اسلامى ٹيليفون سروس كى بنياد عرب جمہوريہ مصر ميں 2000ء ميں ڈالى گئى، يہ اعتدال پر مبنى دينى خدمت ہے. |    
 
 
   
English عربى الاتصال بنا روابط اخرى فتاوى شائعة من نحن Q & A الرئيسية
 
   
سوال اور جواب --> باب ہفتم جنائز --> قرآن کریم کی تلاوت سے میت کو فائدہ (نفع) پہچانے کا حکم  

سوال : اسلام اور كفر كے درميان حد فاصل(فرق) كيا ہے؟ اور كيا وه شخص جو زبان سے كلمہء شهادت (دو شهادتيں) ادا كرنے كے بعد اسكے منافى اعمال كا مرتكب  

خلاصہ فتوی: میت کو ثواب پہنچانے کی نیت سے قرآن کریم کی تلاوت کرنا اسکے وارد نہ ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ہے۔

اللجنۃ الدائمہ للبحوث العلمیہ والافتاء 9/47-49

تبصرہ:

جمہور علماء کے نزدیک قرآن کریم کی تلاوت کا ثّواب میت کو پہنچتا ہے اور ہر زمانے اور علاقے میں بغیر انکار کے مسلمانوں کا اس پر اتفاق ہے کہ وہ جمع ہوتے اور قرآن کریم پڑھتے ہیں اور اپنے فوت شدگان(اعزہ واقارب) کو ایصال ثواب کرتے ہیں۔

علمی رد

اہل علم کا اس پر اتفاق ہے کہ صدقہ اور دعا کا نفع میت کو پہنچتا ہے اور انکے علاوہ دوسرے نفلی اعمال صالحہ جیسے اسکی طرف سے روزہ رکھنا ،قرآن کریم کی تلاوت کرنا ،ایسے اعمال میں انکا اختلاف ہے۔چنانچہ جمہور علماء کی راۓ میں میت کو ان اعمال کا ثواب پہنچتا ہے۔

جبکہ بعض علماء نے حضور کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ کی رو سے منع کیا ہے جس میں آپ نے فرمایا: "إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةِ أَشْيَاءَ مِنْ صَدَقَةٍ ‏‏جَارِيَةٍ ‏ ‏أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ"، ترجمہ: جب ابن آدم کا انتقال ہوجاتا ہے تو اسکے اعمال کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے سواۓ تین چیزوں کے, صدقہ جاریہ ,یا وہ علم جس سے نفع حاصل کیا جاۓ , یا نیک اولاد جو اسکے لۓ دعا کرتی ہے۔

نبی کریم - صلی اللہ علیہ وسلم - نے فرمایا تین چیزوں کے علاوہ اسکے اعمال  کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے،اور آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نےیہ نہیں فرمایا کہ اسے دوسروں کے عمل سے فائدہ نہیں پہنچتا ،تو جب کوئی اور شخص اسکے لۓدعا کرتا ہے تو یہ اس آدمی کے عمل میں سے نہیں لیکن اسے فائدہ پہنچتا ہے اور اس طرح اگر اسکے لۓ قرآن کریم پڑھاجاۓ تو بھی اسے فائدہ پہنچتا ہے۔

اور جنکی راۓ میں تلاوت کا ثواب فوت ہو نیوالوں کو نہیں پہنچتا۔ ان میں سے بعض نے کہا کہ اگر  کسی نے تلاوت کی اور اسکے بعد کہا کہ اے اللہ اس تلاوت کا ثواب فلاں شخص کو  پہنچا دے  تو  يہ صحیح ہے ۔اور اسکو انہوں نے دعا قرار دیا ہے. اور احادیث مبارکہ اسپر دلالت کرتی ہيں کہ میت کے پاس اگر قرآن کی تلاوت كي جائےخواه اسکا ایصال ثواب اسے کیا جاۓ یا نہیں ،اسکو فائدہ پہنچاتی  ہے کیونکہ جب بھی قرآن کی تلاوت کیجاۓ بطور خاص جماعت کی صورت میں تو تلاوت کرنے والوں کو فرشتے اپنے گھیرے میں لے لیتے ہیں اور رحمت الہی بھی انکو اپنی آغوش میں لے لیتی ہے۔اور ان پر طمانینت اور راحت نازل ہوتی ہے بلکہ فرشتوں کے نزول کے لۓ جماعت کی صورت میں تلاوت یا ذکر کرنا شرط  نہیں کیونکہ یہ (سعادت)اکیلے شخص کو بھی حاصل ہو جاتی ہے۔

امام بخاری اور مسلم  نے اسید بن حضیر کی حدیث روایت کی ہے جوکہ اصطبل میں اپنے بیٹے اور گھوڑے کے پاس تلاوت کرتے تھے اس حدیث میں آیا ہے (تلاوت کرتے ہوۓ )اچانک میں اپنے سر کے اوپر ساۓ کی مانند کوئی چیز دیکھتا کہ اس میں چراغوں کی طرح (کوئی چیز ہے ) وہ آہستہ آہستہ فضا میں بلند ہوتی جاتی ہے یہاں تک کہ وہ میری نظر وں سے اوجھل ہوجاتی تو رسول- صلی اللہ علیہ وسلم- نے آپ سے فرمایا: "تلك الملائكة تستمع لك، ولو قرأت لأصبحت يراها الناس ما تستتر منهم".

کہ یہ فرشتے ہیں جو آپکی تلاوت سنتے ہیں اور اگر تم تلاوت کرتے رہتے تو لوگ پوشیدہ چیزوں کا مشاہدہ کرتے۔

اور یہ کہ میت کے پاس سورۃ یسن پڑھنے کے بارے میں نص ہے امام احمد امام ابوداؤد امام نسائی ،(اسی کے الفاظ ہیں ) بان ماجہ،ابن حبان،حاکم  سے مروی ہے جسے ابن حبان کو حاکم  نے صحیح کہا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قلب القرآن يس، لا يقرؤها رجل يريد اللَّه والدار الآخرة إلا غفر اللَّه له، اقرؤوها على موتاكم"([1]

قرآن کریم کا دل سورۃ یسن ہے اور جو شخص بھی رضاۓ الہی اور دار آخرت کے لۓ اس کی تلاوت کرتا ہے تو اللہ اسکے گناہ معاف فرما دیتا ہے اور تم اپنے مردوں پر اسکی تلاوت کيا کرو([2]

اور قبر کے پاس تلاوت کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ،امام احمد بن حنبل رحمۃاللہ  کے بارے میں مروی ہے کہ آپ نے کہا جب تم قبرستان میں داخل ہو تو آیت الکرسی اور تین بار سورۃ اخلاص پڑھو پھر یہ کہو (اللهم إن فضله لأهل المقابر)

 اے اللہ اسکا ثواب اہل قبر کے لۓ ہو ۔

اور بغیر انکار کے ہر زمانے اور علاقے میں مسلمانوں کا اس پر اتفاق رہاہے کہ وہ جمع ہوتے اور قرآن کریم کی تلاوت کرتے اوراپنے فوت شدگان (اعز اقارب) کو ایصال ثواب کرتے ہیں۔

 کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی صحیح حدیث مبارکہ ہے(إن الميت يعذب ببكاء أهله عليه)، بے شک میت کو اسکے اہل وعیال کے رونے سے عذاب ہوتا ہے۔

اور اللہ تعالی اسکے گناہوں کی سزا دینے سے زیادہ کریم ہے کہ وہ اسے (نیک اعمال) کے ثواب سے محروم نہ کرے۔

علاوہ ازیں  الأبی نے کہا: اگر چہ میت کے لئے قرآن کریم كى تلاوت  کرنے میں اختلاف ہے پھر بھی اس سے غفلت نہیں کرنی چاہۓ غالبا صحیح ثواب کا پہنچنا ہے  لیکن یہ امور ہم سے پوشیدہ ہیں اس وجہ سے اور یہ کسى حکم شرعی میں اختلاف نہیں بلکہ اس امر میں اختلاف ہے کہ کیا ایسا واقعی ہوتاہے یاکہ نہیں یہی بات بہتر ہے کیونکہ میت كيلئےکی گئ تلاوت فرآن کریم اگر میت کو فائدہ نہيں پہنچاتی  توبهى پڑھنے والا ضرور اس سے استفادہ کرتاہے, اور اللہ تعالی کی رحمت اور قضل سے غالبا امید  یہ رکھی جاۓ کہ میت کو اس سے فائدہ ہوتا ہے جیسے شفاعت اور دعا میت کو فائدہ پہنچاتے ہیں اور دوسری چیزوں سے بھی فائدہ حاصل کرتی ہے۔

ڈاکٹر عبداللہ فقیہ کے زیر نگرانی فتوی مرکزكے فتوى میں ہے:

شیخ ابن عثمین کی راۓ ہے کہ تلاوت  قرآن کا ثواب ھدیہ (ایصال وثواب) کرنا جائز ہے اور یہ کہ یہ اسے پہنچتا اور انشاء الله اس سے اسے فائدہ حاصل ہوتا ہے ۔

جبکہ قبروں کے پاس اجتماع اور ان پر پڑھنے کو انہوں نے ناجائز قرار دیا ہے، جمہور علماء  اہل علم اور محققین کا مذہب بھی یہی ہے جو شیخ نے کہا ہے۔([3])، دیکھۓ مجموع فتاوی العقیدہ الشیخ بن ابن عثمین  ۔ج 2ص305۔

ڈاکٹر علی منصور


[1] ابن قطان اور دارالقطنی نے اس حدیث کو ضعيف كے قريب بتايا ہے اور ابن حاكم اور ابن حبان نے اسے صحيح  كہا اور ميت كى موت كے وقت تلاوت كرنا مراد ليا ہے.اور صحيح بتانے والوں نےمسند فردوس كى حديث كى بنا پر حالت نزع كے وقت قرن كريم كى تلاوت كو جائز قرار ديا ہے. حديث كا مفهوم يہ ہےكہ جب مرنے والے كے سامنے سورة يس كى تلاوت كى جاتى ہے تو الله تعالى اس پر آسانى فرماتا ہے. ليكن بعض علماء كا كہنا ہے كہيہاں لفظ ميت عام ہے اور حالت نزع كيلئے مخصوص نہيں ہےچنانچہ اسكے پاس تلاوت كرنے سے اسے فائدہ پہنچنے ميں كوئى ركاوٹ نہيں جب اسكى زندگى ختم ہو گئى خواہ اسے دفن كيا گيا ہو يا دفن نہ كيا گيا ہو.

[2] المغنى از ابن قدامة 2/225۔ 

[3] مرکز الفتوی ۔زیرنگرانی ڈاکٹر عبداللہ فقیہ فتوی نمبر 3406 تاریخ  الفتوی 26 ذوالحجہ 1421۔