اسلامى ٹيليفون سروس كى بنياد عرب جمہوريہ مصر ميں 2000ء ميں ڈالى گئى، يہ اعتدال پر مبنى دينى خدمت ہے. |    
 
 
   
English عربى الاتصال بنا روابط اخرى فتاوى شائعة من نحن Q & A الرئيسية
 
   
سوال اور جواب --> يازدهم مرد وعورت كے درميان تعلقات ، شادى اور خاندان --> اجنبی عورت سے مصافحہ کا حكم  

سوال : اجنبی عورت سے ہاتھ ملانے کے بارے میں سوال کیا گیا۔  

خلاصہ فتوی: خواہ عورت جوان ہو یا عمر رسیدہ ہاتھ پر پردہ ہو یا نہ ہو بہر صورت ناجائز ہونے کا حکم دیا گیا.

                                      الشیخ ابن باز ۔مجلۃ الدعوۃ، شمارہ نمبر٨٨٥


تبصرہ: 

اجنبی عورت سے مصافحہ کے بارے میں علمائے کرام کے درمیان اختلاف پایا جاتا کچھ حضرات جواز کے قائل ہیں اورکچھ حضرات حرمت کے قائل ہیں ،لیکن اگر مصافحے میں شہوت و فتنہ کا پہلو مفقود ہو تو جواز کے قائلین کی تقلید کی گنجا ئش ہے.
علمی رد

جمہور علمائے کرام کا مذہب يہ ہے كہ ، مرد کا بے شہوت ،عمر رسیدہ اجنبی عورت سے مصافحہ کرنا جائزہے، لیکن اگر دونوں جوان ہوں تو ناجائز ہے، اور شافعی حضرات بوقت ضرورت اور فتنہ نہ ہونے کی صورت میں پردہ کے اوپر سے مصا فحہ کو جائز قرار دیتے ہیں.اور امام احمد بن حنبل ایک روایت کے مطابق صرف کراہت کے قائل ہیں حرمت کے نہیں. اور عصر حاضر کے بعض علماء بہرصورت جواز کے قائل ہیںاگر شہوت کا اندیشہ نہ ہو،ان میں سے ہرہر فریق اپنے اپنے شرعی دلائل رکھتے ہیں.مصافحہ کے جواز کے قائلین نے مندرجہ ذیل دلائل دئيے ہیں: پہلی دلیل: یہ بات طے ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی چیز کو ترک فرمانا اس کی حرمت کی دلیل نہیں ہے،کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی چیز کوکبھی اس لئے ترک فرماتے تھے کہ وہ حرام ہے اور کبھی اس لئے ترک فرماتے تھے کہ وہ مکروہ ہے اور کبھی اس لئے کہ خلاف اولی ہے اور کبھی اس لئے ترک فرماتے تھے کہ اس کی طرف رغبت نہیں ہوتی تھی جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا  گوہ کوتناول نہ فرمانے کے واقعے میں ہے باوجود اس کے کہ ضب جائز ہے، اور کبھی کسی خاص وجہ سے ترک فرماتے تھے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "إني لا أقبل هدية مشرك" میں کسی مشرک کا تحفہ قبول نہیں کرتا ہوں''  لیکن کسی اور موقعے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول بھی فرمالیا اور اسی کی روشنی میں ''لا اصافح النساء'' یعنی میں عورتوں سے مصافحہ نہیں كرتا ہوں'' اس حدیث کو سمجھا جاسکتا ہے.
دوسری دلیل : آپ صلی اللہ علیہ وسلم کابیعت میں عورتوں سے مصافحے سے گریز فرمانا متفق علیہ بات نہیں ہے،کیونکہ حضرت ام عطیۃ رضیاللہ عنہاکی روایت سے بیعت میں مصافحے کا ثبوت ملتا ہے بر خلاف حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کے جس میں انہوں نے اس کا انکار کیا اور مصافحہ نہ ہونے پر قسم کھائیں.([1])
تیسری دلیل:"لأن يطعن في رأس أحدكم بِمخْيَط من حديد خير من أن يمس امرأة لا تحل له" تم میں سے کسی کے سر میں لوہے کی سوئی کا چبھایا جانا زیادہ بہتر ہے اس سے کے کسی ایسی عورت کو ہاتھ لگائے جو اس کے لئے حلال نہیں ہے''والی حدیث سے استدلال متن وسند دونوں لحاظ سے قابل تسلیم نہیں ہے.([2])

چوتھی دلیل: حدیث صحیح میں ایسے شواہد وارد ہیں کہ شہوت اور فتنے سے ہٹ کرباہم عورت ومردکا ایک دوسرے کا ہاتھـ چھونااپنی جگہ جائز ہے،بلکہ ایسا بھی احتمال قائم ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مصافحہ فرمایا، اور اصل تو یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل تشریع کے لئے ہے اور قابل اقتدا ہے. اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:

 ﴿لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ (الاحزاب٢١)، ترجمہ: "فی الحقیقت تمہارے لئے رسول اﷲ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات) میں نہایت ہی حسین نمونۂ (حیات) ہے"۔

چنانچہ امام بخاری نے اپنی صحیح میں روایت کی ہے ، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے بیان کرتے ہیں '' أهل مدینہ منورہ کی بچیوںمیں سے کوئی بھی بچی حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک کوپکڑ کر جہاں چاہتی تھیں لے جاتی تھیں'' اور امام احمد کی ایک روایت میں ہے۔

''تو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک کووہ پکڑتیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دست مبارک نہ کھینچتے تھے یہاں تک کہ وہ جہاں چاہتی تھیں لے جاتی تھیں''
مزید صحیحین اور سنن میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی خالہ (یعنی حضرت انس کی خالہ) ام حرام بنت ملحان حضرت عبادہ بن ثابت کی اہلیہ کے یہاں قیلولہ فرمائے،اور اپنا سر مبارک ان کی آغوش میں رکھـ کر استراحت فرمائى اور وہ ان کے سر مبارک میں جوں تلاش کرنے لگیں '' الحدیث.
اگرچہ بعض حضرات نے یہ دعوی کیا ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے محارم میں سے تھیں،لیکن حافظ دمیاطی نے اسے رد کردیا ، یا یہ کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات میں سے ہے، لیکن قاضی عیاض نے اسے تسلیم نہیں کیا ہے.
ان تمام روایتوں سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوگئی کہ صرف چھونا حرام نہیں ہے، اور اگر اختلاط کے اسبا ب پائے گئے جیساکہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اورام حرام اور ام سلیم رضی اللہ عنہما کے درمیان تھا اور طرفین سے فتنے کا اندیشہ نہ رہے تو وقت ضرورت جیسےسفر سے واپسی یا ملاقات وغیرہ کے وقت مصافحہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے.
اور یہاں اس بات کی وضاحت مناسب ہے کہ اگر مصافحے سے فتنے کا اندیشہ ہو تو بلاشک وشبہ حرام ہے، بہرحال یہ اجازت ضرورت کی حد تک ہی محدود رہے،اور ایک مسلمان کے لئے بہتر یہی ہے کہ مصافحے میں پہل نہ کرے لیکن اگر ہاتھ بڑھادیا جائے تو کرلے.
یاد رہے کہ مذکورہ بالا حکم کو ہم نے اس لئے قطعیت دی ہے تاکہ ضرورت مند آدمی اس پر عمل کرسکے ،اور اس عمل کی وجہ دین کے حق میں کوتاہی کے احساس کی زد میں نہ رہے، نیز دیکھنے والے کی طرف سے نشانہء ملامت نہ بنے کیونکہ مسئلہ اجتہادی نوعیت کا ہے.([3])

ڈاكٹر یاسر عبدالعظیم


[1] اس کی مزید تفصیل شیخ قرضاوی اوردار الافتاء المصریۃ کے شرعی تحقیقات سینٹر کے ویب سائٹ پر ملاحظہ فرمائے.
[2] طبرانی اور بیہقی نے حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کے حوالے سے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے، اس حدیث شریف میں جو ''مخیط'' کالفظ واقع ہوا ہے اس کامعنی سلائی کا آلہ جیسے سوئی وغیرہ مرادہے، اس حدیث سے استدلال پر ردوقدح مذکورہ بالا مصادر میں ملاحظہ فرمائے.

[3]الشیخ قرضاوی کی تحقیق کا خلاصہ،اوردار الافتاء المصریۃ کے شرعی تحقیقات سینٹر کے ویب سائٹ ملاحظہ فرمائے.