اسلامى ٹيليفون سروس كى بنياد عرب جمہوريہ مصر ميں 2000ء ميں ڈالى گئى، يہ اعتدال پر مبنى دينى خدمت ہے. |    
 
 
   
English عربى الاتصال بنا روابط اخرى فتاوى شائعة من نحن Q & A الرئيسية
 
   
سوال اور جواب --> دوئم عــلم --> وضعی (انسانوں کے وضع کردہ ) قوانین کی تعلیم حاصل کرنے کا حکم  

سوال : وضعی (انسان کے وضع کردہ)قوانین کی تعلیم حاصل کرنے کے حکم کے بارے میں دریافت کیا گیا۔  

خلاصہ فتویٰ : تعلیمی اداروں اور دانش گاہوں میں وضعی قوانین کی تعلیم کو عام کرنا جائز نہیں بلکہ اسے خاص لوگوں تک محدود رکھنا چاہئے تاکہ وہ حق سے انحراف (ہٹ جانے ) کی نشاندہی کریں۔ 

                                      اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیہ والافتاء : ١٢/٣٤۔٣٥

تبصرہ:

وضعی قوانین بھلائی اور نیک کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون ، ظلم دور کرنے ، حق کو باطل سے نمایا کرنے کی خاطر تقابلی مطالعہ جیسے صحیح مقاصد اور غرض کیلئے پڑھے اور پڑھائے جائے تو اس میں کوئی حرج یا ممانعت نہیں۔

علمی رد:

اگرکلیات قانون (Faculties of Law) کے مضامین کو بھلائی اور نیک کاموں میں باہمی تعاون، حق تک رسائی اور ظلم  دور کرنے ، انسانى حقوق و فرائض كى معرفت  يا انكے اور شريعت كے درميان موازنہ کیلئے استعمال کیا جائے تا كہ  باطل كے مقابلے حق واضح ہو جائے اور شريعت اسلامى كى برترى ظاہر ہو تو يہ جائز ہے. پڑھنے اور پڑھانے والے کی نیت کے مطابق انہیں ثواب دیا جاتا ہے۔ اور حق وہ ہے جو شریعت نے اپنے معروف مصادر میں بیان کیا ہے ۔ قوانین کی تعلیم حاصل کرنے والوں کوعمومی طور پر اس آیت کریمہ سے متنبہ رہنا چاہيے: ﴿وَ مَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰۤئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ (ا لمائدہ ٤٤)، اور جواللہ کے اتارے پر حکم نہ کرےں وہی لوگ کافر ہیں۔ ﴿فَاُولٰۤئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ تو وہی لوگ ظالم ہیں۔ ایک اور آیت میں ہے: ﴿ فَاُولٰۤئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ تووہی لوگ فاسق ہیں (المائدہ ٤٥۔٤٧) ([1]).  
﴿وَ لَا تُجَادِلْ عَنِ الَّذِیْنَ یَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَھُمْ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ مَنْ کَانَ خَوَّانًا اَثِیْمًا (النساء ١٠٧)،
اور ان کے طرف سے نہ جھگڑوں جو اپنی جانوں کو خیانت میں ڈالتے ہیں بے شک اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا کسی بڑے دغا باز ،گنہگار کو : ۔اس کے بعد کی آیت کریمہ میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:
﴿ھٰۤاَنْتُمْ ھٰۤؤْلَآءِ جٰدَلْتُمْ عَنْھُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا فَمَنْ یُّجَادِلُ اللّٰہَ عَنْھُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اَمْ مَّنْ یَّکُوْنُعَلَیْھِمْ وَکِیْلًا (ا لنساء ١٠٩)، اے لوگوں ! تم آگاہ ہو تم نے خیانت کرنے والوں کی طرف سے دنیا کی زندگانی پر جھگڑا کیا پس کون جھگڑے گا اللہ سے ان کے بدلے قیامت کے دن یا کون ہے کہ ان کا کارساز ہوگا۔ اور رسول اللہ - صلى الله عليه وسلم-  کی حدیث شریف جو ابو داؤد اور طبرانی نے اسناد جید سے روایت کی ہے: "من خاصم في باطل وهو يعلم -وفي رواية أو أعان عليه -لم يزل في سخط الله حتى ينزع"،  اس کا مفہوم ہے ، جس نے جانتے ہوئے باطل کیلئے جھگڑا کیا ، ایک دوسری روایت میں ہے ، جس نے جانتے ہوئے باطل کی مدد کی اس وقت تک اللہ رب العزت کے غضب میں رہتا ہے جب کہ وہ اس سے مکمل طور پر باز نہیں آتا۔ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے.

ڈاکٹر عبداللہ الفقیہ کی زیر نگرانی مرکز فتویٰ کی رائے:

 وضعی قوانین کی درس و تدریس اگر صحیح مقصد کیلئے ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں جیسا کہ اس کی تعلیم کا مقصد اس سے واقف ہونا ہو۔ تاکہ اس کا پڑھنے والا شرعی احکام کی ان قوانین پر برتری اور فضیلت سے واقف ہو یا ان معلومات سے خود استفادہ کرے اور دوسروں کو فائدہ پہنچائے جو شریعت مطہرہ کے خلاف نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہ اس کی تعلیم حاصل کرنے والا اس میں اتنا مشغول نہ ہوجائے کہ یہ فرائض عین کی تعلیم اور خود اس پر واجب امور کی ادائیگی میں رکاوٹ بن جائے۔ علاوہ ازیں شریعت کے مخالف قوانین کو برا سمجھے اور اس سے بغض رکھے۔ ([2]) واللہ اعلم.

                                                                                        ڈاکٹر یاسر عبدالعظیم


[1] فتاویٰ دار الافتاء المصریۃ : الموضوع (٤٦): المفتی فضیلت الشیخ عطیۃ صقر مائی ١٩٩٧ئ..

[2] ڈاکٹر عبداللہ الفقیہ کی زیر نگرانی مرکز فتویٰ : فتویٰ نمبر ١٠٩٤٢بتاریخ : ٢٩ رجب ١٤٢٢ھ.