اسلامى ٹيليفون سروس كى بنياد عرب جمہوريہ مصر ميں 2000ء ميں ڈالى گئى، يہ اعتدال پر مبنى دينى خدمت ہے. |    
 
 
   
English عربى الاتصال بنا روابط اخرى فتاوى شائعة من نحن Q & A الرئيسية
 
   
سوال اور جواب --> باب دہم خريد وفروخت اورمعاملات --> انشورنس کمپنیوں میں کام کرنے کا حکم  

سوال : بیمہ يا انشورنس کمپنیوں میں کام کرنےکے بارے میں دریافت کیا گیا؟  

خلاصہ فتوی: جواب دیا گیا کہ انشورنس کے ممنوع ہونےکی وجہ سے نا جائز ہے ۔کیونکہ یہ گناہ  اور ظلم  میں تعاون ہے۔

  فتاوی اللجنہ الدائمہ 15 /8

تبصرہ:

تجارتی انشورنس  کمپنیوں میں کام کرنےکا حکم شرعی حکم کے تابع ہے ۔ چنانچہ نا جائز کہنے والوں کے نز دیک ان میں کام کرنا جائز نہیں ،اور ہم نے اسکی اجازت دی ہے جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہےكہ ( ان کمپنیوں میں ) کام کرنا جائز ہے۔

علمی رد:   

فقہاء اس  پر متفق ہیں کہ اسلامی یا تعاونی انشورنس کمپنیوں میں کام کرنا جائز  ہے جبکہ تجارتی انشورنس کمپنیوں میں کام کرنے کے سلسلے میں شرعی حکم کی پیروی کی جاۓ۔

جمہور علماء کی راۓ ہے کہ ان میں دھوکہ ،فراڈ اور نقصان کی وجہ سے کام کرنا جائز نہیں کیونکہ اس میں  گناہ اور ظلم میں معاونت ہے اور اللہ تعالی نے قرآن میں اس سے منع فرمایا ہے چنانچہ جو شخص اس راۓ کی پیروی کرتا ہے اس کے لۓ ان کمپنیوں میں کام کرنا جائز  نہیں ۔

اور جواز کے قائل علماء کی راۓ کی پیروی کرنے والے كيلئے ان کمپنیو ںمیں کام کرنا جائز ہے ۔ بہر حال اس معاملے میں شبہ ہے جوکہ حرام تو نہیں  لیکن حرام کی چراہ گاہ ضرور ہے جیسے کہ امام بخاری اور مسلم کی روایت کردہ حدیث مبارکہ کی نص ہے: "الْحَلَالُ بَيِّنٌ وَالْحَرَامُ بَيِّنٌ وَبَيْنَهُمَا ‏مُتَشَابِهَاتٌ ‏ ‏لَا يَعْلَمُهَا كَثِيرٌ مِنْ النَّاسِ فَمَنْ اتَّقَى ‏الشُّبُهَاتِ ‏اسْتَبْرَأَ لِعِرْضِهِ وَدِينِهِ وَمَنْ وَقَعَ فِي الشُّبُهَاتِ ‏‏وَقَعَ فِي الْحَرَامِ كَالرَّاعِي يَرْعَى حَوْلَ الْحِمَى فَيُوشِكُ أَنْ يُوَاقِعَهُ"، ترجمہ: "حلال (امور) واضح اور حرام (امور) بھی  واضح ہیں ان دونوں کے درمیان کچھـ مشتبہ امور ہیں انہین اکثرلوگ نہیں جانتے ۔پس جو شبھات سے بچ گیا تو اس نے اپنا دین اور عزت بچالی اور جو شبھات میں پڑ گیا تو وہ حرام میں پڑ گیا حیسے (کوئی) چرواہا کسی ممنوع چراہگاہ  کے گرد بکریا ں چراتا ہے تو قریب ہے کہ وہ اس میں داخل ہو جاۓ"۔

اگر مومن چاہے کہ وہ مکمل طور پر یا كچهـ مطئن ہو تو اسے چاہۓ کہ وہ ایسا عمل تلاش کرے  جس میں زيادة یا واضح طور پر شبہ نہ ہو خواہ کمائی یا اجر تھوڑا ہی ہو جو کہ زیب وزینت کے علاوہ ضرورتوں كيلئے كافى ہو  اور اگر حلال روزگار میسر نہ ہو تو حرام اور شبہ سے خالی بہتر عمل کی تلاش کے ساتھـ وقتی طور پر ضرورتا اس میدان میں کام جائز ہے ۔اور اگر نیت سچی ہوئی تو اللہ تعالی وہ کام آسان کر دیگا ۔جیسا کہ ارشاد باری ہے:  ﴿وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا (2) وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ (الطلاق3،2)، ترجمہ: اور جو اللہ سے ڈرتا ے وہ اس کے لۓ (دنیا و آخرت کے رنج وغم سے)  نکلنے کی راہ پیدا کر دیتاہے اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرماتا ہے جہا ں سے اسکا گمان بھی نہیں ہوتا۔

ایک اور مقام پر فرمایا: ﴿وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مِنْ أَمْرِهِ يُسْرًا (الطلاق  4)، ترجمہ: اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے تو وہ اس کے کام میں آسانی فرمادیتا ہے۔([1])

ڈاکٹر انس ابو شادی


[1] فتاوي دارالافتاء المصریہہ موضوع 8 مفتي فضيلت شيخ عطيہ صقر مئي 1997۔