خلاصہ
فتویٰ:
طالبعلم دلیل کے بغیر فتویٰ نہ دے۔
الشیخ ابن باز مجلۃ
البحوث ٤٧/١٧٣۔١٧٤
تبصرہ:
طالب علم
فتویٰ نہیں دیتا۔ بلکہ وہ مجتہد علماء کے مسالک کو نقل
کرتا ہے۔
علمی رد:
شرعی
احکام کا فتویٰ دینے والے مفتیوں کی دو قسمیں ہیں۔ پہلی
قسم کتاب و سنت اور دیگر شرعی ادلہ میں اپنی مستقل نگاہ
اور رائے رکھنے والوں کی ہے۔ جیسے ائمہ اربعہ (چار امام) ۔
دوسری قسم غیر مستقل فقہا ء کی ہے ۔ یہ پہلی قسم سے منسوب
ہوتے ہیں۔ اور انہیں کے مسلک کی پابندی اور ان کے اصولوں
کی اتباع کرتے ہوئے فتویٰ دیتے ہیں۔ مستقل مفتی کی شرائط
یہ ہےں ۔
مکلف
مسلمان ہو۔ باثقہ ہو۔ محفوظ و مأمون ہو۔ فسق و فجور کے
اسباب اور مروت کی کمزوریوں سے پاک ہو۔ دلائل پر غور و فکر
کرکے احکام کے استنباط کا ملکہ و صلاحیت رکھتا ہو۔ صحیح
ذہن اور مضبوط و مستحکم فکر کا مالک ہو۔ صحیح تصرف اور
استنباط کی قدرت رکھتا ہو۔ علاوہ ازیں قرآن و سنت ، اجماع،
قیاس ، ادلہ احکام شرعیہ کی معرفت اور ان سے متعلق افضلیت
اور ترجیحات کا علم رکھتا ہو۔ دلائل کی شرطوں ، اُن کی
دلالت کی طریقوں ، اُن سے احکام کے استنباط کے طریقوں کا
عالم ہو۔ اصول الفقہ سے استفادہ کرتا ہو۔ علوم قرآنی ،حدیث
شریف ،ناسخ و منسوخ، علم النحو ، علم اللغت اور علم الصرف
کا عالم ہو ، قدیم علماء کے اتفاق و اختلاف سے واقف ہو،
تاکہ وہ دلائل اور ان سے اقتباس اور استنباط کی شرطوں کو
پورا کرسکتا ہو۔ ان علوم کو استعمال کرنے اور اس سے مشکلات
کو حل کرنےکی قدرت رکھتا ہو۔ بنیادی مسائل اور فروعی مسائل
جو پہلے طے کئے جاچکے ہیں ان کا اُسے علم ہو۔ جس شخص میں
یہ تمام صفات پائی جائےںوہ مفتی مطلق مستقل ہوتا ہے ۔وہ
فرض کفایہ کی ادائیگی کرتا ہے اور یہی مطلق مستقل مجتہد
ہوتا ہے کیونکہ وہ کسی دوسرے مجتہد کا پابند ہوئے اور
تقلید کئے بغیر ادلہ اربعہ سے شرعی احکام کو جاننے کی کوشش
کرتا ہے۔
دوسری
قسم کا جہاں تک تعلق ہے تو یہ مستقل مفتی نہیں ہوتے۔ علماء
نے ان کی متعدد قسمیں بیان کی ہیں۔ اور ہر ایک کے لیے
لازمی شرط ہے کہ وہ اپنے مسلک کا پابند ہو ۔ دلائل پر غور
و فکر کرکے احکام کے استنباط کی صلاحیت رکھتا ہو۔ فتویٰ
دینے والے میں اگر یہ صفات نہ ہو تو وہ عظیم گناہ کا
ارتکاب کرتا ہے۔ علماء نے کہا کہ مقلد کیلئے اپنے ہی مسلک
میں فتویٰ دینا جائز ہے۔ مثال کے طور پر وہ یوں کہے کہ
شافعی مسلک میں یہ مسئلہ اس طرح ۔۔ اور ۔۔ اس طرح ہے۔ تو
اس میں کوئی حرج نہیں۔ ([1])
اس سے واضح ہوتا ہے کہ طالبعلم کو چاہئیے کہ اگر وہ فتویٰ
دے تو چاروں معتمد ائمہ کے مسلک کی پابندی اور اُن سے نقل
کرتے ہوئے فتویٰ دے نہ کہ ان کے دلائل اور اصول و قواعد
میں غور و خوص کرے۔ صحابہ کرام سے جب کسی مسئلہ کے بارے
میں دریافت کیا جاتا تو وہ اسے دوسرے کی طرف منتقل کردیتے۔
(حضرت) ابو بکر صدیق (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے فرمایا: کون
سا آسمان مجھـ پر سایہ فگن ہوگا اور کون سی زمین مجھے
اٹھائے دی اگر میں کتاب اللہ میں ایسی بات کہوں جو اللہ
تبارک و تعالیٰ کا مقصود اور ارادہ نہ ہو۔ قدیم علماء کے
یہاں عبارت ''لاادری''( میں نہیں جانتا ) کا ایک مقام و
مرتبہ تھا ۔
اس
عبارت پر بکثرت عمل کیا جاتا تھا۔ ایک روایت میں خبر ہے کہ
علم تین ہیں ،کتاب ناطق ( کتاب گویا )، سنت قائمہ (قائم
سنت) اور لاادری (میں نہیں جانتا) ([2]) (حضرت)
ابن مسعود نے فرمایا: کہ عالم کی ڈھال ہے ''لا ادری'' (میں
نہیں جانتا) ۔ اگر وہ اس کے استعمال میں غلطی کرتا ہے تو
یہ غلطی اُسے اُس کے حریف تک پہنچا دیتی ہے۔ (حضرت) ابن
عمر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے دس مسائل دریافت کئے جاتے تو
آپ صرف ایک کا جواب دیتے اور نو میں خاموشی اختیار فرماتے
۔ (حضرت) امام مالک سے اڑتالیس مسئلے دریافت کئے گئے تو
انہوں نے ان میں سے بتیس کے بارے میں کہا ''لا ادری'' (میں
نہیں جانتا) ۔ یہ سب سلفی صالحین کی قابل شرف حالتیں ہیں۔
ہم دیکھتے ہیں کہ وہ علم کے بغیر فتویٰ دینے میں کس قدر
خوف زدہ رہتے تھے۔ باوجود یہ کہ دعوت پہنچانے کا حکم عام
تھا۔ اور علم کو چھپانے کے بارے میں تنبیہ موجود تھی اور
جس کسی کو علم پھیلانے کی رغبت ہو اسے چاہئے کہ وہ جو کچھ
کہے اسے اس کا پورا علم کو اور وہ اس پر ثابت قدم ہو۔ اور
جو شخص کسی اجتہادی رائے سے واقف ہو اسے چاہئے کہ وہ اسی
رائے سے چمٹا نہ رہے۔ اور نہ ہی تعصب اختیار کرے۔ واللہ
اعلم.
شیخ محمد صالح المنجد نے کہا: ''العامی'' (وہ شخص جو دلائل
تک رسائی حاصل نہیں کرسکتا اور اہل علم کے طریقوں کے مطابق
سمجھ نہیں سکتا تو اس )پر تقلید اور اہل علم سے دریافت
کرنا فرض ہے۔ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:
﴿فَسْئَلُوْۤا اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾ (سورۃ الانبیاء ٧)،
تر جمہ:
اگر تم کو معلوم نہ ہو تو علم والوں سے دریافت کرو۔ ([3]).
ڈاکٹر یاسر عبدالعظیم
[1]
المجموع للنووی ١/٠٧٨.
[2]
خطیب نے اسے ابن عمر پر موقوف روایت کیا۔ ابو داؤد
اور ابن ماجہ نیز دیگر نے اسے مرفوم روایت بتایا ،
العراقی علی الاحیاء ج ١ صفحہ نمبر ٦١.
[3]
الشیخ محمد صالح المنجد سوال نمبر ١٠٢٩٦.