اسلامى ٹيليفون سروس كى بنياد عرب جمہوريہ مصر ميں 2000ء ميں ڈالى گئى، يہ اعتدال پر مبنى دينى خدمت ہے. |    
 
 
   
English عربى الاتصال بنا روابط اخرى فتاوى شائعة من نحن Q & A الرئيسية
 
   
سوال اور جواب --> يازدهم مرد وعورت كے درميان تعلقات ، شادى اور خاندان --> اولاد کا نسب باپ سے کب ثابت ہوتا ہے  

سوال : ناجائز اولاد کی وراثت کے متعلق سوال کیا گیا كہ اگرناجائز اولاد کا نسب والد سے ثابت ہوجائے تو کیا وہ اس کا وارث ہوگا؟  

خلاصہء فتوى: اولاد کا نسب صرف اس صورت میںہی ثابت ہوتاہے جبکہ جماع کا عمل درست یا فاسدنکاح یا کم از کم شبہہء نکاح کے تحت ہوا ہو اگر زنا کے ذریعہ مباشرت واقع ہوئی ہو تو زانی سے کوئی نسب ثابت نہیں ہوگا.

                                                                          فتاویٰ اللجنۃ الدائمۃ ٢٠/٣٨٧

تبصرہ:

جمہور فقہائے کرام کے نزدیک ناجائز اولاد زانی کی طرف منسوب نہیں ہوگی، لیکن اسحاق بن راہویہ اور ابن تیمیۃ وغیرہ کی رائے میں زانی کی طرف بھی نسب کا سلسلہ ہوسکتاہے.
علمی رد:

ناجائز اولاد کی تعریف: ناجائز اولاد ایسی اولاد کو کہتے ہیں جو اپنی ماں کی غلط کاری کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہو، اس صورت میں اس کا نسب اس کی ماں سے ثابت ہوگا اور اسی کی طرف وراثت بھی چلے گی ،کیونکہ اس سے اس کا رشتہ ایک جسمانی نوعیت کا ہے جس میں شک کی گنجائش نہیں ہے البتہ جمہور فقہائے کرام کے نزدیک زانی کی طرف نسبت درست نہیں ہے اگرچہ زانی اس رشتے کا اعتراف بھی کرلے کیونکہ نسب ایک قسم کی نعمت ہے جبکہ زنا ایک جرم ہے اور نعمت کا حصول جرم کے ذریعے نہیں ہوسکتاہے، لیکن اگر کوئی شخص صرف ولدیت کا اقرارکرے اور یہ ظاہر نہ کرے کہ یہ ولدیت زنا کا نتیجہ ہے اور اقرار کے شرائط بھی تکمیل کو پہونچ جائیں تو اس صورت میں عمومی حسن ظن اور ظاہر پر عمل کرتے ہوئے اس کا نسب اس سے ثابت ہوجائے گا،چنانچہ اگر دونوں میں سے کوئی ایک فوت ہوجائے تو دوسرا اس کا وارث ٹھہرے گا.([1])


لیکن اسحاق بن راہویہ اور ابن تیمیہ وغیرہ کا مذہب یہ ہے کہ ناجائز اولاد کانسب زانی کی طرف ہوگا ،بشرطیکہ عورت کسی اور کے ساتھ رشتہء زوجیت میں منسلک نہ ہو، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی غلط کاری ایک واقع حقیقت ہے اور اس کے باوجود جب ماں سے اس کا نسب ثابت ہورہا ہے تو زانی سے بھی اس کا رشتہ ثابت ہوگا تاکہ اس اولاد کا نسب ضائع نہ ہونے پائے اور بدنامی اور رسوائی کا نشانہ نہ بنے خصوصاً جبکہ اس جرم میں اس کا کوئی دخل نہیں ہے، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:  ﴿وَلا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى (الانعام ١٦٤)، ترجمہ:  "اور کوئی بوجھـ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا"۔

بہرحال اس رائے کی روشنی میں زنا پر بھی باہم وراثت ہوسکتی ہے، کیونکہ وراثت کا مسئلہ ثبوت نسب کا نتیجہ ہے اور مذکورہ بالا علمائے کرام اس صورت میں بھی ثبوت نسب کے قائل ہیں.([2]) ۔اللہ اعلم.

                                                                             ڈاکٹر انس ابو شادى


[1] فتاوی دار الافتاء المصریۃ: مضمون نمبر(٩٢٤) المفتی:فضیلۃ الشیخ عبدالرحمن قراعۃ ٦ذوالحج ١٣٤٢ھ ٨ جولائی ١٩٢٤م، مضمون نمبر (٩٩٥) المفتی: فضیلۃ الشیخ حسن مامون٢٤٠ شعبان ١٣٧٦ھ ٢٦ مارچ ١٩٥٧م.

[2] ۔الموسوعۃ الفقھیۃ ٣/٧٠.