اسلامى ٹيليفون سروس كى بنياد عرب جمہوريہ مصر ميں 2000ء ميں ڈالى گئى، يہ اعتدال پر مبنى دينى خدمت ہے. |    
 
 
   
English عربى الاتصال بنا روابط اخرى فتاوى شائعة من نحن Q & A الرئيسية
 
   
سوال اور جواب --> عقيده --> غير اسلامی ملک (دار الحرب) کی شہريت حاصل کرنے کا حکم    

سوال : غير اسلامی ملک ( دار الحرب ) کی شہريت کے حاصول کے بارے ميں دريافت کيا گيا۔  

خلاصۂ فتوی: غير اسلامی ملک کی شہريت حاصل کرنا جائز نہيں ۔ اسميں انکی پيروی اور انکے باطل مواقف کو منظور کرنا ہے۔

اللجنھ الدائمھ للبحوث العلميھ و الافتاء جـ2 صـ69

تبصرہ:

درحقيقت (كسى بهى ملک ) كى شہريت حاصل كرنا برا عمل ہے نہ اچها بلكہ اسكاحكم شہريت حاصل كرنے پر متوقع نفع ونقصان كے مطابق مترتب ہوتا ہے.

علمی رد:

پہلے بيان ہوچكا ہے كہ كسى بهى مسلمان كا ايسى جگہ سكونت اختيار كرنا جائز ہے جہاں وه اپنے دينى شعائر كى ادائيگى ، معاشرے كى مثبت سرگرميوں ميں شركت، اپنے دين كى خوبيوں، اخلاق حسنہ اور اعلى اقدار كو قائم ركهـ سكتا ہو۔ اگر اسپر يہ خيال غالب ہو يا اسے گمان ہو کہ وہ اپنے اسلامی واجبات کو ادانہيں کر سکےگا، اور اسے اپنی اولاد کے فتنہ ميں مبتلا ہونے کا خدشہ ہو تو اسے اپنے ملک واپس آجانا چاہيے ۔

غير اسلامی ملک کی شہريت کے حصول کے بارے ميں عصر حاضر کے علماء کی دو آراء ہيں۔

 ان ميں سے بعض کا خيال ہے کر يہ قطعی ممنوع امور ميں سے ہے ۔ يہی نہيں بلکہ يہ گناہ کبيرہ ميں سے ايک ہے اور يہ واضح کفر کے ارتکاب اور اسلام سے مرتد ہونے کا موجب بھی ہو سکتا ہے۔

تو نس کے علماء نے ، فرانسيسی قبضے کے وقت فتوی ديا تھا کہ فرانسيسی شہريت کا حاصل کرنا اسلام سے خارج ہونا اور مرتد شمار ہونا ہے۔ کيونکہ اسکی شہريت حاصل کرنے سے وہ شخص اپنے وطن سے وفاداری کو بيچ کر سامراج کی وفاداری خريدتا ہے۔ چنانچہ بڑے علماء نے ايسا کرنے والے کے ليئے کفر کا فتوی ديا تھا ، کيونکہ يہ فتوی مزاحمت اور غير ملکی قبضے کے خلاف وسيلہ اور جہاد کے اسلحوں ميں سے ايک اسلحہ ہے۔

اور بعض دوسروں كے نزديک، درحقيقت (كسى بهى ملک ) كى شہريت حاصل كرنا برا عمل ہے نہ اچها بلكہ اسكاحكم شہريت حاصل كرنے پر متوقع نفع ونقصان كے مطابق مترتب ہوتا ہےـ يہى صحيح ہے.

 مغربی ممالک ميں مسلمانوں کی موجودگی امر واقع (حقيقت) ہے اور وہ ان ممالک کا حصہ بن چکے ہيں اس ميں شبہ نہيں كہ (غير مسلم ممالک كى)شہريت سےمسلمان كو (شہرى بننے كے بعد) بہت سے حقوق حاصل ہوتے ہيں، جنكى وجہ سے وہ معاشرے مثبت سرگرميوں ميں شركت كر سكتا ہے جس سے اس معاشرے كے ہر باشندے كو فوائد حاصل ہوتے ہيں، ليكن ہميں يہ بهى ہميشہ  ياد ركهنا چاہئے كہ مسلمان كى  زندگى كا اعلى مقصد اپنے دين كى حفاظت ہے۔

جس سے مسلمانوں کو قوت حاصل ہوتی ہے ، چنانچہ نامزد ( اميدوار ) ووٹ حاصل کرنے کے ليئے مقابلہ کرتے ہيں ، اسليئے شہريت کا حصول بذات خود نہ شر ہے اور نہ خير ، اس وجہ اسکا حکم  شہريت کے حصول سے مسلمانوں کو پہنچے والے نفع يا نقصان کے مطابق ہوتا ہے ۔

اور اگر اسے غالب خيال ہوكہ شہريت کے حصول سے اسے فرزندوں اور  اولاد کے گمراہ ہونے کا يا عقيدے اور عملی طور پر راہ راست سے ہٹنے کا يا شہوات ميں ڈوب جانے اور ہلاکت كا خدشہ يا شک بھی ہو تو اسے مسلم معاشرے ميں رہنا چاہنے ۔ اور وہ دوسری شہريت حاصل نہ کرے ۔ معيار ہميشہ يہ ہے کہ وہ ، اسکا خاندان اور اولاد اپنے اسلام پر قائم رہنے کی کہان تک قدرت رکھتے ہيں ۔([1]) و اللہ اعلم.          

ڈاكٹر ياسر عبدالعظيم


[1] نئی نسل بالخصوص عرب باشندوں پر مغربی ممالک ميں قيام کے خطرات سے متنبہ کرنا ضروری ہے ۔ ان ممالک ميں اپنے مذھب پر قائم  رہنے والے مسلماں دس فيصد سے زيادہ نہيں ہيں ۔ بلکہ ان ممالک ميں موجود مساجد ميں گنجائش بھی تقريبا اتنی ہی ہوتی ہے ۔ اسکا مفہوم يہ ہے کہ مغربی ممالک ميں قيام پذير نوے فيصد مسلماں مساجد کے قريب نہيں جاتے ۔ غالب خيال يہی ہے کہ انکی آئندہ نسليں اسلام کے بارے ميں کچھـ زيادہ نہيں جانتيں بلکہ غالبا وہ اسے نا پسنديدگی اور نفرت ( اکتاہٹ ) کی نگاہ سے ديکھتے ہيں ۔ ان ممالک ميں مستقل رہنے والے اور وہ جنکا اسلامی ممالک سے تعلق منقطع ہو جاتا ہے وہ سنگين خطرے ميں ہيں ۔ اسلامی ملک ميں پرورش ہانے کی وجہ سے اگر وہ خود محفوظ ہے تو اسکی اولاد اور پوتے اکثر محفوظ نہيں ہيں اور بالخصوص پرديس ميں ملک سے رشتہ کمزور ہونے ، انکے منتشر ہونے اور ان غير مسلم معاشروں ميں گھل مل جانے کی سہوليات ميسر ہونے کی وجہ سے عربوں کی يہی حالت ہے۔ گزشتہ صدی کے اوائل ميں ، مغربی ممالک کی جانب ہجرت کا عربوں کا تجربہ نا کام رہا ۔ انکی نسلوں پر کوئی ( اسلام کا ) اثر باقی نہيں رہا بلکہ وہ سب ان معاشروں ميں ضم ہوگئے اور انکی ( عربوں ) باقيات ميں ارجنٹائن کے صدر کارلوس منعم اور امريکی صدر باراک حسين اوباما کے والد و غيرہ ہيں ۔