اسلامى ٹيليفون سروس كى بنياد عرب جمہوريہ مصر ميں 2000ء ميں ڈالى گئى، يہ اعتدال پر مبنى دينى خدمت ہے. |    
 
 
   
English عربى الاتصال بنا روابط اخرى فتاوى شائعة من نحن Q & A الرئيسية
 
   
سوال اور جواب --> باب دہم خريد وفروخت اورمعاملات --> ملکیت پر ختم ہونے والے کرایہ(ليزlease) کا حکم  

سوال : ملکیت پر ختم ہونے والے کرایہ(ليزlease) کےحکم کے بارے میں دریافت کیا گیا؟  

خلاصہ فتوی: جواب دیا گیا کہ جائز نہیں کیونکہ یہ ایک چیز  پر دو عقد ہیں اور دونوں میںسے ایک جاری نہیں رہتا اور دونوں حکم میں مختلف اور ایک دوسرے کے منافی ہیں۔

ھئیہ کبار العلماء ،مجلتہ الدعوہ العدد 22 محرم 1421

 تبصرہ:

کراۓ کہ سرمایہ کاری ایسا معاملہ ہے جو کہ مختلف معاملات جیسے وکالہ ،کرایہ خرید وفروخت کا وعدہ اور پھر بیچنے یا شراکت وغیرہ کا مجموعہ ہے ۔ اور یہ سارے معاملات جائز ہیں تو جو ان سے مرکب ہو گا اگر اس میں عقد صحیح ہونے کی تمام شرائط پوری ہیں تو یہ بھی انہی کی مانند جائز ہوگا۔

علمی رد: 

ملکیت پر ختم ہونے والا کرایہ(ليزlease) اور بیع دوعقدوں یا کراۓ دار کی سرمایہ کاری کے نسبت وکالت کے اعتبار سے یہ تین عقد کا مجموعہ ہے اس طرح کہ عقد کے آغاز میں جو سامان جو وہ خریدنا چاہتا ہے اسے خریدلے اور يہ مضاربت کی طرح شرعی عفود میں جائز ہے ،اور جمع کرانا ،وکالت شراکت اور کرایہ وغیرہ ہیں۔([1] )     

جب ہم نے کراۓ كى سرمایہ کاری كو ، جو کہ مختلف معاملات جیسے وکالہ ،کرایہ خرید وفروخت کا وعدہ اور پھر بیچنے یا شراکت وغیرہ کا مجموعہ شماركيا ہے ۔ اور یہ سارے معاملات جائز ہیں ، تو جو ان سے مرکب ہو گا اگر اس میں عقد صحیح ہونے کی تمام شرائط پوری ہیں تو یہ بھی انہی کی مانند جائز ہوگا۔

اور یہ مندرجہ ذیل  امور سے واضح ہوتا ہے۔

(1)        آلات پر بینک کے قبضے کے بعد سرمایہ کار کی طرف سے انہیں گاہک کو کراۓ پر دینے کا وعدہ کرنا شرعی طور پر جائز امر ہے۔

(2)         سرمایہ دارے کا گاہک کو اس کی ضرورت کے مخصوص اوصاف کے آلات و اشیاء اور ان جیسی چیزرں کی خریداری کےلۓ اپنے حساب سے قیمت کی ادائیگی پر اس غرض سے وکیل بنانا کہ ان اشیاء كے حصول کے بعد وہ اسی کو کراۓ پر دے ۔یہ شرعا جائز ہے۔

(3)         افضل یہ ہے کہ آلات اور اشیاء کی حقیقی ملکیت اور ان پر قبضے کے بعد کراۓ کا معاھدہ مکمل ہو اور یہ کہ وکا لت اور وعدے سے الگ مستقل معاہدہ ہو، لیکن عموما ایسا نہیں ہوتا کیونکہ سرمایہ کار کراۓ دار کے ساتھ سامان خریدنے سے پہلے ہی معاہدہ طے کر لیتا ہے۔     

اور اس طرح وہ چیز کی ملکیت کے بغیر کراۓ پر دیتا ہے (وہ چیز کراۓ پر دیتا  ہےجسکا وہ مالک نہیں) اور یہ ممنوع نہیں ہے کیونکہ  حکيم بن حزام کے بارے میں حدیث میں ممانعت کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ﴿إِذَا ابْتَعْتَ بَيْعًا فَلاَ تَبِعْهُ حَتَّى تَسْتَوْفِيَهُ ([2] ترجمہ: اگر تم کسی چیز کو بیچو تو اسکے مکمل وصول کرنے تک اسے نہ بیچو۔

یہ حدیث مبارکہ قبضے سے پہلے بیچنے کے بارے میں ہے اور کراۓ پر دینے کا مفہوم نہیں کیونکہ کراۓ دار پر کرائےدار پر لی جانے والی چیز کے وصول کرنے اور اس سے فائدہ اٹھاۓ بغیر کرایہ دینا لازم نہیں ہوتا، کرایہ منفعت کی ملکيت ہے نہ کہ عین کی ملکيت تو اس سے وہ دھوکا جسکی وجہ سے قبضے سے پہلے خریدنے یا بیچنے کی ممانعت ہے ختم ہوگئی۔([3] )

(4)  کراۓ کی مدت ختم ہونے پر ان آلات کو بیچنے کا وعدہ يا ان کو ھبہ کرنا ،یا ان میں شراکت وغیرہ، ايک الگ معاھدے کی صورت میں جائز ہے ۔

(5)  شرعی طور پر اصل یہ ہے کہ کراۓ كے آلات و اشیاءکی ضمانت مالک پر ہے نہ کہ کراۓ دار پر اور اگر اس نے اس کے خلاف شرط رکھی تو اس شرط کا اعتبار نہیں ہوتا کیونکہ کرایہ دار تو فقط امین ہوتا ہے۔ اس لۓ آلات اور اشیاء کی ملکيت کی وجہ سے انکے عیب دار اور ضائع ہونے کی ذمہ دارى سرمایہ کار پر ہوتی ہے بشرطیکہ وہ کراۓ دار کی کوتاہی اور زیادتی کی وجہ سے نہ ہوئی ہو (اگر ایسا ہو) تو پهر کرائے دار کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اور کراۓ کی سرمایہ کاری میں بھی عموما ايسا نہیں ہوتا بلکہ سرمایہ کار کراۓ دار پر اسکی ضمانت کی شرط  عائد کرتا ہے۔

 اور مذہب حنبلی میں امام احمد کے بارے میں ایک روایت ہے کہ ان سے اس کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا  مؤمنين اپنی شروط پر (ہوتے) ہیں۔ اور یہ قول دلالت کرتا ہے کہ اگر معاھدے کے وفت یہ شرط رکھی تو ضمانت نہیں رکھی ہے ۔اللہ اعلم

(6)  کراۓ پر لۓ آلات کی حفاظت انکا اچھا استعمال ،انکی دیکھ بھال ،کام کرنے کی شرائط کا خیال اور مالک کی اجازت کے بغیر ان کی ھیئت تبدیل نہ کرنا۔اور اسی طرح دوسری چیزیں یہ سب کچھـ فقہ اسلامی میں کراۓ کے  احکام کے مطابق ہے۔اللہ اعلم۔

ڈاکٹر انس ابو شادی


[1]   تبیین الحقائق شرح کنزالدقائق از زیلعی بحاشیہ الشلبی 5/53۔

 [2] سنن الدارقطني 2859.

[3]   ابن حزم نے المحلی میں کہا :جس نے ایسی چیز بیچی جسکا بیچنا حلال ہے سواۓ گندم کے ،تو اسکے لۓ جائز نہیں کہ وہ اس پر فبضے

        سے پہلے  اسے بیچے۔