اسلامى ٹيليفون سروس كى بنياد عرب جمہوريہ مصر ميں 2000ء ميں ڈالى گئى، يہ اعتدال پر مبنى دينى خدمت ہے. |    
 
 
   
English عربى الاتصال بنا روابط اخرى فتاوى شائعة من نحن Q & A الرئيسية
 
   
سوال اور جواب --> يازدهم مرد وعورت كے درميان تعلقات ، شادى اور خاندان --> دلہن کی رخصتی کا حکم  

سوال : عورتوں کے دف بجاتےہوئےدلھن کو شادی ہال کے دروازےسےسٹیج تک لانے، اللہ تعالی کے ذکر اور درود پاک پر مشتمل ترانے گانے، دولھا دولھن کیلۓ دعاء کرنے کے حکم کے بارے میں دریافت کیا گیا۔ اور اس رخصتی اورسٹیج پر بیٹھنے کا کیا حکم ہے؟  

خلاصہ فتوی: جواب دیا گیا کہ اس طرح رخصتی کرنا جائز نہیں کیونکہ یہ نئے من گھڑت امورمیں سے ہے اورہر نئی چیز بدعت ہے۔اوریہ کہ عورتوں کیلۓ اصل حکم وقاراورشرم وحیاء ہے اوردلھن کا لوگوں کے سامنےآنااورسٹیج پر بیھٹنا اسکے اوچھےپن اورحیاء کی کمی دلیل ہے۔

                                         فتوی شیخ ابن جبرین اور اس پر انکے دستخط ہیں

تبصرہ:

شادی کا اعلان اور اسکی تشھیر کرنا سنت ہےاور دلھن کی رخصتی مسنون تشھیرمیں سے ہے۔

علمی رد: 

شادی کا اعلان اوراسکی تشھیر سنت ہےتاکہ لوگوں کو اس شادی کا علم ہو جائے، حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "أَعْلِنُوا هَذَا النِّكَاحَ وَاجْعَلُوهُ فِي الْمَسَاجِدِ وَاضْرِبُوا عَلَيْهِ بِالدُّفُوفِ"(اسے امام ترمذی نے روایت کیااور حسن کہا ہے)، ترجمہ: "تم اس نکاح کا اعلان کرو ار اس مسجد میںمنعقد کرو اس پر دف بجاؤ"۔

یہ حدیث مبارکہ میسر وسائل سے تشھیر کرنے کی دعوت دیتی ہے ،اورعورتوں کے دف بجاتےہوئےدلھن کو شادی ہال کے دروازےسےسٹیج تک لانا اور ترانے گانا، یہ سب شادی کی سنتیں ہیں۔

امام بخارى- رحمة الله عليه- نے حضرت عائشہ صديقہ رضی اللہ عنہا سے روايت كى ہے آپ رضی اللہ عنہا نے ايک دلهن كو انصاری مرد(دولھے) کے پاس پاس بھیجا تو نبئ کریم- صلی اللھ علیھ وسلم- نے فرمایا: "ماکان معکم لھو فان الانصار یعجبھم اللھو"([1]

"اےعائشہ تمہارےپاس تفریح کیلئے(دف وغیرہ) نہیں ہے، کیونکہ انصار کھیل اور تفریح پسند کرتے ھیں"۔

   یہ جودلہن اسٹیج پربیٹھتی تاکہ عورتیں اسے دیکھیں اور مبارک دیں اس میں شرعا کوئی حرج نہیں، اور ایسے موقعوں پر عورتوں ميں عورتوں کے رقص کرنيكے بارے میں ہم پہلے بیان کرچکےہیں کہ یہ جائزہے۔اوراگردولہا اور دلہن اسٹیج پر بیٹھتے اور بلائے گئے تمام خواتین و حضرات ان دونوں کو دیکھتے ہیں، تو ہم اسکے بارے پہلے بیان کرچکے ہیں([2]) کہ یہ تقریبات منعقد کرنے والوں کواگر معلوم ہو کہ ایک جگہ پر عورتوں اور مردوں کے شریک ہونے سے شرعی خلاف ورزی نہیں ہوگی تو شرعی قواعد کی حدود میں(عورتوں اور مردوں کی باہمی شرکت) جائز ہے۔ اگرچہ عموما ان سے تجاوز ہوتا ہے، جیسا کہ آج کل اکثر شہروں میں ہوتا ہے،تو ایسی صورت میں احتیاطا ضروری اوربہتر یہ ہیکہ ان مناسبات اور مواقع پر ایک ہال مردوں اوردوسرا ہال عورتوں کیلئے مخصوص کیا جائے، جہاں عورتیں ان قیوداورپابندیوں سے آزاد ہوں جو کہ عورتوں اور مردوں کے ایک جگہ پر شریک ہونے سے ان پر عائد ہوتی ہیں۔ اللہ اعلم۔

ڈاکٹر انس ابو شادی


[1] البخاری: 5162۔

 [2] دیکھئے فتوی نمبر117۔