اسلامى ٹيليفون سروس كى بنياد عرب جمہوريہ مصر ميں 2000ء ميں ڈالى گئى، يہ اعتدال پر مبنى دينى خدمت ہے. |    
 
 
   
English عربى الاتصال بنا روابط اخرى فتاوى شائعة من نحن Q & A الرئيسية
 
   
سوال اور جواب --> باب دہم خريد وفروخت اورمعاملات --> تجارتی دکانون کے انعامات کا حکم  

سوال : سامان کو رواج دینے کے لے تجارتی دکانون کی جانب سے پیش کے جانے والے انعامات کے بارے میں حکم دريافت کیا گيا؟  

خلاصہ فتوی: جائز نہیں کیونکہ شرعی طور پر ممنوع ہے۔

الشيخ ابن باز مجموعھ فتاوے اور مقالات19/398

تبصرہ:

وہ انعامات جو سامان خریدنے والے کو دئے جاتے ہيں یہ بیچنے والے کے طرف سے خریدنے والے کے لے ھبہ ہے اور شرعی ممانعت نہ ہو نے کی وجہ سے اصل میں حلال ہے اورت یہ ایسے ہی ہے جیسے قیمت مین کمی اور رعایت ہے۔

علمی رد:

تجارتی دکانون کے انعامات جو کہ خریدنے والے کو مختلف سامان خریدنے پر دئيے جاتے ہین، کبھی یہ سامان کے ساتھـ مربوط یا ڈبوں کے اندر بند یا فروخت شدہ اشیاء کی مقدار مین اضٓافہ ہوتا ہے. ان انعامات مین کوئی حرج نہیں کیونکہ یہ فروخت کرنے والون کے طرف سے عطیہ ہوتا ہے اور انعامات کے وعدہ کے زمرے مین آتے ہیں،  جسے فقہاء نے جائز قرار دیا  اور شرعی ممانعت نہ ہو نے کی وجہ سے اصل مین حلال ہے اور یہ قیمت مین رعایت یا کمی کی طرح ہے،اور اس تحفہ مین کسی قسم کا دھوکا نہیں ہے۔

وہ کمپنیان جو اپنی مصنوعات كى مشہورى انہيں رواج دینے کے لئے اس طریقے پر عمل کرتی ہین  یہ جوا نہیں اور نہ اس ميں جوے کا مفہوم ہے بلکہ انکی مصنوعات خریدنے والون کے لے عین چیز یا نقد مال کے تحفون کی مختلف انواع ہین اور انہيں انكى مصنوعات خريدنے پر آمادہ كرنے كے مختلف اسلوب اور طريقے ہيں اور اسطرح بڑے پيمانے پر ان اشياء كى مقبوليت اور دائرہ وسيع ہونے سے منافع زيادہ ہوتا ہے۔

يہ ممنوعہ لاٹرى سے مختلف ہے جس ميں بعض ادارے يا سوسائٹياں مخصوص نمبروں والے (اوراق) پرائز بانڈ چهاپ كر عام لوگوں كو معين قيمت پرفروخت كرتى ہيں اور معين اوراق كيلئے رقم مختص كرتى ہيںتو يہ لاٹرى حرام اور شرعا ناجائز ہے كيونكہ يہ جوا ہے اور اسطرح  يہ بغير عوض اور ناجائز ذريعے سےدوسروں كا مال حاصل كرنا ہے. جہاں تک اشياء خريدنے كے انعامات كا تعلق ہے تووہ تحفے ہيں خريدار انكى كوئى قيمت ادا نہيں كرتا بلکہ وہ صرف اس سامان کی قیمت ادا کرتا ہے جو وہ خریدتا ہے ،اور اگر اسے تحفہ ملے تو وہ  اسے کمپنی کی مصنوعات خریدنے پر حوصلہ افزائی کے طور پر بغیر عوض کے حاصل کرتا ہے ۔([1]) اللہ اعلم۔  

                                                                                                                                                                                          

اور شیخ ابن عثمین رحمہ اللہ نے کہا آجکل کمپنیاں خریداروں کے لۓ انعامات مقرر کرتی ہيں ان ميں کوئی حرج تو نہیں مگر ہم کہتے ہیں کہ دو شر طوں کا ہونا ضروری ہے۔

پہلی شرط: یہ كہ سامان کی قیمت حقیقی ہو یعنی (کمپنی ) انعام کی وجہ سے قیمت میں اضافہ نہ کرے کیونکہ انعام کی وجہ سے قیمت میں ا"ضافہ کرنا جوا  ہے اور وہ جائز نہیں۔

دوسری شرط:  یہ کہ انسان انعام کے حصول کے لۓ سامان نہ خریدے اگر اس نے انعام کی غرض سے بغیر ضرورت سامان خریدا تو یہ مال کا ضیاع ہوگا۔([2])

ہم نے سنا ہے کہ  بعض لوگ بغیر ضرورت کے دودھ يا دھی کا ڈبہ بغیر ضرورت خریدتے ہیں کہ شاید اس سےانعام مل جاۓ تو آپ اسے دیکھتے ہیں کہ وہ اسے خریدتا ہے اور اسے بازار یا گھر کے کسی کونے میں بہا دیتا ہے ۔ اور یہ جائز نہیں کیونکہ اس میں مال کا ضیاع ہے اور مال ضائع کرنے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔([3]) اللہ اعلم۔     

ڈاکٹر أنس أبو شادى


[1] فتاوی دارالافتاء المصریہ موضوع ( 10 68) مفتی فضیلت شیخ احمد ھریدی 11 نومبر 1968۔

 [2] صحیح بخاری میں (1477) میں مغیرہ بن شعبہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایہ اللہ تعا لی نے تمہارے لۓ تین چیز وں کو ناپسند فرمایا ہے فضول گوئی ،مال کا ضائع کرنا او رکثرت سوال۔

 [3] اسلامی فتاوی ،سوال جواب ۔زیر نگرانی شیخ محمد صالح النحد حرا/ 166 ۔سوال 12583۔ مسئلہ باب 1 فتوی (162)۔