اسلامى ٹيليفون سروس كى بنياد عرب جمہوريہ مصر ميں 2000ء ميں ڈالى گئى، يہ اعتدال پر مبنى دينى خدمت ہے. |    
 
 
   
English عربى الاتصال بنا روابط اخرى فتاوى شائعة من نحن Q & A الرئيسية
 
   
سوال اور جواب --> سوئم بدعت اور اسكا اطلاق --> پرچم کو سلام کرنے کا حکم  

سوال : پرچم کو سلام کرنے کے حکم کےبارے ميں د ريافت کيا گيا؟  

خلاصہ فتوي: پرچم کو سلام کرنا جائز نہيں بلکے يہ نئي دريافت ہے۔

اللجنھ الدائمھ للبحوث العلميھ والافتا ۱/۱۵۰

تبصرہ:

پرچم کو ترانے کے ساتھـ سلام کرنا يا وطن سے وفاداري کے اظھار کي معين حالت ميں اسکي طرف ہاتھـ سے اشارہ ، احترام کے طور پر اسکے اطراف جمع ہونا اور اسکے حفاظت کي خواہش یہ سارے امور اسکی عبادت کرنے کے مفہوم ميں نہں آتے۔ یہاں تک کھ یہ بھي کہا جاتا ھے کے يھ بدعت یا غير اللہ سے تقرب ہے۔

علمي رد:

عصر جديد میں پرچم وطن کي علامت ہےاور عربون کے يہان يھ قبيلے یا جماعت کے علامت ہوتی تھی اور وہ (جماعت يا قبيلھ) اسے اپنے آگے رکھتا تھا اور قبيلے يا جماعت کا ھر فرد اسکي حفاظت کرتا تھا، پرچم کي بلندي قوم يا جماعت کي سر بلندي اور اسکا سر نگون ھونا قوم کي ذلت پر دلالت کرتا تھا۔ عربون کے ہان پرچم(الرایھ یا اللواء) کے نام سے معروف تھا۔

کہا گيا ہے کھ غزوۂ تبوک مين حامل اللوا يعني علم بردار حضرت زيد بن حارثھ تھے اور جب آپ شھيد ہو گئے تو حضرت جعفر بن ابي طالب نے فورا اسے تھام ليا آپ لڑتے رہے يہان تک کہ وہ بھي شھيد ہو گے اسکے بعد عبد اللہ بن رواحھ نے علم سنبھالا اور وہ لڑتے رہے يہان تک کھ وہ بھي شھيد ھو گئے تو پرچم حضرت ثابت بن ارقم العجلاني نے سنبھالا اسے حضرت خالد بن وليد کے پاس لے گئے اور انکي اہليت کے باعث انکے حوالے کر ديا گيا اسي طرح يھ بھي  بيان کيا گيا ھے کے جب حضرت جعفر کا دايان بازو کٹ گيا تو آپ نے اسے اپنے دانتون سے تھام ليا پھر شھيد ہو گئے رسول کريم نےآپ کے لئے دعا فرمائي کھ اللہ انکو جنت مين دونون ہاتھون کي جگھ دو پر عطا فرمائے اسي وجہ سے آپکو جعفر الطيار کا نام ديا گيا۔

اگر پرچم يا لواء کا احترام صحابھ کرام اور سلف صالح سے منقول ہے تو پرچم کو سلام کرنا مذکورہ احترام سے بڑھ کر نہين ھے  اور اس عمل کو بدعت مذموم نہين کہا جا سکتا مذموم صرف قرآن اور سنت کي نصوص کي مخالفت کي صورت مين ہي ہوگا۔

داکٹر ياسر عبد العظيم