اسلامى ٹيليفون سروس كى بنياد عرب جمہوريہ مصر ميں 2000ء ميں ڈالى گئى، يہ اعتدال پر مبنى دينى خدمت ہے. |    
 
 
   
English عربى الاتصال بنا روابط اخرى فتاوى شائعة من نحن Q & A الرئيسية
 
   
سوال اور جواب --> باب دہم خريد وفروخت اورمعاملات --> بینکوں کے معاملات کا حکم  

سوال : بینکوں کے ساتھـ معاملات کرنے کے بارے میں دریافت کیاگیا؟  

خلاصہ فتوی: جواب دیا گیا کہ جائز نہیں کیونکہ انکی بنیاد سود پر ہے اور یہ لین دین میں اسى( سود) پر ہی معاملات کرتے ہیں اور ان میں فوائد کے بغير اموال رکھنا بھی جائز نہیں ہے کیونکہ یہ ظلم اور گناہ  میں تعاون ہے۔

الشیخ ابن باز مجموع فتاوی و مقالات 19/137

تبصرہ :

(1) اسلام نے نقد میں سود کے اضافے اور مدت کی شرط پر سود، دونوں قسموں(كےسود) کو حرام قرار دیا ہے۔ اور یہ حرمت قرآن کریم ، حدیث نبوی کی قطعی نصوص او رائمہ کے اجماع سے ثابت ہے۔

(2) بیکنو ں کے فوائد بھی حرام سود میں سے ہیں ليكن بینکوں میں فوائد کے بغیر حفاظت کے لۓ اموال جمع کرنا جائز ہے کیونکہ تعین کرنے سے انکا تعین (ممكن) نہیں ہو تا اور سودی اموال ميں انكے اختلاط (كے خوف)سےانكا جمع کرانا حرام نہیں ہوتا۔

علمی رد:

اسلام نے سود اور مدت یا تاخیر سے ادائیگی کے عوض مخصوص پیشگی فوائد پر قرض کی اہم انواع کو حرام قراردیا ہے۔

اور اس کا حرام ہونا قرآن کریم ، حدیث نبوی كى قطعی نصوص او رائمہ کے اجماع سے ثابت ہے ۔ ارشاد باری ہے: ﴿الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لاَ يَقُومُونَ إِلاَّ كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُواْ إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا وَأَحَلَّ اللّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا فَمَن جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّهِ فَانتَهَى فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللّهِ وَمَنْ عَادَ فَأُوْلَـئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ(1275) يَمْحَقُ اللّهُ الْرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ وَاللّهُ لاَ يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ (البقرہ 275/276)، ترجمہ: "جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ روز قیامت کھڑ ے نہیں ہو سکیں گے مگر جسے وہ شخص کھڑا ہوتاہے جسے شیطان نے چھوکر بد حواس کردیا ہو ،یہ اس لۓ کہ وہ کہتے تھے کہ تجارت (خریدو فروخت) بھی سود کی مانند ہے ،حالانکہ اللہنے تجارت کو حلال فرمایا اور سود کو حرام کیا ہے ،پس جس کے پاس اس کے رب کی جانب سے نصیحت پہنچی سو وہ سود سے باز آگیا تو پہل ےگزر چکا  وہ اسی کا ہے اور اسکا معاملہ اللہ کے سپرد ہے ،اور جس نے پھر بھی لیا سو ایسے لوگ جہنمی ہیں ،وہ ہمیشہاس میں رہینگے ،او راللہ سود کو مٹاتا ہے (یعنی سودی مال سے برکت ختم کرتا ہے) اور صدقات کو بڑ ھاتاہے (یعنی صدقہ کے ذریعے مال کو زیادہ کرتاہے )اور اللہ کسی بھی نافرمان کو پسند نہیں کرتا"۔

حضور -صلی اللہ علیہ وسلم-نے فرمایا: "الذهب بالذهب يدا بيد والفضل ربا" ہاتھوں ہاتھ سونے کے بدلے (برابر ) سونا (قرض) لینا اور دینا اور اضافہ سود ہے۔

ان شرعی نصوص وغیرہ سے ثابت ہوتا ہے کہ سود حرام ہے اور وہ مبلغ جو بینکوں اور ڈاکخانوں میں رکھی جا تی ہے اگر اس پر مقررہ کردہ پیشگی فوائد ہو ں جنہیں قانون قرضوں کے فوائد قرار دیتا ہے تو یہ مذکورہ  نصوص اور مسلمانوں کے اجماع کی وجہ سے اسلا م میں حرام سود کی اقسام ہوتی ہیں۔

جبکہ فوائد کے بغیر حفاظت کے لۓ نقد اموال جمع کرانا جائز ہے کیونکہ تعین کرنے سے انکا تعین (ممكن) نہیں ہو تا اور سودی اموال ميں انكے اختلاط (كے خوف)سےانكا جمع کرانا حرام نہیں ہوتا ۔ اور اگرایسا ہوتا ہےتو مسلمانوں میں سے صاحبان ثروت پر لازم ہے کہ وہ اپنےاموال کی ایسی سرمایہ کاری کريں جس سے حرام نہ آۓ ،کیو نکہ اللہ سبحانہ وتعالی ہر انسان سے اسکے مال کے بارے میں پوچھے گا کہ تم نے اسے کیسے کمایا اور کیسے خرچ کیا ۔جیسا کہ حدیث مبارکہ میں آیا ہے۔

خاص طور پر اگر یہ بینک اموال کی سرمایہ کاری اور تعامل کرتے اور اسلام کے تقاضوں کے مطابق انکی زکاۃ بھی نکالتے ہیں (تو ان میں سرمایہ کاری جائز ہے)۔

اور یہ وہ راۓ ہے جس پر ازہر شریف کے جمہور معاصر علماء اور انکے علاوہ علماء بھی ہیںا ور صحیح شرعی نصوص اسی کی تائید کرتی ہے۔([1])     

اور بعض کے نزدیک یہ( بينک كے) فوائد حلال ہیں۔([2] )     

اور اسکی تائید صرف شافعیہ کا قول کرتاہے کہ مروجہ نقد پیسوں میں سود کا اطلاق نہیں ہوتا ( جیسے ورق کے نوٹ)  اور جو،اب شافعیہ نے کہا ہے یہ انکے پرانے قول کے خلاف ہے ورق کے پیسے تمام زمانو ں اور مکانوں میں عام قیمت بن چکے ہیں جسکی وجہ سے انہیں سونے اور چاندی سے ملانا واجب ہے۔ اللہ اعلم۔

ڈاکٹر انس ابو شادی    


[1] فتاوی دارالافتاء المصریہ موضوع (615) (618) مفتی شیخ عبدالمجید سلیم 27 شعبان 1342 ھ27 جنوری 1930ء16 جمادی الاول 1362ھ 20 مئی 1943 الموضوع (950)مفتی فضیلت شیخ حسن مامون ذوالقعدہ 1379 ھ24 مئی 1960۔

موضوع (744 ) مفتی فضیلت شیخ احمد ھریدی 2جولائی 1969 موضوع (1255) (1258) مفتی فضیلت شیخ جادالحق 4ربیع الاول 1400 ھ 22 جنوری 1980  ،7 ربیع الاول 1401 ھ13 جنوری 1981 موضوع 4 ،مفتی فضیلت شیخ ،طیہ صقر مئی1997۔

 [2] فضیلت شیخ محمد سید طنطاوی شیخ ازھر ،فضیلت شیخ الدکتور علی جمعہ مفتی دیار مصر اور سابق مفتی فضیلت الدکتور نصر فرید واصل۔