اسلامى ٹيليفون سروس كى بنياد عرب جمہوريہ مصر ميں 2000ء ميں ڈالى گئى، يہ اعتدال پر مبنى دينى خدمت ہے. |    
 
 
   
English عربى الاتصال بنا روابط اخرى فتاوى شائعة من نحن Q & A الرئيسية
 
   
سوال اور جواب --> سوئم بدعت اور اسكا اطلاق --> صالحين اولياء کرام کے مزارات کي زيارت کے لئے سفر کا حکم 

سوال : اولياء کرام کے مزارات کي زيارت کے لئے سفر کرنے کے حکم کے بارے ميں دريافت کيا گيا؟  

خلاصہ فتوى: مزارات کي زيارت کے ليے سفر کرنا منکر ہے ايسا کرنا جائز نہين۔

                                    الشيخ ابن باز مجلہ البحوث شمارہ ۳۹ صفحہ ۱۴۳۔۱۴۵

تبصرہ:

صالحين اولياء کرام خواہ وہ زندہ ہوں يا وفات پا چکے ہوں کي زيارت کے لئے رخت سفر باندھنے اور سفر کرنے ميں کوئي حرج نہيں۔

علمي رد:

امام بخاري اور امام مسلم  نے روايت کي ہے کہ آپ- صلى اللہ عليھ وسلم-  نے فرمايا: "لَا‏ تُشَدُّ الرِّحَالُ ‏إِلَّا إِلَى ثَلَاثَةِ مَسَاجِدَ ‏ ‏مَسْجِدِ الْحَرَامِ ‏وَمَسْجِدِي هَذَا ‏وَالْمَسْجِدِ الْأَقْصَى"، تر جمہ: تين مسجدوں کے سوا اور کسي طرف سفر نہ کيا جائے، مسجد بيت اللہ، مسجد مقدس اور ميري يہ مسجد، رخت سفر باندھنے کو ان ۳ ميں محصور کرنا، کسي بھي جائز کام  مثال کے طور پر جہاد، حصول علم، اللہ رب العزت کے فضل رزق کي تلاش، بھائيوں سے ملاقات، صلہ رحمي کے علاوہ قرب حاصل کرنے کے لئے سفر کرنا منع نہيں ہے اور قرآن کريم اور حديث شريف ميں ان سب کے بارے ٹھوس دلائل موجود ہيں۔

حديث شريف ميں ۳ مساجد کا تعين، درحقيقت دوسري  مساجد کے مقابلے ميں اضافي تعين ہے، يعني ادائيگي نماز کے لئے تمام مساجد افضليت ميں برابر ہيں سوائے ان ۳ مساجد کے، چنانچہ يہ افضل ہيں اور ان ميں نماز کا ثواب زيادہ ملتا ہے۔

امام احمد اور امام ابن ماجہ نے ۲ صحيح اسناد سے روايت کي ہے کہ: "أن الصلاة في المسجد الحرام بمكة تعدل مائة ألف صلاة فيما سواه" مکہ مکرمہ ميں مسجد حرام ميں ۱ نماز کا ثواب دوسري مسجد کے مقابلے ميں ۱ لاکهـ نماز کے ثواب کے برابر ہوتا ہے، امام بخاري اور امام مسلم نے روايت کي ہے کہ: "أن الصلاة في مسجد المدينة بألف صلاة فيما سواه إلا المسجد الحرام"، مدينہ منورہ کي مسجد ميں ۱ نماز  کا ثواب سوائے مسجد حرام کے دوسري مساجد کے مقابلے ۱ ہزار نماز کا ثواب ملتا ہے۔

امام بزار نے سند حسن سے روايت کي ہے کہ مسجد اقصے ميں ۱ نماز کا ثواب ۵۰۰ نماز کے ثواب کے برابر ملتا ہے، امام احمد اور ابن ابي شيبہ کي سند حسن سے روايت کردہ حديث ميں يہ ہے ان تينوں مساجد کي افضليت کي وجہ سے ان ميں ادائيگي نماز کے لئے سفر کيا جائے۔

حضرت ابو سعيد خدري سے مرفوع حديث روايت کي جاتي ہے: " لا ينبغى أن تشد رحالها إلى مسجد يبتغى فيه الصلاة غير المسجد الحرام ومسجدي هذا والمسجد الأقصى "

کہ کسي مسجد ميں ادائيگي نماز کے لئے رخت سفر باندھا جائے سوائے مسجد حرام اور ميري اس مسجد اور مسجد اقصے کے۔

اس بنياد پر ہے کہ ان ميں نماز کا ثواب زيادہ حاصل کرنے کي خاطر انکي طرف سفر کرنا جسماني اور مالي مشقت برداشت کرنا جائز  يا کم از کم منع نہيں ہے، جہان تک دوسري مساجد کا تعلق ہے تو صرف نماز ادا کرنے کي خاطر سفر کرنے اور مشقت برداشت کرنے کي ضرورت نہيں، بلکہ بعض علماء نے کہا: اس سے منع کيا جاتا ہے۔ ديکھئے خلاصہ الوفاء از سمہودي، ص ۷۰۔

جہان تک صالحين خواہ وہ زندہ ہوں يا اس دنيا سے پردہ فرما چکے ہوں کي زيارت کے لئے جانے کا تعلق ہے تو اس کے لئے رخت سفر باندھنے اور سفر کرنے ميں کوئي حرج نہيں ہے۔ ([1])

                                                            ڈاکٹر ياسر عبدالعظيم


[1] فتاوے دارالافتاء المصريہ، موضوع ۵۵ مفتي فضيلہ الشيخ عطيہ صقر مئي ۱۹۹۷م ۔