اسلامى ٹيليفون سروس كى بنياد عرب جمہوريہ مصر ميں 2000ء ميں ڈالى گئى، يہ اعتدال پر مبنى دينى خدمت ہے. |    
 
 
   
English عربى الاتصال بنا روابط اخرى فتاوى شائعة من نحن Q & A الرئيسية
 
   
سوال اور جواب --> سوئم بدعت اور اسكا اطلاق --> حقيقت بدعت 

سوال : بدعت کی حقيقت اور بدعت حسنہ اور بدعت سيئہ کے بارے ميں سوال کيا گيا؟  

خلاصۂ فتوی: تمام بدعتيں گمراہياں ہيں اور بدعت حسنہ نہيں ہے.

اللجنھ الدائمھ للبحوث العلميھ و الافتاء2/321

تبصرہ:

بدعت وہ عمل ہے جو عصر نبوت اور صحابہ کرام کے عہد کے بعد شروع کيا گيا ہو جمہور علماء کا کہنا کہ بدعت کی دو قسميں ہيں بدعت ھدایت اور بدعت گمراہ ۔ اور جو چيز بھی شريعت کے خلاف ہو وہ مذموم ہے ۔ اور جو شريعت کے مطابق وہ بھلائی ہے اور بدعت صرف مذھبی امور ميں ہے جہاں تک دنياوی امور کا تعلق ہے تو انہيں عصر حاضر کی ترقی کی ہمرکابی کيلئے چھوڑ ديا جائے۔

علمی رد:

بدعت عصر نبوت کے بعد ميں شروع کردہ نئے مذھبی امور ہيں بدعت کی دو قسميں بدعت ھدايت اور بدعت گمراہ .

اگر يہ عمومی طور پر اللہ اور اسکے رسول کے حكم كے خلاف ہو تو مذموم ہے ، اور جسکی جانب اللہ اور اسکے رسول – صلی اللہ عليہ و سلم – نے بلايا ہے وہ خير ہے۔

نبی کريم – صلی اللہ عليہ و سلم – نے فرمايا : "من سن سنة حسنة كان له أجرها وأجرمن عمل بها" وہ جس کسی نے اچھے طريقے کی ابتدا کی تو اسکيلئے اسکا اور اس پر عمل کرنے والے کا ثواب ہے۔ اور اسکے بر عکس فرمايا : "من سن سنة سيئة كان عليه وزرها ووزر من عمل بها" جس کسی نے برے طريقے کا آغاز کيا تو اس پر اسکا اور اس ( برائی ) پر عمل کرنے والے کا گناہ ہے ۔

بدعت حسنہ کی مشروعيت پر حضرت عمر – رضی اللہ عنہ – کا يہ قول دلالت کرتا ہے ۔ "نعمت البدعھ ھذہ " يہ کتنی اچھی بدعت ہے اور يہ آپ – رضی اللہ عنہ – کا لوگوں کو نماز تراويح ميںجمع کرنے کيلئے ہے ۔ يہ نيک اعمال ميں سے ہے اور تعريف کے زمرے ميں آتی ہے آپ – رضی اللہ عنہ – نے اسے بدعت کام ديا ہے اور اسکی تعريف فرمائی ہے. کيونکہ نبی کريم – صلی اللہ عليہ و سلم – انکے لئے سنت نہيں بنايا اور نہ ہی لوگوں کو تراويح کے لئے جمع فرمايا ،اور نہ ہی يہ حضرت ابو بکر صديق کے زمانے تھيں جبکہ حضرت عمر – رضی اللہ عنہ – اس بر لوگوں کو جمع کيا اور انہيں اسکی طرف بلايا . اس وجہ سے انہوں نے اسے بدعت کہا : در حقيقت يہ سنت ہے ۔ کيونکہ يہ شريعت کے مطابق اچھا عمل ہے ايک دوسری حديث شريف " کل محدثة بدعة" (ہر نئی چيز بدعت ہے) سے مراد وہ نئی بات ہے جو شريعت کے اصول کے مخالف اور سنت کے مطابق نہ ہو ، اور اکثر عرف ميں نئی بات مذمت کے مفہوم ہی ميں استعمال کی جائی ہے جبکہ مذموم بدعت دين ميں ہے ہی نہيں ۔ جہاں تک دنياوی امور کا تعلق ہے تو اسکے بارے ميں لوگ زيادہ بہتر جانتے ہيں ۔

اس طرح بدعت کی تعريف ميں ممدوح اور مذموم شامل ہيں. حضرت امام شافعی ، امام غزالی ، العز بن عبدالسلام اور جمہور نے كےنزديک  بدعت کی کئی قسميں ہيں :

واجب : جيسے عربی علوم کا وضع کرنا اور انکی تعليم دينا۔

مندوب : جيسے سکولوں اور مدارس کا قيام۔

ممنوعہ : جيسے قرآن کريم غلط پڑھنا جس سے اسکے الفاظ عربی حالت سے بدل جائيں۔

مکروہ : جيسے مساجد بر نقش و نگار بنانا۔

مباح : جيسے دسترخوان پر مختلف قسم کے کھانے رکھنا ۔

ايک قوم کا خيال ہے کہ بدعت ہر حال ميں مذموم ہے اور اسکی تقسيم ميں واجب ، مندوب اور مباح نہيں آتے اور يہی اس حديث ( کل بدعة ضلالة ) کا مفہوم ہے ۔ صحيح تو پہلی بات ہی ہے جس پر جمہور ہيں. اسکے ساتھـ يہ تاکيد کہ بدعت ان امور تک محدود ہو جنکا تعلق دين سے ہے .اور دنياوی امور عصر حاضر کی ترقی کی ہمرکابی کيلئے چھوڑ دئيے جائيں اور حکم حقيقت پر لگايا جاتا ہے نہ کہ ناموں پر جيسے سالگرہ منانا جائز ہے کہ نہيں ، اور يہ کہ کسی بات پر اتفاق ہو جائے کہ يہ برائی ہے تو اسے حکمت اور عمدہ نصيحت سے بدلنا چاہيے ۔ اور کسی اختلاقی امر کی خاطر لڑائی جھگڑا يا تنازع نہيں ہونا چاہئے اور جو شخص اپنی رائے يا گمان سے دھوکے ميں مبتلا ہو اور اسکا يہ اعتقاد ہو کہ وہی اکيلا نجات پانے والا ہے اور دوسرے ھلاک ہونے والے ہيں تو وہ سب سے پہلے ھلاک ہو نيوالا ہے([1]).

ڈاکٹر ياسر عبدالعظيم


[1] امام مسلم نے روايت کی ہے 6850 ۔ حضرت ابو ھريرہ – رضی اللہ عنہ – نے روايت کی ہے کہ رسول اللہ – صلی اللہ عليہ و سلم – نے فرمايا : اگر کوئی شخص کہے کہ لوگ ھلاک ہو گئے تو وہ ان ميں سب سے پہلے ھلاک ہونے والا ہے۔