اور انميں جو ہيں (صاحب قبر) کي طرف جانا ہے اور يہ جائز نہيں سو عبادت صرف اللہ وحدہ کے ليے ہے اور يہي مفہوم قبر کو بت بنانا ـ جسکي كہ عبادت کي جاتي ہےـ کا ہے۔

يہاں مسجد سے مراد نماز وغيرہ کي عبادت کي جگہ ہے، اور اسے عيد بنانے سے مراد معين زمانے اور وقت ميں وہاں اللہ رب العزت سے تقرب حاصل کرنا ہے جيسا کہ عيدوں ميں ہوتا ہے۔

بعض صحابہ کرام مثل حضرت عبداللہ ابن ام مکتوم آرزو مند رہتے کہ نبي کريم - صلى اللہ عليھ وسلم-  ان کے گھر ميں نماز ادا فرمائيں تاکہ اسے مسجد بنائيں اور حضرت ابن عمر رضي اللہ عنہما آپ - صلى اللہ عليھ وسلم- کي جگہوں اور آثار کي تلاش و جستجو ميں رہتے، حضرت موسى بن عبداللہ کو راستے ميں جگہوں کو تلاش کرتے اور وھاں نماز پڑھتے ديکھا اور بيان کرتے تھے، اور ان کے والد عبداللہ بن عمر ان جگہوں پر نماز پڑھا کرتے تھے، اور انہوں نے نبي کريم  - صلى اللہ عليھ وسلم-  کو ان مقامات پر نماز پڑھتے ديکھا، موسى نے کہا نافع نے مجھـ سے بيان کيا کہ ابن عمر ان جگہوں پر نماز پڑھتے تھے۔

صحابہ کرام رضوان اللہ تعالے اجمعين نبي کريم کے آثار سے برکت حاصل کيا کرتے تھے، بخاري شريف ميں آيا ہے: رسول اللہ کے دست مبارک ميں چاندي کي انگوٹھي تہي، آپ - صلى اللہ عليھ وسلم-  کے بعد يہ حضرت ابوبکر صديق رضي اللہ تعالے عنہ کے ہاتہ ميں تھي، اسکے بعد حضرت عمر رضي اللہ عنہ کے ہاتھ ميں پھر حضرت عثمان رضي اللہ عنہ کے ہاتھ ميں تھي يہان تک کہ ،، اريس،، کنويں ميں گر گئي، اس پر ،، محمد رسول اللہ ،،  نقش تھا، اور بعض روايت ميں ہے کہ يہ حضرت عثمان کے ہاتھ ميں ۶ سال تک رہي، اسے کنويں ميں تلاش کيا گيا ليکن کوئي فائدہ نہيں، اريس کنواں مسجد قباء کے برابر ميں ہے اور بئر الخاتم يعني انگوٹھي کے کنويں کے نام سے معروف ہے۔

بخاري شريف ميں يہ بھي آيا ہے کہ حضرت زبير بن العوام کے پاس ايک نيزہ تھا، جس سے انہوں نے يوم بدر عبيدہ بن سعيد بن العاص کو مارا تھا، چنانچہ نبي کريم - صلى اللہ عليھ وسلم-  نے اس کا سوال کيا تو انہوں نے يہ آپ - صلى اللہ عليھ وسلم-  کي خدمت مين پيش کر ديا، جب آپ - صلى اللہ عليھ وسلم-  اپنے رفيق اعلے سے جا ملے تو اسے لے ليا، پھر حضرت ابوبکر نے مانگا انکے بعد حضرت عمر اور حضرت عثمان اور حضرت علي کے پاس رہا، عنزہ نيزہ کي مانند ہوتا ہے، اسيطرح بخاري شريف ميں آيا ہے کہ حضرت عمر رضي اللہ عنہ نے وہ درخت نہيں کاٹا جسکے پاس بيعت رضوان ہوئي تھي، مگر بعد ميں اسکے اور اسکي جگہ کے بارے ميں لوگوں کے اختلاف کي وجہ ہے۔

ڈاکٹر ياسر عبدالعظيم