اسلامى ٹيليفون سروس كى بنياد عرب جمہوريہ مصر ميں 2000ء ميں ڈالى گئى، يہ اعتدال پر مبنى دينى خدمت ہے. |    
 
 
   
English عربى الاتصال بنا روابط اخرى فتاوى شائعة من نحن Q & A الرئيسية
 
   
سوال اور جواب --> عقيده --> دوستی اور عدم تعلقی    

سوال : دوستی اور عدم تعلقی کس کيلئے ہو ، اور کفار سے دوستی کا کيا حکم ہے.  

خلاصہ فتوی: کافروں سے ايسی دوستی جسکی وجہ سے اس شخص (دوست کی) کی تکفير کی جاتی ہے، وہ در حقيقت کافروں کيلئے اسکی محبت اور اسکی جانب سے مسلمانوں کے خلاف کافروں کی مدد کرنا ہے ، اور ہر مسلماں پر واجب ہے کہ وہ ان سے سخت نفرت کرے، ان سے عداوت رکھے اور ان سے بيزار رہے.

علمی تحقيقات کی دائمی کميٹی اور افتاء ج 2 / 47

 

تبصرہ:

قرآن كريم نے اہل كتاب كے ساتهـ معاملات كرنے، رہنے سہنے، كهانے پينے اور انکے ساتھـ شادی بياہ کی اجازت دی ہے، ان (شادی) کے لوازمات ميں شوہر اور بيوی کے درميان محبت، جذبۂ مامتا، اور اسکے مسلم بيٹے پر اس (ماں) کے يقينی حقوق ہيں.

علمی رد:

قرآن كريم كى بہت سى آيات کريمہ غير مسلموں کے ساتھـ معاملات کرنے کی اجازت ديتی ہيں.

جيسا کہ اللہ رب العزت کا يہ ارشاد ہے: ﴿لا يَنْهَاكُمْ اللَّهُ عَنْ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ (8)  إِنَّمَا يَنْهَاكُمْ اللَّهُ عَنْ الَّذِينَ قَاتَلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَأَخْرَجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ وَظَاهَرُوا عَلَى إِخْرَاجِكُمْ أَنْ تَوَلَّوْهُمْ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ فَأُوْلَئِكَ هُمْ الظَّالِمُونَ (الممتحنة  8-9)، ترجمہ: اللہ تمھيں اس بات سے منع نہيں فرماتا کہ جن لوگوں نے تم سے دين (کے بارے) ميں جنگ نہيں کی اور نہ تمھيں تمھارے گھروں سے (يعنی وطن سے) نکالا ہے کہ تم ان سے بھلائی کا سلوک کرو اور ان سے عدل و انصاف کا برتاؤ کرو، بے شک اللہ عدل وانصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے.

اللہ تو محض تمھيں ايسے لوگوں سے دوستی کرنے سے منع فرماتا ہے جنہوں نے تم سے دين (کے بارے) ميں جنگ اور تمھيں تمھارے گھروں (يعنی وطن) سے نکالا اور تمھارے باہر نکالے جانے پر (تمھارے دشمنوں کی) مدد کی ۔ اور جو شخص ان سے دوستی کريگا تو وہی لوگ ظالم ہيں ۔

حضور نبى كريم ـ  صلى الله عليه وسلم ـ غير مسلموں کے ساتھـ معاملات کرتے تھے امام بخاری نے حضرت انس ـ رضی اللہ عنہ ـ سے روايت کی ہے ۔ انہوں نے کہا: ايک يہودی غلام نبی پاک ـ صلی اللہ عليہ وسلم ـ کی خدمت کيا کرتا تھا ـ جب وہ بيمار ہوا تو رسول کريم ـ صلی اللہ عليہ وسلم ـ اسکی عبادت کيلئے تشريف لے گئے.

 ام المؤمنين حضرت عائشہ صديقہ ـ رضی اللہ عنھا ـ سے مروی ہيکہ رسول اللہ ـ صلی اللہ عليہ و سلم – نے ايک يہودی سے قرض   پرکھانا خريدا اور اسکے پاس اپنی ذرعہ بطور رھن رکھی.

حضرت جابر بن عبدالله  -رض- سے مروى ہے كہ ہمارے پاس سے ايک جنازہ گزرا حضور نبى كريم ـ صلى الله عليه وسلم ـ اس كيلئے كهڑے ہوگئے اور ہم بهى انكے ساته كهڑے ہوگئے، ہم نے عرض كى يا رسول الله ـ صلى الله عليه وسلم ـ يہ يہودى كا جنازہ ہے، آپ ـ صلى الله عليه وسلم ـ نے فرمايا: "جب تم جنازہ ديكهو تو كهڑے ہوجايا كرو" ان نصوص (قرآن و احاديث) اور حوادث کے علاوہ ايسے واقعات بھی ہيں جن ميں ہے كہ صحابہ كرام غير مسلموں کے ساتھـ معاملات کرتے تھے۔ان كے ساتهـ ساتهـ ايسى آيات بهى ہيں جو غير مسلموں كے ساتهـ علاقات كو مقيد كرتى ہيں  جيسا كر ارشاد بارى ہے: ﴿لا تَجِدُ قَوْماً يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ (المجادلة 22)، ترجمہ: آپ ان لوگوں کو اللہ پر اور يوم آخرت پر ايمان رکھتے ہيں کھی اس شخص سے دوستی نہيں کرتے ہوتے نہ پائيں گے جو اللہ اور اسکے رسول ـ  صلی اللہ عليہ و سلم ـ سے دشمنی رکھتا ہے خواہ وہ انکے باپ (اور دادا) ہوں يا بيٹے (اور پوتے) ہوں يا انکے بھائی ہوں يا انکے قريبی رشتہ دار ہوں ۔

ايک اور  فرمايا: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ (الممتحنة 1)، ترجمہ: اے ايماں والو ! تم ميرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ تم (اپنی) دوستی کے باعث ان تک خبريں پہنچاتے ہو۔

ان اجازت دينے اور ممانعت کرنے والی آيات کريمہ ميں مطابقت لانے کيلئے علماء کرام کا کہنا ہے کہ قطعی ممانعت در حقيقت غير مسلموں کے عقائد اور قوانين کو پسند کرنے کی صورت ميں ہے اسی طرح مسلمانوں كے خلاف  ان سے دوستی اور انكى مدد بھی ہيں ، ۔ ان دونوں امور سے روکنے ميں جنگ کرنے والے اور جنگ نہ کرنے والے کفار دونوں شامل ہيں۔

جہاں تک ايسے ظاہری معاملات جو کہ پسنديدگی اور دوستی کے بغير ہوں تو  ان سے معاملات کرنے ميں کوئی ممانعت نہيں ([1]).

قرآن کريم نے اھل کتاب کے کھانوں اور انکے ساتھـ شادی بياہ کی اجازت دی ہے، ان (شادی) کے لوازمات ميں شوہر اور بيوی کے درميان محبت ، جذبۂ مامتا، اور اسکے مسلم بيٹے پر اس (ماں) کے يقينی حقوق ہيں ۔

خلاصہ: حالت جنگ ميں (مسلمانوں كيلئے) غير مسلوں سے دوستى  حرام ہے اور يہى آيات قرآنيہ كے اسباب نزول كى تحقيق سے ثابت ہوتا ہے اور سيرت نبوى كے تمام واقعات بهى اسى كى تائيد كرتے ہين اور يہ بهى ثابت ہے كہ  نبى كريم ـ صلى الله عليه وسلم- نے يہوديوں اور مشركين سے معاهدے كئے تهے اور  يہوديوں كے ساتهـ  معاهدے ميں ہر بيرونى دشمن كے ساتهـ جنگ ميں  تعاون پر اتفاق ہوا تها اور يہ دوستى كى ہى قسم ہے ليكن يہ(دوستى) مسلمانوں كے خلاف نہيں ہے جبكہ (ان سے) لاتعلقى كا مفہوم يہ ہيكہ مسلمان ہر غير مسلم عقيدے سے لا تعلقى اور دستبردارى كا اظہار كريں،ليكن يہ لاتعلقى  غيرمسلموں كے ساتهـ اچهے انداز ميں رہنے سے منع نہيں كرتى. جيسا کہ اللہ رب العزت کا يہ ارشاد ہے: ﴿لا يَنْهَاكُمْ اللَّهُ عَنْ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ (8) إِنَّمَا يَنْهَاكُمْ اللَّهُ عَنْ الَّذِينَ قَاتَلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَأَخْرَجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ وَظَاهَرُوا عَلَى إِخْرَاجِكُمْ أَنْ تَوَلَّوْهُمْ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ فَأُوْلَئِكَ هُمْ الظَّالِمُونَ (الممتحنة 8-9)، ترجمہ: اللہ تمھيں اس بات سے منع نہيں فرماتا کہ جن لوگوں نے تم سے دين (کے بارے) ميں جنگ نہيں کی اور نہ تمھيں تمھارے گھروں سے (يعنی وطن سے) نکالا ہے کہ تم ان سے بھلائی کا سلوک کرو اور ان سے عدل و انصاف کا برتاؤ کرو ، بے شک اللہ عدل وانصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔

اللہ تو محض تمھيں ايسے لوگوں سے دوستی کرنے سے منع فرماتا ہے جنہوں نے تم سے دين (کے بارے) ميں جنگ اور تمھيں تمھارے گھروں (يعنی وطن) سے نکالا اور تمھارے باہر نکالے جانے پر (تمھارے دشمنوں کی) مدد کی ۔ اور جو شخص ان سے دوستی کريگا تو وہی لوگ ظالم ہيں ۔

چنانچہ ہر غير اسلامى عقيدے سے لاتعلقى، غير مسلموں كے ساتهـ رہائش اختياركرنے كے امكان اورہر اس معاملے ميں جس كى اسلام نے تائيد كى ہے، اس ميں ان سے تعاون كى ممانعت نہيں ہے.

پس وه مسلمان جومذهبى اور تہذيبى طور پر مخلوط معاشرے ميں رہائش پذير ہے، اسے معلوم ہونا چاہئے كہ اسلام اسے ترغيب ديتا ہے كہ جس معاشرے ميں وہ رہتا ہے اسكے غير مسلم باشندوں سے حسن سلوك اور اچهے تعلقات قائم كرے اور انكا احترام كرنے كے ساتهـ ساتهـ كسى مسلمان  يا غير مسلم شخص كو نقصان پہنچائے بغير نيک كاموں ميں انكى مدد اور معاونت كرے..

شيخ سليمان العودہ نے کہا: بعض طالبعلموں نے مجھـ سے سوال کيا ، کيا ميرے لئے يہ جائز ہے کافر کے سامنے مسکراؤں اس سے مصافحہ کروں اور اسکے ساتھـ کسی جگہ عليحدہ بيٹھوں؟

ميں نے اس سے کہا : سبحان اللہ ،کيا اس ميں بھی کوئی اختلاف ہے ؟ غور کيجئے کہ رسول کريم – صلی اللہ عليہ و سلم – مکہ مکرمہ ميں قريش اور بت پرستوں کے سرغنوں ، اور مدينہ منورہ ميں يہوديوں اور مشرکوں سے کس طرح معاملات فرمايا کرتے تھے۔

اب آپ بتائے کيا اچھے اخلاق اور دوسروں کے ساتھـ ربط قائم کئے بغير دعوت اسلام دی جا سکتی ہے ؟ ([2]). 

ڈاکٹر ياسر عبدالعظيم


[1] تفسير قرطبی 47 / 878 ، غذاء الالباب از ٭٭ ج 2 / 12 اور اسکے بعد۔