اسلامى ٹيليفون سروس كى بنياد عرب جمہوريہ مصر ميں 2000ء ميں ڈالى گئى، يہ اعتدال پر مبنى دينى خدمت ہے. |    
 
 
   
English عربى الاتصال بنا روابط اخرى فتاوى شائعة من نحن Q & A الرئيسية
 
   
سوال اور جواب --> باب نہـم حج --> محرم کے بغیر عورت کے حج کا حکم  

سوال : محرم کے بغیر کسی عورت کے لۓ حج اور عمرے کے سفر کے حکم کے بارے میں دریافت کیا گیا؟  

خلاصہ فتوی : محرم کی عدم موجودگی میں عورت پر حج فرض نہیں ہے۔

                                            الشیخ ابن عثیمین مجموع فتاوی ورسائل 2/590

تبصرہ :

اس حکم کا دارو مدار اس پر ہے کہ عورت کو امن وامان اور آرام میسر ہو اگر کسی صورت میں بھی اسے یہ حاصل ہو جاۓ جیسے محرم يا پرامن  ساتھـ یا سرکاری ذ مہ دار  کی نگرانی یا اسی قسم کا کوئی اور ذریعہ ہو تو اس کے لۓ حج اور سفر کر نا جائز  ہے۔

علمی رد:

امام بخاری اور مسلم رحمہمااللہ نے روایت کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "‏لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ تُسَافِرَ سَفَرًا فَوْقَ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ فَصَاعِدًا إِلَّا وَمَعَهَا أَبُوهَا أَوْ أَخُوهَا أَوْ زَوْجُهَا أَوْ ابْنُهَا أَوْ ‏ ‏ ذُو مَحْرَمٍ مِنْهَا"، ترجمہ: اللہ تعا لی اور یوم آخرت پر ایمان رکھنےوالى عورت کے لۓ جائز نہیں کہ وہ اپنے باپ یا  اپنے بھائی یا اپنے شوہر یا  اپنے بیٹے یا کسی محرم کے بغیر تین دن یا اس سے زیادہ سفر کرے۔

انہوں نے یہ بھی روایت کی ہے کہ ایک آدمی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ وہ غزوے میں شریک ہے اور اسکی بیوی حج کے لۓ چلی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ےفریایا "حج مع امرأتك"، اپنی بیوی کے ساتھ حج کرو۔

ان دونوں اور دیگر نصوص کی روشنی میں عورت کے لۓ حج فرض ہونے کی محرم کی شرط کے بارے میں علماء کے درمیان اختلاف ہے۔

احناف کے نز دیک شوہر یا محرم کا ہونا انتہائی ضروری ہے۔

اور امام شافعی رحمۃ اللہ نے فرمایا کی شرط نہیں بلکہ اسکی حفاظت شرط ہے ۔اور آپکے ساتھیوں نے کہا کہ شوہر یا محرم یا قابل اعتماد عورتوں کے ساتھ ہونے سے تحفظ حاصل ہو جاتا ہے ۔اور بعض کا خیال ہے کہ اگر عورت بھی ساتھ ہو تو اس پر حج فرض ہو جاتا ہے ۔ اور کبھی اتنا امن اور حفاظت ہوتی ہے کہ کسی کی ضرورت نہیں ہو تی بلکہ وہ خود قافلے کے ساتھ  اکیلی ہی محفوظ ہو تی ہے۔

اور مالکیوں کے نزدیک اگر امن یقینی ہو تو عموما سفر کے لۓ محرم کی شرط نہیں، او رامام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ کے نز دیک عورت پر حج فرض ہو نے کے لۓ شوہر  اور محرم کا ہونا شرط ہے۔

اورانہی سے ایک روایت  میں ہے کہ فریضئہ حج کے لۓ یہ شرط نہیں۔

ابن حزم نے اپنی کتاب المحلی میں اسکو ترجیح دی کہ سفر حج میں شوہر اور محرم کی موجودگی واجب نہیں ہے۔اور اگر ان دونوں میں سے کوئی بھی اسے نہ ملے تو وہ حج کرلے اس پر کو ئی گناہ نہیں ۔

اور جنہوں نے شوہر اور محرم کی موجودگی کی شرط رکھی وہ صرف  عورت کو انکے بغیر سفر کرنے کی وجہ سے گناہ اور حرج کو ختم کرنے کے لۓ ہے۔   لیکن اگر وہ انکے بغیر حج کے لۓ گئی تو اگر(حج )كے ارکان اور شروط پورى ہوں تو اسكل حج صحيح ہے اور اس سے فرض ساقط ہو جاتا ہے اور محرم کے ساتھ اسے لوٹا نا ضروری نہیں ہے   اگر چہ شرط لگانے والوں کے نز دیک  وہ شوہر یا محرم یا ان دونوں کے قائم مقام کے بغیر نکلنےکی وجہ سے گناہگار ہے۔

سفر میں عورت کيلۓ شوہر یا محرم کی موجودگى كى شرط میں حکمت یہ ہے کہ اسے دوران سفر تحفظ فراہم ہو ۔ اور ان امور کے پورا کرنے میں اسے مدد حاصل ہو جن میں اختلاط یا تھکن کی وجہ سے اسے ضرورت ہوتی ہے۔

اس میں شک نہیں کہ اب وسائل سفر میں ترقی، وطن سے دوری کی مدت میں کمی ،آرام آشائش کی فراہمی اور امن امان قائم ہو نے کی وجہ سے اس زمانے میں ماضی کے مقابلے میں شعائر حج آسانی س ےادا کۓ جاتے ہیں. اس ميں كوئى شک نہيں كہ عورت كے اكيلے سفرسے متعلق ،خاص حديث مباركہ سمجهنے ميں ان تمام چيزوں كا اثر ہونا چاہئے۔

صحیح بخاری میں عدی بن حاتم کی صحیح حدیث ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بیان فرما یا: "يستتب الأمن حتى ترتحل الظعينة من الحيرة وتطوف بالكعبة لا تخاف إلا الله

" کہ اس طرح امن قائم کرے یہاں تک  کہ عورت پالکی میں سفر کرے ،وہ خانہ کعبہ کا طواف کرے ۔اور اللہ تعالی کے سوا کسی سے نہ ڈرے"۔

پس ظاہر ہے کہ اس حکم کا دارو مدار اس پر ہے کہ عورت کو امن وامان اور آرام میسر ہو اگر کسی صورت میں بھی اسے یہ حاصل ہو جاۓ جیسے محرم يا پرامن  ساتھـ یا سرکاری ذ مہ دار  کی نگرانی یا اسی قسم کا کوئی اور ذریعہ ہو تو اس پر حج فرض ہے۔

 از واج رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اجازت کے بعد حج کیا اور انکے ساتھـ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ اور حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کو بھیجا اور انکا یہ حج سنت تھا کیونکہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ حج کیا تھا ([1]

                                                            ڈ اکٹر محمود عبدالجواد


[1] فتاوی دارالافتاء المصریہ اہموضع 9 مفتی فضیلت شیخ عطیہ صقر مئی 1997 فضیلت شیخ عبدالحسن العبیکان نے  يہ فتوی ۔  MBC    سے گفتگو میں دیا ہے۔