اسلامى ٹيليفون سروس كى بنياد عرب جمہوريہ مصر ميں 2000ء ميں ڈالى گئى، يہ اعتدال پر مبنى دينى خدمت ہے. |    
 
 
   
English عربى الاتصال بنا روابط اخرى فتاوى شائعة من نحن Q & A الرئيسية
 
   
سوال اور جواب --> دوئم عــلم --> اجنبی (دوسری اقوام) کی زبانیں سیکھنے کا حکم  

سوال : اجنبی (دوسری اقوام کی) زبانیں سیکھنے کے حکم کے بارے میں دریافت کیا گیا.  

خلاصہ فتویٰ : اگر اجنبی (دوسری اقوام کی ) زبانیں سیکھنے کی ضرورت نہ ہو تو ان کا سیکھنا مکروہ (ناپسندیدہ).

         اللجنہ الدائمہ للبحوث العلمیہ والافتاء12/133


تبصرہ:

زبانیں اچھی طرح سیکھنا ان میں مہارت حاصل کرنا ، ان کے اسرار سے واقف ہونا جائز امر ہے۔ ا س میں مشغول ہونے والا ایک ایسے علم کے حصول میں مشغول ہوتا ہے جس کی نہ صرف قدر و قیمت اور اہمیت ہے بلکہ ثواب بھی ہے۔ بشرطیکہ نیت اچھی ہو اور اسے جائز طریقہ پر استعمال کیا جائے۔

علمی رد:

اسلام کی دعو ت دینے کیلئے مسلمانوں میں دوسری اقوام کی زبانیں جاننا نہایت ضروری ہے۔ بالخصوص آج کی دنیا میں زندگی گزارنے کیلئے اس کے بغیر چارہ نہیں۔ اور دوسری اقوام کی زبان کو سیکھنے سے منع کرنے والی کوئی نص نہیں ملتی۔بلکہ اس کی طرف بلانے اور اس پر زور دینے والی نصوص موجود ہیں۔

امام بخاری (حضرت) زید بن ثابت (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ - صلى الله عليه وسلم- نے یہود کی کتاب کی تعلیم حاصل کرنے کا حکم فرمایا۔ یہاں تک کہ میں نے رسول اللہ - صلى الله عليه وسلم- کے فرامین لکھے۔ اور ان کی (یہود )جانب سے آپ - صلى الله عليه وسلم- کے نام آئی تحریروں کو پڑھ کر سنایا۔ اور ابو جمرہ نے کہا میں ابن عباس اور لوگوں کے درمیان ترجمہ کیا کرتا تھا۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے حاکموں کیلئے ترجمہ کرنے والوں کا ہونا انتہائی ضروری اور ناگزیر ہے۔

جب (حضرت) زید مدینہ شریف تشریف لائے تو رسول اللہ - صلى الله عليه وسلم- کو ان کا مدینہ شریف آنا پسند آیا کیونکہ وہ اکثر قرآن کریم کے حافظ تھے۔ آپ - صلى الله عليه وسلم- نے اُن سے فرمایا: " تعلم كتاب يهود، فإنى ما آمن من يهود على كتابى"، یہود کی کتاب (تحریر) سیکھو، مجھے اپنی تحریر کے بارے میں یہودیوں پر بھروسہ نہیں۔  چنانچہ آ پ نے آدھے مہینے یعنی ١٥ دن میں یہ زبان سیکھ لی اور یہودیوں کے نام آپ - صلى الله عليه وسلم- کے فرامین لکھے۔ اور جب انہوں نے آپ - صلى الله عليه وسلم- کو تحریر بھیجی تو اُسے آپ - صلى الله عليه وسلم- کی خدمت میں پڑھ کر سنایا۔

چنانچہ (حضرت) زید نے رسول اللہ - صلى الله عليه وسلم- کے حکم پر عبری اور سریانی زبانیں سیکھیں ۔ کیونکہ ان زبانوں کی ضرورت تھی۔ علماء کرام نے زبان کو اچھی طرح سیکھنے اور صحیح ترجمہ کے بارے میں گفتگو کی ہے۔ تاکہ احکام اور قضیوں کے بارے میں یہ ترجمہ دستاویز کی مانند اور موسوخ ہو۔

اس کی روشنی میں یقین دھانی ہوتی ہے کہ زبانوں کو اچھی طرح سیکھنا اور ان کے اصرار ورموز سے واقف ہونا جائز امر ہے اور اس کے حصول میں مشغول رہنے والا شخص درحقیقت ایسے علم کے حصول میں مشغول رہتا ہے جس کی قدر و قیمت ، اہمیت اور جس کے حاصل کرنے پر ثواب ہے۔ بشرطیکہ سیکھنے والے کا قصد و ارادہ اور اس کا استعمال جائزہو۔([1])
ڈاکٹرعبداللہ الفقیہ کی زیر نگرانی مرکز فتویٰ کی رائے: ضرورت ہو تو انگریزیں اور اسی طرح کی دوسری زبانیں سیکھنے میں کوئی حرج نہیں اوراگرمعاشرےکےبعض مفادات انہیں زبانوں پرموقوف ہو ں تو ان کا سیکھنا فرض کفایہ ہوجاتا ہے۔ ([2]) واللہ اعلم.


                                                                                      ڈاکٹر یاسر عبدالعظیم   


[1] فتاوی دار الافتاء المصریۃ : الموضوع (٣٢٨) المفتی: فضیلۃ الشیخ عطیۃ صقر : مئی ١٩٩٧ء.         

[2]  ڈاکٹر عبداللہ الفقیہ کی زیر نگرانی مرکز فتویٰ نمبر : ٥١٣١١ بتاریخ : ٢ جمادی الثانی ١٤٢٥ھ.