اسلامى ٹيليفون سروس كى بنياد عرب جمہوريہ مصر ميں 2000ء ميں ڈالى گئى، يہ اعتدال پر مبنى دينى خدمت ہے. |    
 
 
   
English عربى الاتصال بنا روابط اخرى فتاوى شائعة من نحن Q & A الرئيسية
 
 
 
سوال اور جواب --> باب ہفتم جنائز --> تارک نماز اور اولیا ء کرام کے لے ذبیحہ کرنے والوں کا حکم  

سوال : تارک نماز اور اولیا ء کرام کے لے ذبیحہ کرنے والوں اور ان سے توسل کرنے والوں کی نماز جنازہ کا کے بارے میں حکم دريافت كيا گيا؟  

خلاصہ فتوی: انکی نماز جنازہ جائز نہیں کیونکہ وہ اسلام سے خٓارج اور کفار ہین ۔

                                    اللجنۃ الدائمہ للبحوث العلمیہ والافتاء 8۔410

تبصرہ:

مسلمانون کی اکثریت کے نزدیک سستی سے نماز ترک کرنے والا کافرنہيں ہے۔

عام مسلمانون کو انہیں کافر قرار دینے مین جلدی نہیں کرنی چاہئے جن کے صحیح ہو نے کے احتمال سے ممکن ہےوہ کافر نہ ہوں اور مسلمانون کے عمل کو ایک حد تک صحیح قرار دینا واجب ہے۔

علمی رد:

 اس سے پہلے بیان کیا جا چکا ھے کہ نماز ترک کرنے والا اگر اسکی فرضیت کا منکر ھے توعام مسلمانون کے نزدیک متفقہ طور پر کافر ہے اور اگر نماز کی فرضیت پر عقیدہ رکھتے ہوئے  اس سے سستی کی وجہ سے نماز ترک ہوئی جیسا کہ اکثر الوگون کا حال ہے تو وہ چارون ائمہ کرام اور پہلے و بعد کے علماء کے نزدیک کافر نہیں ہوتا ہے۔

اور یہ بھی گزر چکا ہے کہ عام لوگ اولیاء کرام کے لے جو جانور ذبح کرتے ہین اگر اس سے انکا مقصد ان اولیاء کرام کو ثواب پہچانا ،ذبیحة  کا گوشت فقراء مین تقسیم کرنا تو یہ صحیح ہے اگر اس کا مقصد ولی کی ذات سے قرب ہے تو صحیح نہیں  ہے ۔چنانچہ عام مسلمانون کو ان اعمال کی وجہ سے کافر قرار دینے مین جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہئے جنکے صحیح ھونے کے احمتال سے ممکن ہے وہ کافر نہ ہوں اور مسلمانون کے اعمال کو ممکنہ حد تک  صحیح قراردینا واجب ہے ۔ اور لا علمی ان موانع ميں سے ہے جو كسى شخص كو كافر قرار دينے میں مانع ہوتےہيں ۔

کتاب فتاوی صغری مین ہے کہ کفر بہت بڑی چیز ہے تو جب تک کسی کے کفر نہ کرنے کی روایت موجود ہے توميں مومن کو کافر نہیں قرار دیتاہون۔

خلاصہ وغيرہ میں ہے کہ اگر کسی مسئلہ مین اكثر وجوہ کفر ثابت کر رہی ہوں اور ایک وجہ کفر سے منع کر رہی ہو تو مفتی پر لازم  ہے کہ وہ مسلمان سے حسن ظن کی وجہ سے تكفير سےمنع کرنے والے سبب كى طرف مائل ہو اور جو شخص مسلمان پر کفر کا فتوی نہ لگانے کا عزم کرے تو یہ اس کی نیک نیتی شمار کی جائيگی یا اس کے کفر میں خواہ کمزور روایت ہی سے اختلاف ہو تو اس پر کفر کا فتوی نہیں لگایا جا سکتا اسی بنیاد پر تکفیر کے اکثر مذکورہ الفاظ سے مراد کفر کا حکم لگانا نہیں اور میں نے اس امر کو اپنے اوپر لازم کیا کہ ان چیزوں مین کسی کے بارے مین فتوی نہیں دونگاْ(1)حاشية ابن عابدين 4/224۔  

                                               ڈاکٹر علی منصور