اسلامى ٹيليفون سروس كى بنياد عرب جمہوريہ مصر ميں 2000ء ميں ڈالى گئى، يہ اعتدال پر مبنى دينى خدمت ہے. |    
 
 
   
English عربى الاتصال بنا روابط اخرى فتاوى شائعة من نحن Q & A الرئيسية
 
   
سوال اور جواب --> دوازدهم حلال و حرام --> انبیاء اور صحابہ کرام کی شخصیت کی اداکاری  

سوال : انبیاء اور صحابہ کرام کی شخصیت کی اداکاری کے بارے میں حکم دریافت کیا گیا۔  

خلاصہ فتویٰ: مسلمانوں اور کافروں کے درمیان ہوئے واقعات کی اداکاری میں برائی اس کی اچھائی پر غالب رہتی ہے۔ اس کے فساد (نقصانات) فوائد سے زیادہ ہوتے ہیں۔ اگر ایسا ہو تو اسے روکنا واجب ہے اور اس کے بارے میں سوچ و فکر کو بھی ختم کردینا چاہئے۔
                                                 

اللجنۃ الدائمہ للبحوث العلمیہ والافتاء ٣/١٩٧۔١٩٨


تبصرہ:  

مذہبی قرآنی قصوں اور کہانیوں کو جدید انداز اور زبان میں پیش کرنا اورا نہیں ہماری اولاد کے ذہنوں کے قریب لانا اچھا ہے۔ بجائے اس کے کہ وہ دوسری اقوام کی کہانیاں اور قصہ دیکھےں جن سے ان کے ذہن خراب اور وہ خود انتشار کا شکار ہوتے ہیں۔ انبیاء /رسل اور اولیاء اس سے کہیں بالا اور اکرم اور اشرف ہیں کہ کوئی انسان ان کی اداکاری کرے یا شیطان ان کے روپ میں ظاہر ہو ۔        

علمی رد:

اللہ رب العزت کے انبیاء اور رسل انسانوں میں اس کے بہترین چنیدہ بندے ہیں، وہ اس اعلیٰ مقام و مرتبہ کے باعث اس سے کہیں زیادہ معزز و مکرم ہیں کہ ان کی نقل اتاری جائے(اداکاری کی جائے) ۔ یا کوئی یا شیطان ان کا روپ یا بھیس اختیار کرے ۔ اللہ رب العزت نے رسالت سے قبل اور بعد میں ہر ہر صغیرہ و کبیرہ گناہوں سے انہیں دور رکھا اور ان کی حفاظت فرمائی۔ اور اس کی دلیل وہ حدیث شریف ہے جو امام بخاری نے حضرت ابو ہریرہ سے رسول اکرم - صلى الله عليه وسلم- سے روایت کی ہے :آپ - صلى الله عليه وسلم- نے فرمایا: "مَنْ رَآنِى في الْمَنَامِ فَقَدْ رَآنِي، فَإِنَّ الشَّيْطَانَ لاَ يَتَمَثَّلُ في صُورَتِي ترجمہ: ''جس نے خواب میں میری زیارت کی اس نے میری زیارت کی اور شیطان میری ہم شکل نہیں بنتا ''([1]) یہ حدیث شریف اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ شیطان سرور کونین رسول اللہ - صلى الله عليه وسلم- کی صورت میں ظاہر نہیں ہوتا جاگتے ہوئے یا سوتے ہوئے اللہ رب العزت نے اپنے رسولوں کی شخصیت ، ذات اور نفوس کی حفاظت کے بعد ان کی سیرت کی حفاظت بھی فرمائی۔ اگرچہ یہ حدیث شریف ہمیں بتاتی ہے کہ اللہ رب العزت نے خاتم الرسول حضرت محمد مصطفی - صلى الله عليه وسلم- کی حفاظت فرمائی کہ شیطان آپ - صلى الله عليه وسلم- کی صورت نہیں بنا سکتا تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ یہ ہر انسان کےلئے حرام ہے کہ وہ آپ - صلى الله عليه وسلم- کی شکل بنائے اور آپ - صلى الله عليه وسلم- کا کردار ادا کرے۔ اگرچہ یہ حکم اور فقہ خاتم النبین حضرت محمد مصطفی - صلى الله عليه وسلم- کے حق میں ہے تو آپ - صلى الله عليه وسلم- سے پہلے مبعوث ہوئے تمام رسولوں کےلئے بھی یہی حکم ہے کیونکہ قرآن کریم اعزاز و تکریم ،عصمت اور حفاظت کےاعتبار سے تمام انبیاء اور رسولوں کو ایک ہی درجہ دیتا ہے۔ اور جب اللہ رب العزت کی جانب سے ان کی عصمت اور ان کا تحفظ ہے کہ شیطان ان کی شکل اختیار نہیں کرسکتا تو یہی تحفظ اور عصمت صرف شیطان ہی سے نہیں بلکہ اس کا دائرہ تمام بنی نوع انسان تک وسیع ہے ۔ اور کسی بھی انسان کےلئے کسی طرح بھی جائز نہیں کہ وہ رسولوں کی نقل اتارے یاان کی اداکاری کرے۔ کیونکہ انسان کا بھی صفحہ اعمال اور اس کا باطن پاک نہیں(غلطیوں اور گناہوں سے پاک نہیں) اور اللہ رب العزت نے کسی کو غلطیوں ،پست باتوں سے اس طرح محفوظ نہیں رکھا جس طرح کہ اس نے اپنے انبیاء کرام اور مرسلین کی حفاظت فرمائی ہے۔ اللہ رب العزت کا فرمان ہے :﴿آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ كُلٌّ آمَنَ بِاللَّهِ وَمَلائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ (البقرة 285)، ترجمہ: "یقین لایا پیغمبر اُس پر جو کچھ اتارا گیا ہے اس کے پروردگار کی طرف سے اور مومن بھی تمام ایمان لائے اللہ پر اور اس کے سب فرشتوں پر ، اس کے سب کتابوں پر اور اس کے سب پیغمبروں پر".

اسی پر دلالت کرتا ہے .  اور اگر ان کے قصوں میں عقلمندوں کیلئے عبرت ہے جیسا کہ قرآن کریم کی سورۃ یوسف کی آیت نمبر ١١١: "لَقَدْ کَانَ فِیْ قَصَصِھِمْ عِبْرَۃٌ لِّاُولِی الْاَلْبَابِ مَا کَانَ حَدِیْثًا یُّفْتَرٰی"، "البتہ عقلمندوں کیلئے پیغمبروں کے قصوں میں بڑی نصیحت ہے۔ (یہ قرآن)ایسا کلام نہیں کہ بنالیا جاوے "۔ تو انہی شخصیتوں کے قصوں اور واقعات سے عبرت حاصل کی جاتی ہے جنہیں اللہ رب العزت نے اپنا پیغام پہنچانے اور امت کو بچانے کیلئے چن لیا ہو۔ اللہ رب العزت کے برگزیدہ نبی کے اعمال کی اداکاری ایسا شخص کرے جو اس سے پہلے کسی جواری ، شرابی، شراب خانوں کے دلداؤں ، قحبہ گر مرد و خواتین کی اداکاری کرچکا ہو تو ایسی شخص کی اداکاری سے کس طرح استفادہ کرسکتے ہیں۔ مذہبی قرآنی حکایات ، اُس کی زبان اور مضامین کو عصر حاضر کے طریقوں سے پیش کرنا اور اپنے بچوں کے ذہنوں کے قریب لانا اچھی بات ہے۔ بجائے اس کے کہ وہ دوسری اقوام کے قصوں کا مشاہدہ کرےں جو انہیں مذہب سے دور اور انتشار کی طرف آمادہ کرتی ہیں۔ قرآنی مذہبی حکایتوں کو جدید انداز میں پیش کرنا بلا شبہ اچھی بات ہے لیکن اس میں اسلامی آداب اور آیات قرآنی کے احترام کی پابندی کرنا انتہائی ضروری ہے۔ اور واقعات کی عکس بندی ویسے ہی ہو جیسا کہ قرآن کریم نے بیان کیا ہے۔ اُس نبی کی شخصیت کو ظاہر نہ کیا جائے جس کے ، اُن کی اقوام کے ساتھ پیش آئے واقعات کو ہم پیش کررہے ہیں اور کوئی شخص بھی اُن کی اداکاری نہ کرے بلکہ ہم اُن کے پیغام کو قوم کو دیئے دلائل ، حجت اور اُن کے معجزات کو صرف سنے جیسا کہ قرآن کریم میں وارد ہوا ہے۔ اللہ رب العزت ہی صحیح راہ کی طرف ہدایت دینے والا اور وہی توفیق دینے والا ہے۔([2])

                                                                                    ڈاکٹر یاسر عبدالعظیم


[1] البخاری ١١٠.     

[2] فتاویٰ دارالافتاء المصریۃ : الموضوع (١٢٩٢) المفتی : الشیخ جاد الحق علی جاد الحق ٧ شوال ١٤٠٠ ھ ۔ ١٧, گست١٩٨٠ء.