اسلامى ٹيليفون سروس كى بنياد عرب جمہوريہ مصر ميں 2000ء ميں ڈالى گئى، يہ اعتدال پر مبنى دينى خدمت ہے. |    
 
 
   
English عربى الاتصال بنا روابط اخرى فتاوى شائعة من نحن Q & A الرئيسية
 
   
سوال اور جواب --> باب دہم خريد وفروخت اورمعاملات --> بینکوں کے فوائد سے نفغ اٹھا نے کا حکم  

سوال : بینکوں کے فوائد سے نفغ اٹھا نے کے حکم کے بارے میں سوال کیا گیا؟  

خلا صہ فتوی: جواب دیا گیا کہ(بينک كے) اس فائدہ کےحرام ہونے کی وجہ سے جائزنہیں کیونکہ یہ واضح  سود ہے اور یہ کہ بینکو ںسے تعامل کے حرام ہو نے کی وجہ سے بھی نا جائزہے۔

شیخ ابن عثیمین ۔ مجموع دروس فتاوی الحرم المکی 3/386-390

تبصرہ:

بینکوں میں رکھے گۓ  اموال پر فوائد حاصل كرنا جائز ہوتا ہے لیکن ان فوائد سے نفع نہ اٹھایا جاۓ اور  انہیں عام مسلمانوں کے لۓ مفید منصوبوں پر خرچ کیا جاۓ۔

علمی رد:

اسلام نے سود اور طویل مدت یا تاخیر سے ادائیگی کے عوض مقررہ پیشگی فوائد پر  قرض کی اہم اقسام کو حرام قرار دیا ہے۔

اور یہ حرمت قرآن کریم ،حدیث نبوی کی قطعی نصوص اور ائمہ کرام کے اجماع سے ثابت ہے ۔ ارشاد باری ہے: ﴿الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لاَ يَقُومُونَ إِلاَّ كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُواْ إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا وَأَحَلَّ اللّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا فَمَن جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّهِ فَانتَهَى فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللّهِ وَمَنْ عَادَ فَأُوْلَـئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ( 275)يَمْحَقُ اللّهُ الْرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ وَاللّهُ لاَ يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ (البقرہ 275/276)، ترجمہ: "جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ روز قیامت کھڑ ے نہیں ہو سکیں گے مگر جسے وہ شخص کھڑا ہوتاہے جسے شیطان نے چھوکر بد حواس کردیا ہو ،یہ اس لۓ کہ وہ کہتے تھے کہ تجارت (خریدو فروخت) بھی سود کی مانند ہے ،حالانکہ اللہنے تجارت کو حلال فرمایا اور سود کو حرام کیا ہے ،پس جس کے پاس اس کے رب کی جانب سے نصیحت پہنچی سو وہ سود سے باز آگیا تو پہل ےگزر چکا  وہ اسی کا ہے اور اسکا معاملہ اللہ کے سپرد ہے ،اور جس نے پھر بھی لیا سو ایسے لوگ جہنمی ہیں ،وہ ہمیشہاس میں رہینگے ،او راللہ سود کو مٹاتا ہے (یعنی سودی مال سے برکت ختم کرتا ہے) اور صدقات کو بڑ ھاتاہے (یعنی صدقہ کے ذریعے مال کو زیادہ کرتاہے )اور اللہ کسی بھی نافرمان کو پسند نہیں کرتا "۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "الذهب بالذهب يدا بيد والفضل ربا" ہاتھوں ہاتھ سونے کے بدلے (برابر ) سونا (قرض) لینا اور دینا اور اضافہ سود ہے۔

ان شرعی نصوص وغیرہ سے ثابت ہوتا ہے کہ سود حرام ہے اور وہ مبلغ جو بینکوں اور ڈاکخانوں میں رکھی جا تی ہے اگر اس پر مقررہ کردہ پیشگی فوائد ہو ں جنہیں قانون قرضوں کے فوائد قرار دیتا ہے تو یہ مذکورہ  نصوص اور مسلمانوں کے اجماع کی وجہ سے اسلا م میں حرام سود کی اقسام ہوتی ہیں۔

حرام کمائی ہونے کی وجہ سے ان بینکوں کے فوائد سے استفادہ کرنا مسلمان کے لۓ جائز نہیں اور اسے چاہۓ وہ انہیں لیکر کسی بھی نیکی کے کام میں لگا دے۔([1])

جیسے مساجد ،یا ہسپتالوں کی تعمیر یا انہيں کسی فقیر یا مسکین کو دےدے ،جیسا کہ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ميں حرام مال کو خرچ کرنے کا اشارہ ہے تاکہ مسلمان اللہ تعا لی کے سامنے بری الذمہ ہو۔([2]) اللہ اعلم۔

ڈاکٹر انس ابو شادی


[1] دیکھۓ امام غزالی کی کتاب احیاء علوم الدین 882 ،883 مسلسل 92 ،93 زیر عنوان الحلال والحرام النطر الثانی فیا ا لصرف۔

 [2] تاوي دارالافتاء المصريہ موضوع (126) فضیلت شیخ جادالحق علی جاد الحق 5 محرم 1402 ھ ،2 نومبر (981 1)۔