اسلامى ٹيليفون سروس كى بنياد عرب جمہوريہ مصر ميں 2000ء ميں ڈالى گئى، يہ اعتدال پر مبنى دينى خدمت ہے. |    
 
 
   
English عربى الاتصال بنا روابط اخرى فتاوى شائعة من نحن Q & A الرئيسية
 
   
سوال اور جواب --> عقيده --> غير الله كيلئے ذبح كرنےكا حكم    

سوال : غير الله كيلئے ذبح كرنے كا كيا حكم ہے؟ مثال كے طور پر اولياء كرام كى زيارت كرنے والوں كى طرف سے اولياء كرام كيلئے ذبح كرنا اور ولى كيلئے نذر كے طور پر ذبح كرنا اور اس نذر كے گوشت كو قبريا قرار كے پاس رہنے والوں ميں تقسيم كرنا وغيره.  

خلاصہءفتوى:- جس نے غير الله يا ولى يا كسى عرس ميں ولى كى تعظيم كيلئے ذبح كيا تو وه شركـ اكبر كا مرتكب مشركـ ہے.

فتوى اور تحقيق كى دائمى كميٹى1/ 134

تبصره:

يہ فتوى بهى(مسلمانوں كو) كافر قرار دينے والوں فتوؤں ميں سے ايكـ اور مسلمانوں كى اكثريت كے بارے ميں سوء ظن پر مبنى فتوى ہے كيونكہ عام لوگ اولياء كرام كيلئے جو نذر ديتے يا ذبح كرتے ہيں ان ميں اكثريت كا مقصد الله تعالى كيلئے ذبح كرنا ہوتا ہے. اور اسكا ثواب اولياء كرام كيلئے پيش كرنا ہے اور گوشت فقيروں كيلئے ہوتا ہے. اور يہى شرعى مفہوم انكے ذهنوں(نيتوں) ميں ہوتا ہے ليكن كبهى وه اپنى كوتا ہيوں يا سستيوں كى وجہ سے اپنى زبانوں سے اظہار نہيں كر سكتے-چنانچہ مفتى كو نہيں چاہيے كہ وه اعمال كو انكے احتمال سے بڑها كر بلا جواز مسلمانوں كو كفر تكـ پہنچائے.

علمى رد:

كسى كيلئے جائز نہيں كہ وه غير الله كى اس قدر تعظيم كرے كہ ذبح كے وقت اسكا نام لے چاہيے تو وه اونچى آواز ميں ہو يا نہ ہو جيسے كبهى كبهى مشركين اپنے باطل معبودوں كے قرب كيلئے جانور ذبح كرتے وقت اونچى آواز ميں انكا نام پكارتے تهے(چنانچہ اسكى حرمت پر) قرآن كريم كے صريح حكم وجہ سے اسكے عدم جواز پر اتفاق ہے. ارشاد بارى تعالى ہے: ﴿وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللّهِ بِهِ (سورة المائدة 3). اور وه(جانور) جس پر ذبح كے وقت غير الله كا نام پكارا گيا ہو.

مگر مسلمانوں كے مختلف ممالكـ ميں عام لوگ جو جانور اولياء كرام كے لئے ذبح كرتے ہيں اور وه نذور جو انكى قبروں پر پيش كرتے ہيں، يقينًا اس كا مقصد عمومًا ان كا ثواب اولياء كرام كو پہنچانا ہوتا ہے- رہى بات، ذبيحہ كا گوشت اسكى قبر كے خدام اور اسكے اقارب يا فقراء ميں تقسيم كرنے كى. تو اگر نذر ماننے والا ان ميں سے كسى چيز كا اراده كرے يا مطلق ركهے. دونوں صورتيں درست ہيں اور اگر اسكا اراده ميت كى ذات سے قرب ہو جيسا كہ بہت سے نا واقف كرتے ہيں تو يہ صحيح نہيں ہوتا ہے.([1])

فقبروں ميں گوشت تقسيم كرنے كى غرض سے مويشيوں كو ذبح كرنا ميت كى روح كيلئے صدقہ ہے. اور اسميں كوئى ممانعت نہيں كيونكہ حديث شريف ميں والدين كى وفات كے بعد انكے ساتهـ نيكى كا ذكر آيا ہے: رسول كريم صلى الله عليہ وسلم نے سوال كرنيوالے سے فرمايا: "الصدقة عليهما والدعاء لهما" كہ صدقہ ان دونوں كى جانب سے اور دعا ان دونوں(والدين) كيلئے ہے.

اولياء كرام كى قبور كيلئے نذر كے حكم كے بارے ميں ابن حجر الهيتمى سے سوال كيا گيا: (تو انہوں نے يہ جواب ديا) كہ ولى كيلئے نذر سے تو غالبًا اس ولى كى قبر كے خدام، اسكے اقارب اور اسكے فقراء كيلئے صدقہ دينا مراد ہوتا ہے اگر نذر ماننے والے كا مقصد يہى ہو يا اس نے كسى كا تعين نہ بهى كيا ہو تب بهى صحيح ہے- اور اگر ناذر كا مقصد ميت سے تقرب حاصل كرنا ہے جيسا كہ اكثر لا علمى كى بناپر كرتے ہيں تويہ صحيح نہيں ([2] ). 

 ڈاكٹر محمد فؤاد


[1] حاشيہ الدسوقي 3/ 102. مسلمانوں كا ولى الله كيلئے ذبح كرنے كا مقصد اسے ثواب پہنچانا ہے.

[2] الفتاوى الفقهية الكبرى- از- ابن حجر الهيتمى 4/ 284.

اور انہوں نے يہ بهى بيان كيا ہے كہ نذر دينے والے يا وقف كرنے والے كى نيت، اس جگہ لے لوگ، و ہا ں كى عمارت(درگاه شريف) يا اسى كے كسى فائدے. يا اسى طرح كى دوسرى صورتوں كيلئے ہو، اور كوئى اور چيز مقصود نہ ہو تو، اولياء كرام اور علماء كے مقامات كيلئے نذر دينا يا وقف كرنا صحيح اور جائز ہے- اسكے بر عكس اگر اس نے وہاں پر مدفون(شخص) سے تقرب كا قصد كيا يا انكى جانب اس جگہ كو منسوب كيا تو اس صورت ميں نذر نہيں ہوگى- علامہ اذرعى اور ديگر علماء كرام نے نذر كے سلسے ميں شمع، موم بتى وغيره اور اسكے وقف كا بهى ذكر كيا ہے، (ابن حجر الهيتمى كہتے ہيں) كہ اس سے بهى وہى بات سامنے آتى ہے جو ميں نے بيان كى ہے، اور حاصل كلام يہ ہوا كہ جس كسى نے نذر پيش كى يا كوئى چيز وقف كى جس كے غلے سے چراغ اور اس طرح كى ضرورت كى دوسرى چيزيں خريدى جائيں تو يہ صحيح ہے خواه يہ نذور ہى ميں سے كيوں نہ ہو، جس سے نمازى يا سونے والے كو فائده ہو وگرنہ يہ صحيح نہيں، اسى طرح اس مقام كيلئے نذر باوقف سے علاقے كے رہنے والوں يا اس جگہ آينوالوں كيلئے روشنى كرنا ہو تو يہ پسنديده عمل ہے. اگر اس نے قبر كے باس روشنى كرنے كا اراده كيا اگرچہ اسكے ساتهـ روشنى بهى مقصود ہو تو يہ صحيح نہيں. اسى طرح جيسا كہ اكثر ہوتا ہے كہ اگر اس سے(نذر يا وقف) سے مراد جگہ يا قبريا اس ولىتقرب حاصل كرنا ہو تو يہ نذر اور وقف نہيں ہو گا كيونكہ ان لوگوں كا عقيده ہوتا ہے كہ ان جگہوں كى اپنى خصوصيات ہيں اور انكے خيال ميں يہاں پيش كى جانے والى نذر سے مصيبتين ٹلتى ہيں                                                                                    فتاوى الفقهه لابن حجرالهيتمى 4/ 289.

اسى طرح تحفة المحتاج 6/ 316. نهاية المحتاج 5/ 425.