اسلامى ٹيليفون سروس كى بنياد عرب جمہوريہ مصر ميں 2000ء ميں ڈالى گئى، يہ اعتدال پر مبنى دينى خدمت ہے. |    
 
 
   
English عربى الاتصال بنا روابط اخرى فتاوى شائعة من نحن Q & A الرئيسية
 
   
سوال اور جواب --> باب دہم خريد وفروخت اورمعاملات --> كيميكل کی خرید وفروخت کا حکم  

سوال : كيميكل کی خرید وفروخت کے بارے میںحكم دریافت کیا گیا؟  

خلاصہ فتوی: جواب دیا گیا کہ یہ نا جائز ہے کیونکہ نشہ آور اور نجس ہے۔

فتاوى اللجنۃ الدائمہ 13/53

تبصرہ:

فقہاء احناف او رظاہریہ ہر نجس شئے جس میں فائدہ ہو اسکی خرید وفروخت اور تجارت کو حرمت  سے مستثنی كرتے ہيں اس رائے كے مطابق كيميكلز کی خرید وفروخت جائز ہے۔

علمی رد:

حضرت  جابر بن عبداللہ -رضى اللہ عنہ- سے روایت ہے کہ رسول اکرم -صلی اللہ علیہ وسلم- نے فرمایا: "إن اللّه حرَّم بيع الخمر والميتة والخنزير والأصنام"، اسے راویوں کی ایک جماعت نے روایت کیا، اللہ تعالی نے شراب ،مردار خنزیر اور بتوں کی  خرید وفروخت کو حرام کیا ہے۔

عرض کی گئی کہ یا رسول اللہ - -صلی اللہ علیہ وسلم-مردار کی چربی کے بارے میں آپ - صلی اللہ علیہ وسلم-کیا فرماتے ہیں ا سے جہازوں پر لگایا جاتاہے اور اسے کھالوں پر لگایا جاتا ہے اور لوگ اس سے چراغ جلاتے ہیں تو آپ - صلی اللہ وسلم- نے فرمایا: "لا، هو حرام"، "نہیں یہ حرام ہے۔

امام بيہقی رحمہ اللہ عنہ نے صحیح سند کے ساتھ روایت کی ہےکہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے اس تیل کے بارے  میں دریافت کیا گیا جس میں چوہا گر گیا ہو تو آپ نےفرمایا: اس سے چراغ جلاؤ اور جسم پر لگاؤ۔([1])

اور نبی کریم -صلی اللہ علیہ وسلم-   قبيلہ میمونہ کی بکری کے پاس سے گزرے چنانچہ آپ -صلی اللہ علیہ وسلم- نے اسے مردہ پڑے ہوۓ پایا تو -صلی اللہ علیہ وسلم-نے فرمایا: "هلاَّ أخذتم إهابها فدبغتموه وانتفعتم به"، تم اس کی کھال کیو ں نہیں لیتے ہو اور اسے دباغت کے بعد اس سے فائدہ حاصل کرو  تو انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ -صلی اللہ علیہ وسلم- یہ مردہ ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم- نے فرمایا: "إنما حرَّم أكلها"،  فقط اس کا کھا نا حرام ہے (دوسرے فوائد حاصل کرسكتے ہو) ۔ اسے ابن ماجہ کے علاوہ ایک جماعت نے روایت کیا۔

جمہور علماء کے نزدیک نجس چیز کی خرید وفروخت یا تجارت حرام ہے ۔اور اس پر عقد (بیع) باطل ہے اسکی دلیل پہلی حدیث مبارکہ ہے جو کہ اس کے حرام ہو نے  کی صراحت کرتی ہے۔

دوسری حدیث اورحضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے قول کی روشنی میں کھانے کے علاوہ ناپاک چیز کا استعمال جائز ہے۔

فقہاء حنفیہ کے نزدیک ہر نجس چیز جس میں نفع ہو اسکی خرید وفروخت اور تجارت جائز ہے اور فقہاء ظاہر یہ نے انکی پیروی کی اور انہوں نے کہا جانوروں کا گوبر اور ناپاک کوڑا کھاد  اور ایندھدن کے طور پر استعمال ہوتا ہے اسکی بیع بھی جائز ہے اسی طرح ناپاک تیل اور ناپاک رنگو ںسے کھانے کے علاوہ استفادہ کرنا جائز ہے۔([2])

اس میں انکی دلیل یہ ہے جب تک فائدہ حاصل کرنا جائز ہے تو اس مقصد کے لۓ (کھانےکے علاوہ) اسکی خرید فروخت بھی جائز ہے ۔ اور انہوں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث کے بارےمیں جواب دیا ہے كہ خرید وفروخت کی ممانعت اوائل اسلام میں تھی جب مسلمان اسے کھانا جائز سمجھتے تھے تو جب اسلام انکے دلو ں  میں راسخ ہو گیا تو کھانے کے سوا انکے نفع کو حلال قرار دیا۔([3])

ڈاکٹر أنس أبو شادى


[1] سنس البہقی 20116۔

 [2] صحیح البخاری 2221 صحیح مسلم 832

 [3] فتاوی دارالافتاء المصریہ مفتی فضیلت شیخ عطیہ صقر مئی 997 ۔