اسلامى ٹيليفون سروس كى بنياد عرب جمہوريہ مصر ميں 2000ء ميں ڈالى گئى، يہ اعتدال پر مبنى دينى خدمت ہے. |    
 
 
   
English عربى الاتصال بنا روابط اخرى فتاوى شائعة من نحن Q & A الرئيسية
 
   
سوال اور جواب --> دوازدهم حلال و حرام --> اخبار میں کام کرنے کا حکم  

سوال : کسی اخبار میں کام کرنے کے حکم کے بارے میں دریافت کیا گیا؟  

خلاصہ فتوی: جواب دیا کہ اخباروں پر  شر کے غلبے اور حقیقت  سے انحراف، اداکاروں اوراداکارؤں کی خبریں نشر کرے، فتنے،فساد کی اشاعت اور اشتعال انگیزی کی وجہ سے(ان میں کام کرنا) جا ئز نہیں ۔

                                                                           فتاوی اللجنہ الدائمہ 15/52۔53

تبصرہ:

اکثر شرعی قواعد یا مکمل طور پر شرعی قواعد کی پا بندی کرنے والے اخبار میں انسان کا کام کرنا جائز ہے۔اور اگر اس پر حرام اور مفسد مواد کا غلبہ ہو تو اس میں کام کرنا جائز نہیں ہے۔

علمی رد:

اخبار (ميڈيا)نسل در نسل اخلاقیات ،افکار اور معارف کی منتقلی کا بنیادی ذریعہ شمار ہوتا ہے اور معاشرتی فکر کی عمدگی اسکی تہذیب کی تشکیل اور اسکی اخلاقیات کی حفاظت میں شریک ہوتا ہے ۔جیسا کہ وہ عام راۓ سازی اور زندگی کے تمام پہلؤ ں میں فیصلے کرنے میں بهى معاون ہو تا ہے اور یہ دعوت اسلام کے بنیادی وسائل میں سے ایک ہے جسے ہر جگہ اور زمانے میں عام مسلمانوں كيلۓ عمومی طور پر اورداعیان اسلام کے لۓ خاص طور استعمال کرنا لازم ہے۔

خبر رسانی  اور نشر و اشاعت اصلا مباح ہے اور اسپر پانچ قسم کے احکام مترتب ہوۓ ہیں۔واجب، مندوب،مباح، مکروہ اور حرام ۔اور یہ حکم پیش کردہ معلومات ، مستعمل وسیلے اور اس پر  مترتب آثار اور کيۓ جانے والے افعال کے انجام كے مطابق ہوتا ہے۔

خبر رسانی میں اخبار اور ان پر تبصرے افکار اور ان پر بحث و مباحثہ اور اسکے علاوہ دیگر موضوعات پیش کۓ جاتے ہیں اور اس پر لازم ہے کہ وہ ان اقدار وآداب اور قانون کی پابندی کرے جو اسکے عدم انحراف اور اسکے پیغام کی کامیابی کی ضمانت ہیں ان میں سے کچھ یہ ہیں۔

 (1)   اخبار نقل کرنے میں سچائی اور حقیقت معلوم کرنے کی پابندی کرنا، صحافی كا مقابلے میں کامیابی کے ليۓ (اسے)نشر کرنے میں جلدی نہ کرنا۔

(2)  ان معلومات کا نشر کرنا جو کہ دینی اقدار اور صحیح قوانین کو تقویت دیں اور شاذ اور منحرف افکار کی ترویج سے اجتناب کرنا ۔

(3)   تبصرے اور اآراء كى تنفید میں غیرجانبداری ، بے جا طرفداری اور تعصب نہ کرنا اور آداب کی حدود سے نہ نکلنا۔

(4)   دین کے مقررہ قواعد  کے بارے میں تنقيد سے اجتناب کیونکہ یہ  انکے انکار اور افکار  کے بارے میں افرا تفری کا موجب بنتا ہے ۔

(5)  صحافت کی آزادی مطلق آزادی نہیں بلکہ یہ دینی شعائر ، اخلاق اور صحیح رسم رواج کی جانب سے عائد کردہ قیودات کے پابندی ہے۔

(6) دینی حوالے سے لکھنے اور شائع کرنے میں شدید اہتمام (کی ضرورت ہے) کیونکہ دین کی وہ تا ثیر ہے جسکا فکر کی درستگی اور سلوکیات کی اصلاح کرنے میں کوئی مقابلہ نہیں۔

  (7) اسلام دشمنی میں معروف اداروں میں کام کرنے سے اجتناب کرنا جبکہ انکے اعمال میں ظلم وستم اور عدوان کے مظاہر ہوں ،اور ان اداروں میں کام کرنے سے باز رہنا جو کہ شرعی طور پر ممنوعہ اعمال پر قائم ہیں جیسے رذائل اور فحاشى کے ليۓ خاص کردہ میگزین اور ٹی وی چینل وغیرہ۔

مکمل طور پر یا اکثر شرعی قواعد کی پابندی کرنے والے اخباروں میں کام کرنا جائز ہے اور اگر اس میں حرام اور فتنہ انگیز مواد کا غلبہ ہو تو کام کرنا جائز نہیں۔

ڈاکٹر انس ابو شادی