اسلامى ٹيليفون سروس كى بنياد عرب جمہوريہ مصر ميں 2000ء ميں ڈالى گئى، يہ اعتدال پر مبنى دينى خدمت ہے. |    
 
 
   
English عربى الاتصال بنا روابط اخرى فتاوى شائعة من نحن Q & A الرئيسية
 
   
سوال اور جواب --> باب ہشتم روزه --> رمضان کے روزے کى قضا کا حکم  

سوال : اس شخص کے بارے میں دریافت کیا گیا جس نے کئی سالوں تک رمضان کے روزے نہیں رکھے اسکے بعد اس نے اللہ تعالی سے توبہ کی تو کیا ان سالوں کے ماہ رمضان کے روز ے کی قضاء اس پر واجب ہے؟  

خلاصہ فتوی: اس پر قضاء لازم نہیں،لیکن اس پر واجب ہے کہ وہ اللہ تعالی سے توبہ کرے اور کثرت سے نیک اعمال کرے۔

                                            الشیخ ابن عثیمین مجموع فتاوی ورسائل (19/ 87)ف(41)

تبصرہ :

یہ فتوی علماء کے اتفاق کے خلاف ہے اور لوگوں ميں روزے اور ماہ رمضان کے دنوں کی قضاء سے بے رغبتی پیدا کرتا ہے اور چھوڑے ہوۓ روزوں کی قضاء متفقہ طور پر واجب ہے۔

علمی رد:

وہ عبادات جنکے لۓ اوقات معین ہیں ، معین وقت پر ادا نہ کی جائیں تو  قضاء ہو جاتی ہیں  اور جب تک انہیں ادا نہ کیا جاۓ انکی قضاء واجب ہوتی ہے وقت  پر ادا نہ کی گئی عبادت کی قضاء  تمام فقہاء کے نزدیک واجب ہے۔

امام سیوطی نے کہا: کہ ہر وہ جس پر کوئی چیز واجب ہو اور ادا نہ کی تو اسکے فوائد کے حصول کے لۓاس كى قضاء لازم ہے۔

 اور صاحب تلخیص نے کہا: کہ  اگر کسی شخص نے واجب عبا دت ترک کر دی تو  اس پر قضاء کا کفارہ لازم ہے۔

فتاوی الہندیہ میں آیا ہے فرض کی قضاء ،فرض، واجب  کی قضاء واجب اور سنت کی قضاء سنت ہے([1]

عمدا ترک کرنے کی قضاء واجب ہونے کی دلیل ، حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی یہ حدیث ہے کہ: "أن النبي صلى الله عليه وسلم أمر المجامع في نهار رمضان أن يصوم يوما مع الكفارة"، نبی کریم - صلى اللہ عليھ وسلم- نے  ماہ رمضان کے دنوں میں ازدواجی تعلقات قائم  کرنے والے کو حکم فرمایا کہ وہ کفارہ کے ساتھـ ایک دن کا روزہ رکھے یعنی اس دن کا روزہ رکھے جس دن اس نےازدواجی تعلقات  سے روزہ توڑا ہے۔

اور کیونکہ جب بھول ميں(عبادت) ترک كرنيوالے پر  قضاء واجب ہو جاتی ہے  تو عمد ا ترک کرنے والے پر بدرجہ اولى واجب ہوتی ہے۔

اور امام بخاری ومسلم رحمہما اللہ کی روایت کردہ یہ حدیث اسکی دلیل ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ سلم علیہ وسلم کی خدمت میں اپنى ماں کے بارے میںدریافت کیا کہ وہ فوت ہوگئی ہیں اور ان پر ایک ماہ کے روزے واجب ہیں تو کیا وہ ا نکی طرف سے قضاء کرے تو آپ - صلى اللہ عليھ وسلم- نے اس سے فرمایا: "نعم، فَدَيْنُ اللَّهِ أَحَقُّ أَنْ يُقْضَى"، ترجمہ: ہاں پس اللہ تعالی کا قرض زیادہ حقدار ہے کہ اسکو (پہلے) ادا کیا جاۓ۔

اور ایک روایت میں کہ ایک عورت نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی ماں کے بارے میں دریافت کیا کہ اسنے حج کی منت مانی تھی لیکن وہ حج نہ کر سکی یہاں تک کہ فوت ہو گئی تو وہ اسکی طرف سے حج کرے تو  آپ - صلى اللہ عليھ وسلم- نے فرمایا:

تم اسکی طرف سے حج کرو ۔ بھلا بتاؤ کہ اگر تمہاری ماں پر قرض ہوتا تو کیا تم اسے ادا نہ کرتیں ؟ پس اللہ کا حق ادا کرو کیونکہ وہ ز یادہ حقدار ہے کہ اسکا ‍ قرض  ادا کیا جاۓ۔

چنانچہ یہ حدیث مبارکہ عموما اللہ تعالی کے قرض کی ادائیگی کے واجب ہو نے کی دلیل ہے. بغيرعذر کے جس نےروزہ ترک کیا اسکی قضاء کے واجب ہو نے پر اور بھی دلائل ہیں               اللہ تعالی کا ارشاد ہے:﴿كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ (سورۃ البقرہ 183)، ترجمہ: تم پر روزے فرض کۓ گۓ ہیں۔

اس میں فرق نہیں کیا کہ (اسكى ادائيگى) اپنے وقت میں یا اسکے بعد ہو، اوريہ روزے کے وقت اور غیر وقت میں وجوب کا تقاضا کرتا ہے، اسکی ادائیگي واجب ہے۔

1.   مریض اور مسافر پر قضآء کرنا ثابت ہے اور اسکے ساتھـ وہ دونوں گناہگار بھی نہیں چنانچہ عمدا ترک کرنےوالے  پر اسکی قضاء پہلے ہوتی ہے۔

2.لوگوں کے قرضے وقت سے مربوط ہیں پھر جب وقت آگیا تو انکے واجب ہونے کے بعد انکی ادائیگی ساقط نہیں اور یہ ان ميں سے ہیں جو ادائیگی سےہی ساقط ہوتے ہیں ۔ چنانچہ اللہ تعالی کے قرضوں میں براءت صحیح نہیں اور افضل یہ ہے کہ اسکے اذن کے بغیر انکی قضاء ساقط نہ ہو ۔اور یہ اذن موجود نہیں ہے۔

3.علماء کرام کا اس پر اتفاق ہے کہ رمضان میں نہ رکھے گۓ روزوں کی قضاء (رمضان کے علاوہ دوسرے مہینوں) میں واجب ہے.

4.   ابن قدامہ نے المغنی میںبیان کیا ہے کہ (رمضان میں دن کو ) کسی نے روزہ توڑ نے والی چیزوںسے روزہ توڑ لیا تو اس پر قضاء لازم ہے ۔ہم نہیں جانتے کہ اس میں اختلاف ہے  کيونکہ روزہ اسکے ذمے واجب الادا تھا تو وہ اسکو ادا کۓ بغیر اس سے بری نہیں ہو سکتا ،اور اس نے ادا نہیں کیا تو اس پرجو (واجب) تھا وہ باقی رہا ([2]) اللہ اعلم۔

                                                                                                                                                                 

فتاوی اسلام سوال وجواب میں ہے کہ عذر کے بغیر قضاء کی (ادائیگی ميں) تاخیر جسے وہ قضاء پر قدرت رکھتا ہے لیکن اس نے قضاء ادا نہ کی یہا'ں تک کہ اگلا رمضان آگیا تو وہ بغیر کسی عذر کے قضاء کی ادائیگی میں تاخیر کى وجہ سے گناہگار ہے اور ائمہ کرام اس پر اتفاق ہے کہ اس پر قضاء لازم ہے۔ ([3])

ڈاکٹر علی منصور


[1] الموسوعۃ الفقیہ 34/ 25۔

[2] المغنی ازابن قدامہ 3/22 ۔

 [3] فتاوی الاسلام ۔سوال وجواب زیر نگرانی شیخ محمد صالح المنجد ج 1 ص 2893 سوال نمبر 26865۔