اسلامى ٹيليفون سروس كى بنياد عرب جمہوريہ مصر ميں 2000ء ميں ڈالى گئى، يہ اعتدال پر مبنى دينى خدمت ہے. |    
 
 
   
English عربى الاتصال بنا روابط اخرى فتاوى شائعة من نحن Q & A الرئيسية
 
   
سوال اور جواب --> عقيده --> غير مسلموں کو انکے تہواروں پر مبارکباد دينے کا حکم    

سوال : غير مسلموں کو انکے تہواروں پر مبارک باد دينے کے حکم کے بارے ميں سوال کيا گيا۔  

خلاصۂ فتوی: کافروں کو انکے تہواروں پر مبارکباد دينا جائز نہيں کيونکہ يہ گناہ ميں تعاون اور وہ حب باطل پر ميں اس سے رضا مندی ہے ہميں اس سے منع کيا گيا ہے اور يہ جائز نہيں ہے۔                              

                   اللجنہ الدائمہ للبحوث العلميہ والافتاء3/313

                   شيخ سعيد عبدالعظيمwww.alsalafway.com

تبصرہ:

رشتہ داری ، ہمسائيگی اور اس طرح کے ديگر تعلقات رکھنے والے غير مسلموں کو انکے تہواروں پر مبارکباد دينے ميں کوئی حرج نہيں ہے ليکن انکے مذھبی رسم و رواج نصاری کی خصوصيات اور انکے مذھبی قربان ( قربت حاصل کرنے کی رسوم ) ميں شرکت نہ کرے، قطعی ممانعت در حقيقت غير مسلموں کے عقائد اور قوانين کو پسند کرنے کی صورت ميں ہے اسی طرح مسلمانوں كے خلاف  ان سے دوستی اور انكى مدد بھی ہيں ۔

علمی رد:

اللہ رب العزت نے  قرآن کريم کی دو آيات ميں مسلمانوں کے درميان اور غير مسلموں کے ساتھـ انکے تعلقات کا دستور و قانون وضع کيا ہے ۔ سورۃ الممتحنھ کی يہ دونوں آيات کريمہ بت پرست مشرکوں کے بارے ميں نازل ہوی ہيں ۔ ارشاد باری ہے: ﴿لا يَنْهَاكُمْ اللَّهُ عَنْ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ (8) إِنَّمَا يَنْهَاكُمْ اللَّهُ عَنْ الَّذِينَ قَاتَلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَأَخْرَجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ وَظَاهَرُوا عَلَى إِخْرَاجِكُمْ أَنْ تَوَلَّوْهُمْ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ فَأُوْلَئِكَ هُمْ الظَّالِمُونَ (الممتحنة : 8-9)، ترجمہ: اللہ تمھيں اس بات سے منع نہيں فرماتا کہ جن لوگوں نے تم سے دين (کے بارے) ميں جنگ نہيں کی اور نہ تمھيں تمھارے گھروں سے (يعنی وطن سے) نکالا ہے کہ تم ان سے بھلائی کا سلوک کرو اور ان سے عدل و انصاف کا برتاؤ کرو ، بے شک اللہ عدل وانصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔

اللہ تو محض تمھيں ايسے لوگوں سے دوستی کرنے سے منع فرماتا ہے جنہوں نے تم سے دين (کے بارے) ميں جنگ اور تمھيں تمھارے گھروں (يعنی وطن) سے نکالا اور تمھارے باہر نکالے جانے پر (تمھارے دشمنوں کی) مدد کی ۔ اور جو شخص ان سے دوستی کريگا تو وہی لوگ ظالم ہيں ۔

ان دونوں آيات کريمہ نے امن سے رہنے والوں اور جنگ کرنے والوں کے درميان فرق کر ديا ہے ۔ امن سے رہنے والوں کے ساتھـ نيکی کرنے اور انکے ساتھـ انصاف کرنے کے ليئے کہا ہے : يعنی انکے ساتھـ عدل و انصاف و احسان اور فضل کرنا ہے جبکہ دوسری آيت کريمہ ميں انکے ساتھـ دوستی اور انکی پيروی کرنے سے منع کيا گيا ہے ۔ اور يہ وہ لوگ ہيں جنہوں نے مسلمانوں سے دشمنی کی ان سے جنگ کی اور انہيں انکے وطنوں سے نا حق نکالا ۔

شيخان ( امام بخاری اور امام مسلم ) نے حضرت اسماء بنت ابی بکر ـ رضی اللہ عنہما ـ سے روايت کی ہے کہ وہ ايک دن رسول اللہ ـ  صلی اللہ عليہ و سلم ـ کی خدمت ميں حاضر ہوئيں اور آپ ـ صلی اللہ عليہ و سلم ـ کی خدمت ميں عرض کيا يا رسول اللہ ـ صلی اللہ عليہ و سلم، ميری ماں ميرے يہاں آئيں اور وہ مشرکہ ہيں ، وہ راغب تھيں (يعنی تعلق قائم رکھنے اور انہيں تحفہ دينے کی طرف ) کيا ميں ان سے تعلق رکھوں ؟ آپ ـ صلی اللہ عليہ وسلم ـ نے فرمايا: اپنی ماں سے تعلق رکھو (متفق حديث شريف) يہ حکم تو اس حالت ميں ہے جبکہ وہ مشرکہ ہيں اور يہ تو معلوم ہے کہ اہل کتاب کے ليئے اسلام کا موقف بت پرست مشرکوں سے خفيف ہے. قرآن کريم نے انکے کھانوں اور ان سے شادی اور اس سے متعلق امور کی اجازت دی ہے ۔ شوہر و پيوی درميان لگاؤ اولاد کے ليئے ماں کی محبت اور اولاد پر ماں کے حقوق اسلام ميں ثابت ہيں ۔ چنانچہ نيکی اور اچھے سلوک ميں سے يہ ہر کہ انہيں انکی عيد پر مبارک باد دی جائے اور ہميشہ اچھے اخلاق کا اظہار کيا جائے جبکی رسول اللہ ـ  صلی اللہ عليہ و سلم ـ نے وصيت فرمائی ہے حديث شريف ہے:" و خالق الناس بخلق حسن"[1].

 اسکا مفہوم ہے لوگوں سے اچھے اخلاق سے پيش آؤ ، غور کريں حضور اکرم – صلی اللہ عليہ وسلم ـ نے خالق الناس فرمايا يہ نہيں فرمايا خالق المسلمين بخلق حسن مسلمانوں سے اچھے اخلاق سے پيش آؤ ۔ اگر غير مسلم ، مسلمانوں کی عيدوں پر انہيں مبارکباد دينے ميں پہل کريں تو اس موقع پر ( يعنی انکے تہوار پر ) مبارک اپنے کی مشروعيت ثابت ہو جاتی ہے۔ چنانچہ ہميں حکم ديا گيا ہے کے ہم سلام کا جواب اس سے اچھا يا کم از کم ويسا ہی ديں جيسا اللہ رب العزت نے فرمايا: ﴿وَإِذَا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا( سورہ النساء 86)، ترجمہ: اس آيت کريمہ کا مفہوم ہے ۔: "اور جب ( کسی لفظ ) سلام کے ذريعے تمہاری تکريم کی جائے تو تم ( جواب ميں ) اس سے بہتر ( لفظ کے ساتھـ ) سلام پيش کيا کرو" اور اسکی تاکيد اس حالت ميں بھی ہوتی جب ہم انہيں اسلام كى دعوت دينا اور انکے قريب ہونا چاہتے ہوں اور يہ ہم پر واجب ہے اور ايسا ہمارے اور انکے درميان دوری يا غير شائستگی سے نہيں ہو سکتا ۔ بلکہ ايسا اچھے تعلق اور اچھے اخلاق ہی سے ہو سکتا ہے ۔ نبی کريم ـ صلی اللہ عليہ وسلم ـ اپنی پوری مکی زندگی ميں مشرکين قريش کی ايذاؤں اور آپ ـ صلی اللہ عليہ و سلم ـ اور آپکے صحابہ کرام کے خلاف کمعلم کھلا دشمنی کے باوجود آپ ـ صلی اللہ عليہ و سلم ـ ان سے اعلی اخلاق سے پيش آئے اور انکے ساتھـ ائنے شريفانہ اور بہتر انداز سے زندگی گزاری کہ اہل مکہ آپ ـ صلی اللہ عليہ وسلم ـ پر ہی اعتماد کرتے تھے اور اپنی امانتيں آپ ـ صلی اللہ عليہ و سلم ـ کے پاس رکھا کرتے تھے۔ اس وجہ سے کوئی مـانع نہيں کہ مسلمان انہيں براہ راست مبارکباد ديں يا انہيں ايسے عيد کارڈ بھيجيں جن پر اسلامی اصول کے مخالف مذھبی عبارتيں اور شعار نہ ہوں ۔ ايسے موقعوں پر مبارکباد کے عام الفاظ ميں انکے مذھب کو قبول کرنے يا خوشی جيسی کوئی بات نہيں ہوتی بلکہ يہ خوش خلقی کے الفاظ ہوتے ہيں جنہيں لوگ جانتے ہيں ، ان سے ( غير مسلموں سے ) تحفہ قبول کرنے اور پھر اپنی جانب سے تحفہ دينے ميں کوئی ممانعت نہيں ہے رسول اللہ – صلی اللہ عليہ و سلم – نے غير مسلموں مثال کے طور پر مصر کے عظيم قبطی مقوقس و غيرہ کے تحفہ قبول فرمائے ، بشرطيکہ یہ تحفے شراب اور خنزير کے گوشت جيسے مسلمانوں کيلئے حرام اشياء نہ ہوں ۔[2]

جہاں تک يوم آزادی يا اتحاد يا طفولت اور مامتا اسی طرح کی ديگر معاشرتی اور قومی عيدوں ( ايام ) کا تعلق ہے تو انکی مبارک باد دينے ميں مسلمانوں پر کوئی حرج نہيں بلکہ وہ ان ميں ممالک کے باشدے ہونے يا مقيم ہونے کے طور پر شرکت کريں ليکن انہيں ان موقعوں پر واقع ہونے والی ممنوعہ يا حرام باتوں سےبچنا چاہنے ۔

ڈاکٹر ياسر عبدالعظيم


[1] رواہ الترمذی اور کہا کہ يہ حديث حسن صحيح ہے۔

[2] يورپی کونسل ۔ برائے افتاء اور تحقيقات ۔ شيخ سلمان عود www.islamweb.net.com۔