اسلامى ٹيليفون سروس كى بنياد عرب جمہوريہ مصر ميں 2000ء ميں ڈالى گئى، يہ اعتدال پر مبنى دينى خدمت ہے. |    
 
 
   
English عربى الاتصال بنا روابط اخرى فتاوى شائعة من نحن Q & A الرئيسية
 
   
سوال اور جواب --> باب ہشتم روزه --> بے نماز روزے دار کا حکم  

سوال : وہ (شخص) جو روزہ رکھتا ہے مگر نماز نہیں ادا کرتا اسکے حکم کے بارے میں دریافت کیا گیا؟  

خلاصہ فتوی: نماز کے بغیر روز ہ رکھنا جائز نہیں کیونکہ تارک نماز کافر ہے چنانچہ اسکا روزہ صحیح نہیں ہے۔

   الشیخ ابن عثیمین فتاوی الصیام ص34

تبصرہ :

جس نے نیت ،طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کھانے ،پینے اور عمل زوجیت سے اجتناب کی جیسے روزے کے ا رکان پورے کۓ تو اس کا روزہ صحیح ہے اور نماز ترک کرنا روزے  کے صحیح ہونےپر اثر  انداز نہیں ہوتا ہے۔

علمی رد:  

اگر عبادت اسکے ارکان وشرائط پورے کرتے ہوۓ ادا کی جاۓ تو وہ صحیح ہوتی ہے اور اسے لوٹا نا واجب نہیں اور جو شخص روزہ رکھتا ہے اگر وہ طلوع فجر سے لیکر مغرب تک مفطرات یعنی کھانے پینے اور شھو ت سے رکا رہے تو اسکا  روزہ صحیح ہے باطل نہیں،یہاں تک کہ اگر وہ جھوٹ ،ترک نماز جیسے کچھـ گناہوں کا  بھی مرتكب ہو  تو بھی (روزه) صحیح ہے۔

لیکن کیا یہ روزہ صحیح ہونے کے ساتھـ ساتھـ قبول بھی ہوگا اور اسے روزے دار پر اللہ کے جانب سے اجر ملے گا؟

اس روزے دار کی عدم قبولیت پر صحیح احادیث مبارکہ ہیں جیسے حدیث مبارکہ ہے:

 "مَنْ لَمْ يَدَعْ قَوْلَ الزُّورِ وَالْعَمَلَ بِهِ وَالْجَهْلَ فَلَيْسَ لِلَّهِ حَاجَةٌ أَنْ يَدَعَ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ" امام مسلم کے علاوہ محدثین کی ایک جماعت نے اسے روایت کیا ہے، ترجمہ: جو شخص بحالت روزہ جھوٹ بولنا اور اس پر برے عمل کرنا ترک نہ کرے تو اللہ تعالی کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ  کھانا پینا چھوڑ دے.

روزے کی عدم مقبولیت سے مراد اس کے اجر ثواب سے محرومی ہے، لیکن اسے لوٹا نے یا اسکی قضاء کرنے کا اس سے  مطالبہ نہیں کیا جا تا ،کیونکہ وہ حقیقتا صحیح ہے اگرچہ مقبول نہیں ، جیسے جو روزہ رکھتا ہے اور نماز  ادا نہیں کرتا ،اسکا  روزہ صحیح ہے اور ترک نمازکی وجہ سے اسکا لوٹانا واجب نہیں جبکہ اسکی عدم قبولیت پر حدیث مبارکہ دلالت کرتی ہے۔

 فرض کریں کہ اسکا روزہ مقبول ہے اور اسے ثواب بھی حاصل ہوگیا پھر بھی ترک نماز کا عذاب بہت شدید ہے اور اگر اللہ تعالی کی طرف سے معافی نہ ہوئی تو قیامت کے دن یہ میزان میں ظاہر  ہوگا۔

چنانچہ ہمیں چاہۓ کہ اللہ کا یہ فرمان اپنے مد نظر  رکھیں اور اسے دلوں میں بٹھالیں جس میں اللہ نے فرمایا :﴿ فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَه(7)وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ (الزلزلہ7-8 )، ترجمہ: اور جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لےگا او رجس نے ذرہ بھر برائی کی ہو گی وہ اسے بھی دیکھ لے گا۔

 ایک اور مقام پر ارشاد باری ہے: ﴿مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ وَمَنْ أَسَاءَ فَعَلَيْهَا وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيدِ (فصلت 46)، ترجمہ: جس نےنیک عمل کیا تو اس نے اپنی ہی ذات کے ( نفع کے) لۓ کیا اور جس نے گناہ کیا سو (اسکا وبال ) اسی کی جان پر ہے اور آپکا رب بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے۔

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اسکے کفر کی وجہ سے اسکا روزہ صحیح نہیں تو یہ پہلے بيان ہو  ہو چکا ہے کہ ائمہ اربعہ اور جمہور کے نزدیک  سستی سے ترک کرنے والا کافر نہیں ہے۔ اللہ اعلم۔

                                   ڈاکٹر علی منصور