اسلامى ٹيليفون سروس كى بنياد عرب جمہوريہ مصر ميں 2000ء ميں ڈالى گئى، يہ اعتدال پر مبنى دينى خدمت ہے. |    
 
 
   
English عربى الاتصال بنا روابط اخرى فتاوى شائعة من نحن Q & A الرئيسية
 
   
سوال اور جواب --> عقيده --> غیر اسلامی ممالک میں رہنے کا حکم    

سوال : غیر اسلامی ممالک میں رہنےكے بارے میں دریافت کیا گیا؟  

خلاصہ فتوی: کام تجارت اور تعلیم کے لۓ ان ممالک میں رہنا جائز نہیں۔ صرف علم وبصیرت  تبلیغ اسلام کے مقصد  سے رہ سکتے ہیں۔

الشيخ ابن باز مجموعھ فتاوے9/401-402

تبصرہ:

كسى بهى مسلمان كا ايسى جگہ سكونت اختيار كرنا جائز ہے جہاں وه اپنے دينى شعائر كى ادائيگى ، معاشرے ميں مثبت اقدامات ميں شركت، اپنے دين كى خوبيوں، اخلاق حسنہ اور اعلى اقدار كو قائم ركهـ سكتا ہو.

مسلمان پر بحيثيت مسلمان لازم ہے كہ وه نيكى كا حكم دے اور برائى سے منع كرے خواه وه اسلامى يا غير اسلامى يا  دينى اعتبار سے مخلوط معاشرے ميں رہتا ہو. اور يہ كہ جس معاشرے ميں وہ رہتا ہے اسكے مفادات كيلئے مثبت سرگرميوں ميں شريک ہو.

 علمی رد:

جب زمين كے كسى بهى خطے ميں اگر مسلمان كى جان اور دين محفوظ ہو، اور اسے ايسے حقوق حاصل ہوں كہ وہ اپنے دينى شعائر بلا ضرر ادا كرسكے تو ايسے خطے ميں سكونت اختيار كرنے كے بارے ميں تين احكام ہيں:

پہلا حكم : جائز ہے كيونكہ اس جگہ يا كسى دوسرى جگہ سكونت اختيار كرنے ميں كوئى فرق

نہيں.

دوسرا حكم: مستحب ہے يہ اس حالت ميں ہےكہ وہ اس خطے اور كسى دوسرے خطے كےمقابلے ميں ، معاشرے ميں مثبت سرگرميوں ميں شركت، اپنے دين كى خوبيوں، اخلاق حسنہ اور اعلى اقدار كو قائم ركهـ سكتا ہو.

تيسرا حكم: واجب ہے يہ اس صورت ميں ہےكہ جب اسكے ہجرت كرنے سے ضرر اور فساد يقينى ہو.

اسى پر ان آيات كريمہ اور حديث مباركہ كا اطلاق كيا جاتا ہے،  ارشاد بارى ہے:

﴿إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمْ الْمَلائِكَةُ ظَالِمِي أَنفُسِهِمْ قَالُوا فِيمَ كُنتُمْ قَالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الأَرْضِ قَالُوا أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوا فِيهَا فَأُوْلَئِكَ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَسَاءَتْ مَصِيراً (النساء 97)،     تر جمہ: بے شک جن لوگوں کی روح فرشتے اس حال میں قبض کرتے ہیں کہ وہ دشمن ماحول میں رہ کے اپنے جانوں پر ظلم کرنے والے ہیں تو  وہ ان سے دریافت کرتے ہیں کہ تم کس حال میں تھے (تم نے اقامت دین کی جدوجہد کی نہ سر زمین کفر کو چھوڑا)؟ وہ(معذرۃ ) کہتے ہیں کہ ہم زمین میں کمزور وبےبس  تھے،فرشتے (جوابا) کہیں گے کیا اللہ کی زمین فراخ نہ تھی کہ تم اس میں کہیں ہجرت کر جاتے۔ سو یہی وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانا جہنم ہے ۔اور وہ بہت ہی برا ٹھکانا ہے۔

اور حديث مباركہ ہے: (انا بری من کل مسلم یقیم بین اظھر المشرکین) میں مشرکوں کے درمیان رہنے والوں سے بری ہوں" ( اسکی تخریج امام ابوداؤد نے  2645 اور ترمذی نے 1609 کی ہے).

 

محقیقین کا کہنا ہے اگر دار کفر میں مسلمان کا رہنا دار اسلام میں مفید ہو،دار کفر میں تعلیم اور اپنی مصلحتوں کو پورا کرنے کی غرض سے دار کفر میں موجود مسلمانوں کیلۓ مفید ہو یا اسلام اور اسکے اصولوں کی نشر واشاعت نیز اسکے بارے میں پیدا کردہ شبہات کے ازالے  کیلۓ مفید ہو تو اس حالت میں اسکی اس معاشرے میں موجودگی وہاں سے ہجرت کرنے سے افضل ہے ،اس کے لۓ ضروری ہے کہ وہ قوی الایمان،قوی الشخصیت اور صاحب اثر نفود ہو تاکہ وہ ا س کام کی ادائیگی کر سکے۔

ابتدائی زمانوں میں مبلغین اور تاجروں کا کافروں کے ممالک میں اسلام کی نشرواشاعت میں بڑااثر رہا ہے1.

مسلمان پر بحيثيت مسلمان لازم ہے كہ وه نيكى كا حكم دے اور برائى سے منع كرے خواه وه اسلامى يا غير اسلامى يا  دينى اعتبار سے مخلوط معاشرے ميں رہتا ہو. اور يہ كہ جس معاشرے ميں وہ رہتا ہے اسكے مفادات كيلئے اسلامى نقطہ نظر كے مطابق  مثبت سرگرميوں ميں شريک ہو.

 

پروفیسر ڈاکٹر سعود بن عبداللہ الفنیسان:

حصول علم یا علاج یا تجارت کی غرض سے کافروں کے ملک کی طرف سفر کرنا جائز ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں بلکہ تعلیم کی غرض سے آپکے سفر پر اجر بھی ملے گا انشاء اللہ،اور آپ اللہ ربالعزت کی اطاعت ،نیک کام اور ان ممالک کے لوگوں، وہاں رہنے والوں کو حسب استطاعت اسلام کی دعوت دینے کی پابندی کرتے رہیں ۔ان ممالک میں

 موجود مساجد اور اسلامی مراکز میں دعوت اسلامی اور عمومی منفعت کے امکانات کافی میسر ہیں ۔جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث شریف:  "انا بری من کل مسلم یقیم بین اظھر المشرکین" ( اسکی تخریج امام ابوداؤد نے  2645 اور ترمذی نے 1609 کی ہے)  "میں مشرکوں کے درمیان رہنے والوں سے بری ہوں " میں وارد ممانعت کے بارے میں آپکے خوف کا تعلق ہے تو علماء کرام نے اسکی تفسیر یہ بیان کی ہے کہ اگر کافروں کے درمیان رہنے کی خواہش حصول علم یا علاج یا تجارت یا طلب رزق یا اللہ رب العزت کی طرف دعوت دینے وغیرہ جیسے شرعی اسباب کے علاوہ ہو اور مسافر صرف کافروں کے ممالک یا اسکے باشندوں سے محبت کا قصد کرتا ہے تو حدیث میں اسکی ممانعت ہے۔

اللہ آ پ کو توفیق دے اور آپکی مدد فرماۓ اور اس سے آپکو نفع پہنچاۓ2.

                                                                    ڈاکٹر یاسر عبدالعظیم


1 فتاوی دارالافتاء المصریہ الموضوع27 مفتی فضیلت شیخ عطیہ صقر1997.

2 ڈاکٹر سعود بن عبداللہ الفنسان سابق عمیدکلیہ الشریعہ،امام محمد بن سعود اسلامی یو نیورسٹی5 شعبان 1428ھ.