اسلامى ٹيليفون سروس كى بنياد عرب جمہوريہ مصر ميں 2000ء ميں ڈالى گئى، يہ اعتدال پر مبنى دينى خدمت ہے. |    
 
 
   
English عربى الاتصال بنا روابط اخرى فتاوى شائعة من نحن Q & A الرئيسية
 
   
سوال اور جواب --> دوئم عــلم --> فقہی مذاهب کے درمیان منتقل ہونے کا حکم  

سوال : ایک فقہی مذهب سے دوسرے فقہی مذهب کی طرف منتقل ہونے کے حکم کے بارے میں سوال کیا.  

خلاصہ فتویٰ: مسلمان کےلئے جائز نہیں کہ وہ اپنی مرضی اور خواہش سے ایک فقہی مسلک سے دوسرے فقہی مذهب کی طرف منتقل ہو۔ بلکہ اسے دلیل کے مطابق عمل کرنا چاہئے ۔

                                                              اللجنۃ الدائمہ للبحوث العلمیہ والفتاء ١٢/٩٦        

تبصرہ:

مجتہد علماء پر واجب ہے کہ وہ اُس پر عمل کریں جو دلیل سے ثابت ہو اور دوسروں پر اُن کی تقلید کرنا واجب ہے ۔ مقلد پر واجب نہیں کہ وہ کسی معین مذهب کی پابندی کرے۔ مذاهب کی اتباع کرنے کی اجازت دینے میں کوئی ممانعت نہیں ہے۔

علمی رد:

شرعی احکام میں کچھ ایسے احکام ہیں جن پر غور و خوص اور ان میں اجتہاد کی ضرورت نہیں ہے۔ اور ہر مسلمان انہیں مذہبی احکام کے طور پر جانتا ہے۔ مثال کے طور پر اسلام کے ارکان خمسہ (پانچ ارکان) اور بڑے ممنوعہ امور۔ ان کے علاوہ کچھ ایسے امور ہیں جن پر غور و خوص اور اجتہاد ضروری ہوتا ہے۔ فقہہ کے اکثر مسائل یہی ہیں اور اجتہاد کی اہلیت رکھنے اور شرطے پوری کرنے والے مجتہد ان مسائل کے بارے میں حکم تلاش کرتے ہیں ۔ اس کے علاوہ عام مسلمان پر واجب ہے کہ وہ مجتہد علماء کے مذهب کی پیروری کریں۔ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:

 ﴿فَسْئَلُوْۤا اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ (سورۃ الانبیاء  ٧ا)،


 
تر جمہ:

 اگر تم کو معلوم نہ ہو تو علم والوں سے دریافت کرو۔
کیونکہ عام مسلمان استنباط احکام کی استطاعت نہیں رکھتے۔ ا لعامی (وہ شخص جو مسئلہ تلاش نہ کرسکے) پر واجب نہیں کہ وہ کسی معین مجتہد کے مسلک کی پابندی کرے بلکہ وہ کسی مسئلہ میں اماابو حنیفہ کے قول پر عمل کرے اور دوسرے مسئلہ میں قطعی طور پر کسی دوسرے مجتہد کے قول پر عمل کرے۔ کیونکہ فتویٰ دریافت کرنے والے ، صحابہ کرام کے عہد سے اور ان کے بعد کے زمانے سے کبھی کسی ایک مجتہد سے فتویٰ لیتے اور کبھی کسی دوسرے سے۔ اور وہ کسی ایک فقیہ کی پابندی نہیں کرتے تھے۔ اور جب کوئی عام شخص کسی مجتہد سے فتویٰ دریافت کرنے اور مسئلہ کے حکم سے واقف ہوجانے کے بعد دوسرے مجتہد سے اس کا حکم دریافت کرتا ہے اور اس کا حکم معلوم ہوجانے کے بعد اسے اختیار ہوتا ہے کہ وہ اس میں سے کسی بھی ایک کے قول پر عمل کرے۔ ([1]) اور اسی پر اس کی اتباع جائز ہے۔ مذاهب نے مختلف مسائل میں اس کی اجازت دی ہے۔ جیسا کہ اکثر علماء کی رائے ہے ([2]) چنانچہ جس شخص نے امام ابو حنیفہ کے مذهب کے مطابق وضوء کیا اس کے لئے جائز ہے کہ وہ امام شافعی کے مسلک کے مطابق نماز پڑھے۔ اور اس کے برعکس یعنی وضو ء تو امام شافعی کے مذهب کے مطابق کرے اور حنفی مذهب کے مطابق نماز ادا کرے۔یہ جائز ہے کیونکہ مقلد اس کا پابند نہیں کہ وہ کسی معین مفتی سے ان امور کے بارے میں دریافت کرے۔ ان کا ذکر پہلے ہو چکا ہے۔ ([3]).    

ڈاکٹر عبداللہ الفقیہ کی زیر نگرانی مرکز فتویٰ کی رائے:

آرا ء میں اختلاف سے اللہ رب العزت کی منشا یہ ہوئی کہ وہ اپنے بندوں پر وسعت فرمائے۔ اگر کسی زمانے میں ایک عالم کے قول پر عمل مشکل ہوجائے تو وہ دوسرے کے قول پر عمل کرلیں۔ اور اگر اللہ رب العزت چاہتا کہ کتاب و سنت کی نصوص کا صرف ایک ہی مفہوم ہو اور اس میں کوئی اختلاف نہ ہو تو وہ ایسا کرسکتا تھا لیکن اختلاف٩ رائے میں اس کی حکمتیں ہیں جنہیں اللہ رب العزت ہی جانتا ہے۔ امام ابن عبدالبر نے اپنی کتاب جامع بیان العلم و فضلہ میں لکھا ہے کہ (حضرت)عمر بن عبد العزیز اور قاسم بن محمد نے نشست منعقد کی اور دونوں ایک حدیث شریف کا ذکر کررہے تھے۔ (حضرت) عمر بن عبدالعزیز ایسی بات کہہ رہے تھے جو قاسم کی رائے کے خلاف تھی ۔ اور یہ بات قاسم پر سخت گراں تھی یہاں تک کہ حدیث شریف کے بارے میں بات واضح ہوگئی۔ چنانچہ (حضرت) عمر بن عبدالعزیز نے ان سے کہا: وہ کام نہ کرنا جس سے مجھے خوشی ہو۔ میری رائے میں ان کا اختلاف بہترین نعمت ہے اور یہی بات بعض اہل علم نے کہی ہے کہ مفتی کو چاہئے کہ وہ سوال کرنے والے کو اپنی رائے اور دوسرے کی رائے میں اختیار دے۔

جن علماء نے اس کے بارے میں لکھا ہے ان میں امام البھوتی الحنبلی کا نام آتا ہے ۔ انہوں نے منتہی الارادات کی شرع میں یہ بات لکھی ہے۔ اور علماء کی ایک جماعت کے حوالے سے اس کا ذکر کیا ہے۔ اور شیخ السلام ابن تیمیۃ نے کہا کہ حاکم کو اختیار نہیں کہ وہ ان جیسے مسائل میں دوسروں کی رائے کی مخالفت کرے اور نہ ہی کوئی عالم یا مفتی لوگوں کو اپنی رائے کا پابند بنائے۔ جب رشید نے امام مالک سے مشورہ کیا کہ اپنی رعیت کو کس قسم کے مسائل کا پابند کیا جائے تو امام مالک نے انہیں اس سے منع کردیا اور کہا کہ رسول اللہ - صلى الله عليه وسلم- کے صحابہ کرام دور دراز علاقوں میں پھیل گئے ہیں اور ہر قوم نے اتنا ہی علم لیا جتنا کہ اسے پہنچا ہے۔ ایک شخص نے فقہاء کے اختلافات کے بارے میں کتاب لکھی تو امام احمد نے ان سے کہا : اس کا نام کتاب الاختلاف نہ رکھيں بلکہ اس کا نام کتاب السعۃ رکھیں۔اس وجہ سے بعض علماء کہا کرتے تھے کہ ان مجتہدین کا قطعی حجت پر اجماع (اتفاق) اور ان کا اختلاف دونوں وسیع رحمت ہیں۔ کیونکہ اگر وہ ایک ہی قول یا رائے پر متفق ہوجائےں تو ایک گمراہ آدمی ان کی مخالفت کرتا ہے۔ اگر مجتہدین ایک دوسرے سے اختلاف کرتے ہیں ، ایک مجتہد ایک بات کہتا ہے اور دوسرا دوسری بات کہتا ہے تو مسئلہ میں وسعت پیدا ہوتی ہے۔ امام مالک کے علاوہ دوسرے ائمہ نے کہا کہ فقیہ اپنا مذهب لوگوں پر مسلط نہیں کرتا۔ (حضرت)امام شافعی کے علاوہ امر باالمعروف والنھی عن المنکر کے موضوع پر امام شافعی کے ساتھیوں اور دوسرے مصفین نے کہا کہ اس قسم کے اجتہادی مسائل میں ہاتھ سے انکار نہیں کیا جاتا اور نہ ہی لوگوں کو اپنی اتباع کا پابند بنایاجاتا ہے بلکہ فقہاء علمی حجتوں اور دلائل سے گفتگو کرتے ہیں اور جس کو دو اقوال میں سے جو قول صحیح معلوم ہوتا ہے اسی کو قبول کرتا ہے۔ اور جس نے دوسرے مذهب کے قول کی تقلید کی تو اس کیلئے ممانعت نہیں ہے۔ ([4]) ختم شد. 

                                                                                               ڈاکٹر یاسر عبدالعظیم


[1] الامدی اور ابن الجمام نے التحریر میں اور صاحب الجوامع اور مسلم الثبوت نیز دیگر علما ء اصول نے یہی بات لکھی ہے۔     
 

[2] التحریر کی شرع میں لکھا ہے کہ (اور اس سے تخریج کی جاتی ہے) یعنی وہ کسی معین مسلک کی پابندی نہیں کرتے اور اس کی اتباع کا جواز مسالک کی اجازت ہے۔ یعنی مسائل پیش آنے پر انہوں نے ہر مسلک سے وہ بات لی جو زیادہ آسان ہو۔ اور اسى طرح مسلم الثبوت  اور شرح الجلال المحلى  پر حاشيہ العطارميں ہے.شرح التجريد ميں شرنبلالى حنفى نے سيد بادشاہ سے نقل كيا ہے فقهى مذاهب ميں بيان كردہ رخصتوں  كى اتباع(كسى مسئلے ميں مكلف كيلئے آسان رائے پر عمل كرنا) جائز ہے اور اسں ميں كوئى شرعى ممانعت نہيں.ابن امير الحاج نے كہا ہر مسئلے ميں عام شخص كا اپنى آسانى كيلئے  كسى بهى مجتهد كے قول پر عمل كرنے ميں ، مجهے معلوم نہيں كہ شرعى اور عقلى طور پر كيا ممانعت ہے. 1 هـ.  جہاں تک اُس کا تعلق ہے جو انہوں نے ابن عبدالبر سے نقل کیا ہے کہ العامی کیلئے جائز نہیں کہ وہ اجازت کی اجماعی طور پر اتباع کرے۔ اس سلسلے میں کہیں گے کہ یہ علی الاطلاق نہیں ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے امام احمد سے دو روایتیں بیان کی ہیں۔ اور قاضی ابو یعلی نے اُس روایت پر محمول کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مسالک کی اجازت غیر متأول کیلئے منسوخ ہے۔ لیکن مقلد کیلئے نہیں۔

 

[3] فتاویٰ دار الافتاء المصریۃ : الموضوع (١١٠٢) المفتی : فضیلۃ الشیخ حسنین محمد مخلوف ٤ جمادی الاخر ١٣٧٣ھ ٩ فروری ٥٤.    

[4] مرکز فتویٰ زیر نگرانی : ڈاکٹر عبدالفقیۃ فتویٰ نمبر ١٦٣٨٧ بتاریخ : ١ ربیع الاول ١٤٢٣ھ.