اسلامى ٹيليفون سروس كى بنياد عرب جمہوريہ مصر ميں 2000ء ميں ڈالى گئى، يہ اعتدال پر مبنى دينى خدمت ہے. |    
 
 
   
English عربى الاتصال بنا روابط اخرى فتاوى شائعة من نحن Q & A الرئيسية
 
   
سوال اور جواب --> باب ہفتم جنائز --> میت کو تلقیں کرنیکا حکم  

سوال : میت کو تلقیں کرنےکا کیا حکم ہے؟  

خلاصہ فتوی: دفن کے بعد میت کو تلقین کرنا بدعت ہے کیونکہ یہ وارد نہیں ہوا ہے۔

اللجنۃ الدائمہ للبحوث العلمیہ والافتاء 8/340

تبصرہ:

بڑی عمر کی میت کو دفن کرنے کے بعد تلقین کرنے میں ممانعت نہیں جبکہ بچے کو مکلف نہ ہو نے کی وجہ سے تلقین نہین کی جاتی.  شافعی اور حنبلی فقھاء کے نزدیک میت کو تلقین کرنا مستحب ہے اور امام مالک  کے نزدیک مکروہ ہے۔   

علمی رد

امام نووی نے بیان کیا ہے کہ تلقین مستحب ہے اور یہ شوافع ،کی کئی جماعتون سے منقول ہے انہوں نے کہا میت کو تلقین کرنا مستحب ہے. چنانچہ کوئی شخص اسکے  سرہانے بیٹھتا ہے اور کہتا ہے: کہ اے فلاں ابن فلاں اور اے عبداللھ ابن أمة اللھ  اس عھد کو یاد کرو جس پر تو اس دنیا سے رخصت ہوا ہے یہ شھادت کہ اللھ تعالی کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اسکا کوئی شریک نہین  ہے اور محمد -صلی اللہ علیہ وسلم- اسکے عبد مقرب اور رسول ہیں ۔اور بیشک جنت برحق ہے دوزخ حق ہے، دوبارہ اٹھایا جانا برحق ھے، قیا مت کے آنے میں کوئی شک نہیں اور جو قبروں میں ہیں اللھ تعالی انہيں دوبارہ اٹھائے گا.

اور یہ کہ تو راضی ہواکہ اللھ تعالی رب ہے ،اور اسلام دین ہے ، حضرت محمد- صلی اللہ علیہ وسلم - نبی، قران کریم امام ، کعبہ قبلہ اور مو منین آپس مین بھايی بھائی ہیں ۔

شیخ نصر نے ان کلمات كا اضافہ کيا ہے کہ میرا رب اللھ ہے اس کے سوا کو ئی معبود نہیں اسی پر میرا بھروسہ ہے اور عر ش عظیم کا رب ہے یہ تلقین انکے نزدیک مستحب ہے ۔

اس بارے میں ابو امامہ کی حدیث ہے جسے اما م طبرانی نے اپنے اپنی معجم مین ضعیف اسناد سے روایت کیا ہے کہ اس كےالفاظ ہیں: سعید ابن عبد اللھ الازدی سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں ابو امامہ کی وفات کے وقت انکے پاس تھا ۔انہو ن نے کہا اگر میں انتقال کر جا وں تو میرے ساتھـ وہی کرنا جو رسول اللھ - صلى اللہ عليھ وسلم- نے ہميں حکم دیا ھے. اور آپ - صلى اللہ عليھ وسلم- نے فرمایا ہے تمھاریے بھائوں میں سے جب کو۴ی انتقال کر جاے اور تم اس قبر پرمٹی ہموار کر دو تو تم ميں سے کسی ایک کو چاہيےكہ اس کی قبر کے سرهانے کھڑا ہو کر یہ کہے اے فلان ابن فلانة، وہ اسے سنتا ہے مگر جواب نہین دیتا۔ 

پھر وہ کہے اے فلاں ابن فلاں تو وہ مردہ سیدھا بیٹھـ جاتا ہے پھر وہ کہے  اے فلاں ابن فلاں  تو صاحب قبر کہتا ہےہماری رھنمائی کر اللھ تعالی تم پر رحم فرمائے. لیکن ان زندوں کو شعو ر نہیں ہوتا چنانچہ اسے چاہيے کہ کہ وہ کہے( اس عھد) کو یا د کرو جس پر تو اس دنیا سے رخصت ہوا ہے یہ شھادت کہ اللھ تعالی کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اسکا کوئی شریک نہین  ہے اور محمد - صلى اللہ عليھ وسلم- اسکے عبد مقرب اور رسول ہیں ۔اور بیشک جنت برحق ہے دوزخ حق ہے، دوبارہ اٹھایا جانا برحق ھے، قیا مت کے آنے میں کوئی شک نہیں اور جو قبروں میں ہیں اللھ تعالی انہيں دوبارہ اٹھائے گا.

اور یہ کہ تو راضی ہواکہ اللھ تعالی رب ہے ،اور اسلام دین ہے ، حضرت محمد - صلى اللہ عليھ وسلم-   نبی، قران کریم امام ،اور بیشک منکر و نکیر میں سے ہر ایک اپنے ساتھی کا ھاتھـ پکڑتا ہے اور کہتا ہے او ہم چلیۗن ھم اسكے پاس نہیں بیٹھتے جسںے اپنی حجت حاصل کر لی ہو، تو ایک آدمی نے عر ض کیا یا رسول اللھ- صلى اللہ عليھ وسلم-  اگر ہم اسکی ماں کو نہ جانتے ہوں تو آپ - صلى اللہ عليھ وسلم- نے فرمایا اسے اس اکی ماں حواکی طرف منسوب کردو.

اے فلان ابن حوا:

امام نووی نے کہا کہ اگر چہ یہ حدیث ضعیف ہے مگر اس سے تائید لی جاتی ہے اور محدچین اور دیگر علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ ترغیب و تر ھیب اور فضائل میں کی جاتی ہے اور احادیثكے شواهد اسے مزید مضبوط  کرتے ہیں ،جیسے حدیث: "واسألوا له التثبيت" اور اسکى کيلئے ثابت قدمی کی دعا کرو۔

اور حضرت عمر وبن العاص رضی اللھ عنہ  کی وصیت اور یہ دونوں صحٰيح ہیں جنکا ذکر پہلے ہو چکا ہے اور اہل شام پہلے زمانے سے آج تک اسی پر عمل پیرا ہیں اور یہ تلقین اس ميت كو ہو گى جو دنياميں مکلف تهی جبکہ بچے کو تلقین نہین کی جاتی ۔ واللھ اعلم۔ ([1])

اور ابن تیمیہ نے بھی بیان کیا ہے کہ تلقین صحابہ کرام اور تابعین سے بھی منقول ہے اور اس مین تین اقوال ہین مستحب ،مکروہ ، مباح ([2]

عبد اللھ فقییہ کی زیر نگرانی فتوی مرکز کا فتوی:

دفن کرنے کے بعد میت کو تلقین کرنا واجب نہین ہے اور یہ عمل حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے عھد اور آپ کے خلفاء راشدین کے زمانے میں مشهور مسلمانوں کا عمل نہيں تھا لیکن یہ کئ صحابہ کرام سے منقول ہے جیسے امامہ اور واثلہ بن الاسقع . اور ائمہ کرام میں سے امام احمد بن حنبل نے اجازت دی اور آپ کے اور امام شافعی کے ساتھیوں نے مستحب قرار دیا اور کچھـ علماء نے بدعت کے اعتقاد کی وجہ سے مکروہ قرار دیا ہے۔

چنانچہ اس مین تین آراءہیں مستحب ،مکروہ ،مباح اور یہ سب سے صحیح قول ہے۔([3])  واللھ اعلم۔

                                                                               ڈاکٹر علی منصور


[1] مجموع نووی5/247۔

[2] الفتاوی الکبری ابن تیمیہ/325۔

[3] مرکز فتوی ،فتوی نمبر1907 تاریخ 12ربیع الاول1422۔