اسلامى ٹيليفون سروس كى بنياد عرب جمہوريہ مصر ميں 2000ء ميں ڈالى گئى، يہ اعتدال پر مبنى دينى خدمت ہے. |    
 
 
   
English عربى الاتصال بنا روابط اخرى فتاوى شائعة من نحن Q & A الرئيسية
 
   
سوال اور جواب --> يازدهم مرد وعورت كے درميان تعلقات ، شادى اور خاندان --> شادیوں پر سیٹیاں اور تالیاں بجانے کا حکم  

سوال : شادیو ں میں عورتو ں کی اپنے منہ سے مخصوص آواز (سیٹیاں)اور تالیاں بجانے کے حکم کے بارے میں دریافت کیا گیا۔  

خلاصہ فتوی:  عورتوں کا مخصوص آوازیں نکالنا جائز نہیں کیونکہ عورت کی آواز ستر یعنی پردے میں شامل ہے۔ اور ضروتاّّ یعنی مردوں کو متنبہ کرنے کیلۓ عورتوں کا تالیاں بجانا جائز ہے۔

                                 فتوی شیخ ابن جبرین اور اس پر انکے دستخط ہیں

تبصرہ:  

 عورت کی آواز ستر نہیں ۔ اور عورتوں کی مخصوص آوازیں (سیٹیاں) عام آواز ميں اگرفتنہ انگیز نہ ہوں تو ان میں بھی کوئی حرج نہیں بطورخاص جب عورتوں کے درمیان ہوں۔ اور تالیاں بجانا بھی عبادت نہیں اور نہ انکا مقصد اللہ تعالئ کا قرب ہے ،اور اس سے ممانعت بھی نہیں ہے۔                            

علمی رد: 

شادیوں میں عورتوں کی جانب سے مخصوص آوازیں نکالنے(سیٹیاں بجانے) پر عورت کی آواز اوراسکے گانے کا حکم لگایا جاۓ گا۔ اور عورت کی آواز ستر نہیں اور اگر انکی مخصوص آوازیں (سیٹیاں) آونچی اور فتنہ انگیز نہ ہوں اور بطور خاص عورتوں کے درمیان ہوں اور اجنبی مردوں تک نہ پہنچتی ہوں تو جائز ہیں۔

جبکہ ان مخصوص آوازوں میں اگر فتنہ انگیزی اور شہوانی ہیجان (کاخطرہ) ہو تو پھر اس میں فتنے کی وجہ سے شریعت اسکی اجازت نہیں دیتی ہے۔

اور جہاں تک تالیاں بجانے کا تعلق ہے تو اللہ تعا لی کفار کے بارے میں فرماتا ہے کہ: ﴿وَمَا كَانَ صَلاتُهُمْ عِنْدَ الْبَيْتِ إِلاَّ مُكَاءً وَتَصْدِيَةً (الانفال 35)، ترجمہ: "اور بیت اللہ (خانہ کعبہ)کے پاس انکی( نام نہاد) نماز سیٹیاں اور تالیاںبجانے سوا کچھـ نہیں".

(اس آیت کریمہ میں)"ألمكاء" کا معنی سیٹی بجانا اور "التصدیھ" کا معنی تالی بجانا ہے قریش مکہ ننگی حالت میں خانہ کعبہ کا طواف کرتے، تالیاں اور سیٹیاں بجاتے تھےاور انکے زعم باطل کے مطابق یہی عبادت تھی۔ 

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ  سيٹیاں اور تالیاں بجانے کو اللہ تعالی کے قرب کا ذریعہ اور عبادت سمجھتے ہیں وہ خطاکار ہیں ، جیسا کہ بعض جاہل (نام نہاد) صوفی جو رقص کرتے اور تالیاں بجاتے ہیں۔

لیکن اس فتوی میں جن تالیوں کا ذکرہے وہ نہ عبادت ہیں اور نہ ہی انکا مقصد قرب الہی کا حصول ہے، بلکہ یہ ایکٹقلیدی رسم ہے جسے بعض لوگوںنے اپنی خوشی کےاظہار کیلئے اختیار کر رکھا ہے، اور اس میں کوئی ممانعت نہیں۔

ہے۔ لیکن افضل یہ ہے کہ مساجد میں منعقدکیجانے والی محا فل میں ایسانہ ہو تاکہ مشرکین کی اس صورت سے مشابھت نہ ہو جو قرب کیلئے مسجد میں ہوتی تھی ۔([1] )


ڈاکٹر عبداللہ فقیہ کی زیرنگرانی فتوی مرکز کا فتوی ہےکہ:

عورت کی آواز کے ستر ہونے میں اختلاف کی بنا پر اھل علم کے درمیان عورتوں کی مخصوص آوازیں نکالنے (سیٹیوں) کےبارے میںاختلاف ہے۔

مختار قول یہ ہے کہ عورت کی آوازستر نہیں ہے، اور اس بنیاد پریہ (مخصوص آوازیں نکالنا) جائزہیں،بشرطیکہ انکی وجہ سے، مردوںکے فتنے میںمبتلا ہونے، یا انکے سننے سے لذت کے حصول کا خوف نہ ہو([2]) ۔اللہ اعلم۔

ڈاکٹر انس ابو شادی


[1] فتاوی دار الافتاء مصریہ، موضوع (87)فضیلت شیخ عطیہ صقر مئی 1997۔

 [2] ڈاکٹر عبداللہ فقیہ کی زیرنگرانی فتوی مرکز؛فتوی نمبر47172 ،23صفر 1425۔