اسلامى ٹيليفون سروس كى بنياد عرب جمہوريہ مصر ميں 2000ء ميں ڈالى گئى، يہ اعتدال پر مبنى دينى خدمت ہے. |    
 
 
   
English عربى الاتصال بنا روابط اخرى فتاوى شائعة من نحن Q & A الرئيسية
 
   
سوال اور جواب --> سوئم بدعت اور اسكا اطلاق --> مذھبي اور قومي عيد دن اور مناسبات کو منانے کا حکم  

سوال : مذہبي اور قومي عيد دن اور مناسبات کو منانے کے بارے ميں حکم دريافت کيا گيا؟  

خلاصہ فتوى: مذہبي مناسبات کے علاوہ دوسري مناسبات کا منانا جائز نہيں۔ صرف ان عيد کا منانا جائز ہے جنکے منانے کا شرعي طور پر ذکر موجود ہے۔ مثال کے طور عيد الفطر اور عيد الاضحے۔

عيد مادر: قومي دن اور سالگرہ يہانتک کہ اسرا اور معراج جيسے ايام مساجد کے افتتاح اسيطرح کے ديگر ايام منانا جائز نہيں۔ يہ بدعت اورمذہب ميں بعد کي پيدہ کردہ چيزيں ہيں۔

اللجنہ الدائمہ للبحوث العلميہ والافتا ج 3/59-61

تبصرہ:

کسي مناسبت کا جشن منانا اچھا ہے اسمين کوئي حرج نھيں جبکہ مقصد جائز اور منانے کا طريقہ مذہب کے دائرے ميں ہو۔ جشن کو عيد کا نام دينے ميں کوئي نقصان نہيں۔ نصيحت اعلے کامون ميں ہے نامون مين نہين۔ اور ہر نئي بات بدعت مذموم نہيں۔ حضرت عمر نے مسلمانون کے ايک بڑے مجمع ميں ايک امام کے پيچھے نماز تراويح کے بارے ميں فرمايا يھ کتني اچھي بدعت ھے۔

علمي رد:

عيدون کا لفظ ہر آدمي کے بارے ميں بولا جاتا ہے جو واپس اور بار بار آتي ھے اور غالبا يہ جماعت کي سطح پر ہوتي ہے خواہ يہ خاندان ہو يا اہل گاوں يا اہل قلم۔ ان عيدون پر جشن منانے کا مفہوم انہيں اہميت دينا ہے۔ اور جن مناسبات کا جشن منايا جاتا ہے يھ محض دنيوي بھي ہوتى ہيں اور ديني بھي۔ مذہب اسلام دنيوي جشن کو منع نہيں کرتا بشرطيکہ انکا مقصد اچھا ہو اور اسکے مظاہر شريعت کي حدود ميں ہوں۔ جہانتک مذہبي جشن کا تعلق ہے تو ان ميں سے بعض مقرر ہيں جيسے عيد الفطر اور عيد الاضحے۔ اور بعض غير مقرر ہيں جيسے ہجرت اسرا اور معراج اور عيد ميلاد النبي۔ جو عيديں غير مقرر ہيں انہيں اسي طريقہ سے منايا جائے جو شريعت نے بتايا ہے اور انہيں شريعت کي حدود سے باہر نہيں ہونا چا ہئے۔ جہانتک غير مقرر عيدون کا تعلق ہے تو انکو منانے کے بارے ميں لوگوں کے دو مواقف ہيں ايک موقف منع کا ہے کيونکہ يھ بدعت ہے اور ايک موقف جائز ہونے کا ہے۔ کيونکے ممانعت کے بارے ميں کوئي نص يعني عبارت نہيں ہے۔

ممانعت کے حامي امام نسائي اور ابن حبان کي صحيح سند سے روايت کردہ اس حديث شريف کو حجت بناتے ہيں کہ حضرت انس نے کہا: نبي کريم - صلى اللہ عليھ وسلم-  مدينہ شريف تشريف لائے اور انکے لئے دو دن تھے جنميں وہ کھيلتے تھے۔ سو آپ  - صلى اللہ عليھ وسلم-  نے فرمايا: "َقَدْ أَبْدَلَكُمْ اللَّهُ بِهِمَا خَيْرًا مِنْهُمَا يَوْمَ الْفِطْرِ وَيَوْمَ الْأَضْحَى"، تر جمہ: اللہ رب العزت نے تمھارے لئے ان دو دنوں کو ان سے بہتر دوسرے دو دنون سے بدل ديا، يوم الفطر اور عيد الاضحے۔

اس بنياد پر ان دو عيدوں کے علاوہ دوسري جتني عيديں ہيں وہ بدعت ہيں اسکا جواب يہ ديا جاتا کہ حديث شريف نے عيدون کو ان دو عيدون ميں محدود نہيں کيا ہے، بلکہ اہل مدينہ کي عيدوں جو انہوں نے فرس سے لي تھي ان دو عيدوں کي افضليت بيان کي گئي اور اسکا ثبوت يہ ہے کہ يوم جمعہ کو عيد کا نام ديا گياہے۔

اور ان دو عيدون کے علاوہ کسي اور دن خوشي اور مسرت کو منع کرنے والي کوئي عبارت وارد نہيں ہوئي، قرآن کريم ميں سورة روم کے آغاز ميں روم کي فتح و نصرت کي خاطر دوسري اقوام پر اللہ رب العزت کي مدد پر مسلمانون کي خوشي کو بيان کيا ھے، جبکے روم مغلوب تھے، اور جيسا کہ جواب ديا جاتا ہے کہ ھر نئي بات بدعت مذموم نہيں ہے، حضرت عمر نے ايک امام کي اقتدا ميں نماز تراويح کے بارے ميں مسلمانوں کے اجتماع سے فرمايا: يہ کتني اچھي بدعت ہے۔

خلاصہ کلام يہ ہے: کسي بھي اچھي مناسبت کا جشن منانے ميں کوئي حرج نہيں بشرطيکہ اسکا مقصد جائز اور اسلوب مذہب کي حدود ميں ہو اور جشن کو عيد کا نام دينے ميں بھي کوئي نقصان نہيں ھے، کيونکہ نصيحت اعلے کاموں ميں ھے ناموں ميں نہيں۔

شيخ سلمان عودہ کے نزديک ولادت پر ايک سال گزرنے کا جشن يعني سالگرہ منانا جائز ہے، انہوں نے يہ بھي کہا، ولادت پر ايک سال گزرنے يا انسان کے کسي بھي خوشي کے موقع  مثال کے طور پر شادي پر ۲۰ سال گزرنے کا جشن منانا جائز ہے اور وہ وليمہ کي تقريب منعقد کرے جسميں وہ رشتہ داروں اور دوستوں کو مدعو کرے، شيخ عودہ نے ام بي سي چينل پر ،، الحياة کلمہ ،، کے زير عنوان اپنے پروگرام ميں مزيد کہا، اس جشن کو عيد کا نام دينے کا حکم پہلے سے معروف ہے، اور وہ ممانعت کا ہے، اور سالانہ مناسبات کا جشن عيد کي اصطلاح کا ذکر کئے بغير منانا جائز ھے، جيسے ولادت کي مناسبات ايک سال گزرنے کي مناسب کا جشن يا شادي پر ۲۰ سال ھونے کي مناسبت اسيطرح کي ديگر مناسبات کا جشن منانا جائز ہے۔

شيخ عودہ نے لفظ عيد سے بچنے کي ضرورت کي دعوت دي ہے جو شريعت اسلام کے منافي ہے، جيسے شريعت اسلام مسلمانوں کے لئے سال ميں دو عيديں مقرر ہيں۔

 

ڈاکٹر ياسر عبدالعظيم