اسلامى ٹيليفون سروس كى بنياد عرب جمہوريہ مصر ميں 2000ء ميں ڈالى گئى، يہ اعتدال پر مبنى دينى خدمت ہے. |    
 
 
   
English عربى الاتصال بنا روابط اخرى فتاوى شائعة من نحن Q & A الرئيسية
 
   
سوال اور جواب --> يازدهم مرد وعورت كے درميان تعلقات ، شادى اور خاندان --> نابالغ لڑكى كى شادى كا حكم  

سوال : نابالغ (دوسال سےدس سال كى عمر كے) بچوں كى شادى كے بارے ميں سوال كيا گيا؟  

خلاصئہ فتوى: نابالغ بچوں كى شادى كرنا جائز ہے.

فتاوى اللجنۃ الدائمہ 18/123

تبصرہ:

اس زمانے ميں شادى كى عمر كا تعين ايک انتظامى عمل ہے اور مصلحت كيلئے قوانين اسكى تعيين كرتے ہيں تاكہ دونوں (بيوى اور شوهر)ازدواجى ذمہ دارياں اٹهانے كے قابل ہو جائيں.

بعض حكومتوں نے جو شادى كى عمر كى تعيين كى ہے اس ميں بہترى ہے بشرطيكہ عمركےتعين ميں تمام حالات كا خيال ركها جائے، اور جبتك مصلحت ہو اس وقت تك قوانين اور فيصلوں پر عملدرآمد ميں ولى الأمر كى اطاعت واجب ہے.

علمى رد:

 اسلام نے شادى كيلئے كوئى خاص عمر متعين نہيں كى بلكہ عمومى طور پر مكلف ہونے كى  ايک حد مقرر كى ہے اور وه ہے بالغ ہونا خواه يہ فطرى علامت سے ہو يا كہ 15 قمرى سال ہونے سے ہو ، فطرى علامت حالات بهى اثر انداز ہوتے ہيں مگر اسلام نے اس عمر كو نكاح كے صحيح ہونے كى بنياد(لازمى) قرار نہيں ديا بلكہ  اس عمر سے پہلے بهى سرپرستوں كے ذريعے اس (شادى) كى اجازت دى ہے.شادى عمر متعين نہ هونے كے باوجود بہتر يہ ہے كہ بلوغت كے اوائل سالوں ميں ہى جلد شادى كر دى جائے  جو كہ لڑكے اور لڑكى (دونوں) كيلئے صحيح وکت ہوتا ہے اور اسى ميں دونوں كى عصمت و حفاظت ہے. مگر يہ كہ بہت جلد شادى كر نے سے (دونوں) پر ايسى ذمہ دارياں سنبهالنا پڑتى ہيں جن ميں عقل وفہم كى ضرورت ہوتى ہے.

چنانچہ نكاح كے صحيح ہونے كيلئے قانى عمر شرط نہيں ہے ليكن يہ جو اكثر اسلامى ممالک ميں معينہ عمر سے پہلے كى شادى كى تصديق كى ممانعت كا قانون وضع كيا گيا ہے، يہ شادى كى اهميت كى زجہ سے ہے كيونكہ بلوغت كى عمر سے پہلے شوهر اور بيوى اس قابل نہيں ہوتے.

علاوه ازيں لڑكى ، لڑ كے كى نسبت سمجهدار اور بالغ ہوجاتى ہے تو مناسب يہ هے كہ شادى كيلئے لڑكے كى عمر 18 سال اور لڑكى كى عمر16 سال ہو.

جمہور علماء كے نزديک جب لڑكا اور لڑكى جنسى ميل جول كے قابل ہو جائيں تو ان كى شادى كرنا جائز ہے. اور انہوں نے نابالغ بچوں كے سرپرستوں كو انكى شادى كرانے كى بهى اجازت دى ہے ، اور اس حالت ميں(نابالغ)كى شادى اسكے سرپرست كى معرفت سے كرنا واجب ہے. جمہور علماء اس آيت كريمہ سے استدلال كيا ہے ارشاد بارى ہے: ﴿وَاللاَّئِي يَئِسْنَ مِنْ الْمَحِيضِ مِنْ نِسَائِكُمْ إِنْ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللاَّئِي لَمْ يَحِضْنَ (الطلاق4)، اور تمہارى عورتوں ميں سے جو حيض سے محروم ہو چكى ہوں اگر تمہيں شک ہو(كہ ان كى عدت كيا ہو گى) تو ان كى عدت تين مہينے ہے اور وه عورتيں جنہيں (ابهى) حيض نہيں آيا (كہ ان كى عدت بهى يہى ہے).

اسطرح  آيت كريمہ نے اس عورت كى عدت جسكو حيض نہيں آيا تين مہينے مقرر كى ہے.اورعدت طلاق اور فسخ نكاح كے بغير نہيں ہوسكتى اور اسكا تقاضا ہے كہ شادى ہو چكى ہے.

اس سے واضح ہوتاهے كہ اگر شوهر 18 سال اور بيوى 16 سال كى عمر كو نہ بهى پہنچى ہو مگر نكاح شرائط كے مطابق ہوتو صحيح ہے،يہ اس لئے كہ شادى كى كوئى معين عمر نہيں اس زمانے ميں شادى كى عمر كا تعين ايک انتظامى عمل ہے اور قوانين، مصلحت كيلئے اسكى تعيين كرتے ہيں تاكہ دونوں (بيوى اور شوهر)ازدواجى ذمہ دارياں اٹهانے كے قابل ہو جائيں.

بعض حكومتوں نے جو شادى كى عمر كى تعيين كى ہے اس ميں بہترى ہے بشرطيكہ عمركےتعين ميں تمام حالات كا خيال ركها جائے، اور جبتک مصلحت ہو اس وقت تک قوانين اور فيصلوں پر عملدرآمد ميں ولى الأمر كى اطاعت واجب ہے. چنانچہ الله تعالى فرماتا ہے: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنْكُمْ  (النساء 59)۔

اے ايمان والو: الله كى اطاعت كرو اور رسول- صلى الله عليه وسلم- كى اطاعت كو اور اپنے ميں سے(اہل حق) صاحبان امر كى،([1])

  

ڈاكٹر انس ابو شادى


[1] فتاوى دار افتاء المصريہ. موضوع( 1161) مفتى فضيلت شيخ جاد الحق على جاد الحق 18 ذوالحجہ 1400هــ 27 اكتوبر 1980ء. موضوع(40 ) مفتى فضيلت شيخ عطيہ صقر مئى 1997ء.