اسلامى ٹيليفون سروس كى بنياد عرب جمہوريہ مصر ميں 2000ء ميں ڈالى گئى، يہ اعتدال پر مبنى دينى خدمت ہے. |    
 
 
   
English عربى الاتصال بنا روابط اخرى فتاوى شائعة من نحن Q & A الرئيسية
 
   
سوال اور جواب --> عقيده --> آزادى فكر كى دعوت شركـ ہے    

سوال : ہم آزادى فكر كى دعوت كے بارے ميں سنتے رہتے ہيں، يہ عقيدے كى آزادى كى دعوت ہے چنانچہ اسكا كيا حكم ہے؟  

خلاصہ فتوى: جو اسكو جائز قرار ديتا ہو كہ انسان عقيدے ميں آزاد ہے اور مذاهب ميں سے جس مذهب پہ چاہے عقيده ركهے تو وه بہت بڑا كافر ہے.

                                                           شيخ ابن عثيمين ـ فتاوى العقيدة 217- 218

تبصره:

آزادى فكر كے كئى ايكـ شرعى معانى ہيں مثال كے طور پر كسى كو كسى مخصوص عقيدے كے ماننے پر مجبور نہ كرنا، عقيدے كے مخالفين كے ساتهـ رہنا اور زندگى بسر كرنا اور يہ معاملہ انكا كهانا كهانے اور انكے ساتهـ شادى كرنا تكـ پہنچ جاتا ہے، لوگوں كو انكے عقيدے ميں آزاد چهوڑنے كا مفهوم كسى طرح بهى كفر نہيں اور نہ ہى اسے پسند كرنا ہے. اور كسى بهى معمولى وجہ اور انكے افعال كے انتهائى دور كے احتمال كى بناپر انكى تكفير پر اصرار كتنى عجيب بات ہے-

علمى رد:

يہ ايكـ معروف حقيقت ہے كہ لوگ اپنى بشرى طبيعت وفطرت كى بناء پر رائے، عقيدے اور برتاؤ ميں مختلف ہوتے ہيں، انسان اپنى فطرت كے اعتبار سے كبهى غلطى كرتا ہے اور كبهى صحيح ہوتا ہے-

ارشاد بارى تعالى ہے﴿وَلَوْ شَاء رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلاَ يَزَالُونَ مُخْتَلِفِينَ، ﴿إِلاَّ مَن رَّحِمَ رَبُّكَ وَلِذَلِكَ خَلَقَهُمْ القران هود (118/119).

ترجمہ: اگر آپ صلى الله عليہ وسلم كا رب چاہتا تو تمام لوگوں كو ايكـ ہى امت بنا ديتا(مگر اس نے جبرًا ايسا نہ كيا بلكہ سب كو مذهب كے اختيار كرنے ميں آزادى دى) اور اب يہ لوگ ہميشہ اختلاف كرتے رہيں گے . سوائے اس شخص كے جس پر آپكا رب رحم فرمائے اور اس لئے اس نے انہيں پيدا فرمايا ہے.

الله رب العزت نے انسان كواپنى طرف سے هدايت عطا فرمائى، انہيں بتايا كہ اسى ميں ہى بهلائى ہے اور اسكى طرف انہيں بلايا اور اسى ميں انكو شر سے اگاه كيا اور انہيں اس سے متنبہ كيا، اور جب حضرت آدم عليہ السلام اور انكے ساتهـ زمين پر اتر نے والے لوگوں سے فرمايا: ﴿فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّي هُدًى فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقَى (طه 123).

ترجمہ: پهر جب ميرى جانب سے تمهارے پاس كوئى هدايت(وحى) آجائے سو جو شخص ميرى هدايت كى پيروى كرے تو وه نہ(دنيا ميں) گمراه ہوگا اور نہ(آخرت ميں) بد نصيب ہوگا.

الله تعالى نے لوگوں كو اس حقيقت سے اگاه كرنے كيلئے انكى جانب يكے بعد ديگرے رسول بهيجے چنانچہ ان ميں سے كچهـ لوگ ايمان لائے اور كچهـ  وه ہيں جنہوں نے انكار كيا يہاں تكـ خاتم النبيين حضرت محمد صلى الله عليہ وسلم تشريف فرما ہوئے- آپ صلى الله عليہ وسلم نے بنيادى عقائد كى ان(سابقہ انبياء كرام) كى دعوت كى تصديق فرمائى. دعوت اسلام كسى زمان ومكان كيلئے خاص نہيں بلكہ عام ہے. چنانچہ يہ تمام لوگوں كيلئے ہے خواه ان ميں وه ہو جو اپنے سابقہ مذهب پر ہے اور دوسرے وه ہيں جنكا كوئى دين نہيں. الله رب العزت كا ارشاد گرامى ہے: ﴿وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الإِسْلاَمِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ                                                                         (آل عمران 85).

ترجمہ: جو اسلام كے علاوه كسى اور دين كو چاہے گا تو وه اس سے ہرگز قبول نہيں كيا جائے گا اور آخرت ميں نقصان اٹهانے والوں ميں ہوگا، عقيدے ميں كسى قسم كى كوئى زبردستى نہيں ہے كيونكہ عقائد اطمينان سے دل ميں راسخ ہوتے ہيں اور رسول كى ذمہ دارى صرف تبليغ ہے ارشاد خداوندى ہے: ﴿وَقُلِ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ فَمَن شَاء فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاء فَلْيَكْفُرْ        (الكهف 29).

 

اور فرما ديجئيے كہ(يہ) حق تمهارے رب كى طرف سے ہے پس جو چاہے ايمان لے اور جو چاہے انكار كردے، سوره بقره ميں الله تعالى كا فرمان ہے: ﴿لاَ إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ﴾ (البقرة 256).

ترجمہ: دين ميں كوئى زبردستى نہيں بے شكـ هدايت، گمراہى سے واضح طور پر ممتاز ہوچكى ہے.

رسول كريم صلى الله عليہ وسلم نے يہوديوں سے تعامل فرمايا اور ان سے كهانا بطور قرض ليا، انہيں اسلام كى دعوت دى ليكن انہيں قبول اسلام پر مجبور نہيں كيا. اور انہيں آزادى دى كہ خواه ايمان لے آئيں يا نہ چناچہ ان ميں سے بعض ايمان لے آئے اور بعض نے كفر كيا اور آپ صلى الله عليہ وسلم نے مسلمانوں كيلئے پسند نہيں فرمايا كہ يہوديوں پر جار حيت كرين جنہوں نے حضرت موسى عليہ السلام كو آپ صلى الله عليہ وسلم پر فضيلت دى اور انبياء كرام پر آپكى فضيلت كا انكار كيا جبكہ آپ صلى الله عليہ وسلم سب سے افضل ہيں اور آپ صلى الله عليہ وسلم نے فتنے كو روكنے كيلئے ايسا كيا.

  اور حضرت امام مسلم نے ايكـ حديث شريف روايت كى ہے:الأنبياء إخوة من علاّت ،أمهاتهم شتى ودينهم واحد ،«أَنَا أَوْلَى النَّاسِ ‏ ‏بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ‏ ‏فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَالْأَنْبِيَاءُ إِخْوَةٌ أَبْنَاءُ ‏ ‏عَلَّاتٍ ‏أُمَّهَاتُهُمْ شَتَّى وَلَيْسَ بَيْنَنَا نَبِيٌّ»

اسكا مفهوم يہ ہيكہ انبياء كرام ايكـ باپ سے بهائى بهائى ہيں. انكى مائيں مختلف اور دين ايكـ ہے. ميں تمام لوگوں سے عيسى ابن مريم كے زياده قريب ہوں كيونكہ ميرے اور انكے درميان كوئى نبى نہيں.

 حضرت عمر نے ايكـ نابينا يہودى كو مانگتے ہوئے ديكها چنانچہ آپ نے اس كيلئے بيت المال سے اتنا مال مقرر كيا جو اسكے لئے كافى ہو. اور اپنے گورنروں كو غريب ذميوں كى مدد كرنے كى تعليمات جارى فرمائيں. غير مسلموں كے ساتهـ يہ معاملہ اس حقيقت كے پيش نظر ہے كہ اسلام امن كا دين ہے اور وه كسى بهى امن پسند كے خلاف جنگ كا آغاز نہيں كرتا.

ايكـ اورمقام پرارشاد بارى ہے: ﴿وَإِن جَنَحُواْ لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَتَوَكَّلْ عَلَى اللّهِ (الأنفال 61).

ترجمہ: اور اگر وه(كفار) صلح كے لئے جهكيں تو آپ بهى اسكى طرف مائل ہوجائيں اور الله تعالى پر بهروسہ ركهيں.

اسلام نے يہود ونصارى، اهل كتاب كى عورتوں سے شادى كرنے اور انكے ذبيحہ كو كهانے كى اجازت دى ہے اور مسلمان شوهر كو اس بات كى اجازت نہيں كہ وه اپنى غير مسلمہ بيوى كو اسلام قبول كرنے پر مجبور كرے اور اسے(مسلمان شوهر) كو زندگى بسر كرنے كى اجازت دى ہے اور وه(اسكى بيوى) اپنے كفر ہى پر قائم ہے.

چنانچہ اس طرح لوگوں كو آزاد چهوڑنے سے مراد پر يہ نہيں كہ وه عقيده اسلام كے خلاف جس حالت پر ہيں اسے قبول كرليا جائے بلكہ اسكا مفهوم يہ ہے كہ انہيں دين اسلام قبول كرنے پر مجبور نہ كيا جائے-

          ڈاكٹر محمود فؤاد