اسلامى ٹيليفون سروس كى بنياد عرب جمہوريہ مصر ميں 2000ء ميں ڈالى گئى، يہ اعتدال پر مبنى دينى خدمت ہے. |    
 
 
   
English عربى الاتصال بنا روابط اخرى فتاوى شائعة من نحن Q & A الرئيسية
 
   
سوال اور جواب --> دوازدهم حلال و حرام --> تالیاں بجانا جاہلیت کی رسم ہے  

سوال : تقاریب اور جشنوں میں تالیاں بجانے کے کے بارے میں سوال کیا گیا.  

خلاصہ فتویٰ: جواب دیا گیا کہ تالیاں بجانا جاہلیت کی رسموں کا ایک جز ہے، اور کم از کم مکروہ تو ضرور ہے.                                          

                                      الشیخ ابن باز فتاوی معاصرۃ ص ٦٧

 

تبصرہ:

تقاریب کے موقعے پر تالیاں بجانا عبادت نہیں، اور نہ ہی ان میں اللہ تعالی کی عبادت کی نیت شامل ہوتی ہے، بلکہ وہ ایک قسم کی رسم ہے جسے کچھ لوگوں نے اپنا لیا ہے ، اس کے ذریعے وہ اپنے جذبہء پسندیدگی کا اظہار کرتے ہیں، اس لئے اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں.
علمی رد: 

بے شک جو لوگ تالیوں اور سیٹیوں کے ذریعے اللہ تعالی کی عبادت کرتے ہیں وہ راہ خطا پر ہیں، امام قرطبی نے اپنی تفسیر میں اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے،اور ان نادان صوفیوں کی بھر پور مذمت کی ہے جو تالیاں بجاتے ہیں اور رقص کرتے ہیں ان کی رائے میں یہ ایسا عمل ہے جس سے باشعور لوگ اپنا دامن بچایا کرتے ہیں، درحقیقت ایسی حرکت کرنے والے مشرکوں کی مشا بہت اختیار کرتے ہیں کیونکہ وہ کعبۃ اللہ کے نزدیک اس فعل کے مرتکب ہوتے تھے. ختم شد لیکن اس فتوی میں ذکر کردہ تالیاں بجانا عبادت میں شامل نہیں،کیونکہ اس سے اللہ تعالی کی قربت مقصود نہیں ہے، بلکہ وہ رسم و رواج کا ایک حصہ ہے جسے کچھ لوگوں نے اپنے جذبہء پسندیدگی کے اظہار کے لئے اپنا رکھا ہے، شرعاً اس کی کوئی ممانعت نہیں ہے ،اگرچہ افضل یہی ہے کہ مساجد میں منعقد ہونے والی تقاریب میں اس سے بچاجائے ،تاکہ ظاہری طور پر بھی ان مشرکوں کی مشابہت سے احتراز ہوسکے جو مسجد میں عبادت کی نیت سے ایسی حرکت کرتے تھے.

اس لئے فقہائے کرام نے اس بات کی صراحت کردی ہے کہ خطبہ و نماز کو چھوڑ کر باقی مقامات پر تالیاں بجانا درست ہے، خصوصاً جبکہ اجازت لینے کے لئے یا باخبر کرنے کے لئے یا حسن ترنم کو دوبالا کرنے کے لئے یا عورت کا اپنے بچوں کو بہلانے جیسے خاص ضرورت کے پیش نظر ہو تو درست ہے  لیکن بلا ضرورت مکروہ ہے.([1]) والله أعلم.

                                                      ڈاكٹر انس ابو شادی


[1] رد المحتار٦/٣٩٥، تحفۃ المحتاج٢/١٥٠، الفتاوی الفقہیۃ الکبری٤/٣٥٦.