خلاصہ فتوی:
عقیدے اور اخلاق پر ٹیلی ویژن کے نقصانات پر ، ان میں
گانے، موسیقی اور تصویریں ہونے نیز اسی طرح کے دیگر
منکر امور دکھائے جانے کی وجہ سے اسے دیکھنا جائز
نہیںہے۔
الشیخ ابن باز: مجموعہ فتویٰ ٣/٢٢٧
تبصرہ:
اگر ٹیلی ویژن
مفاسد سے محفوظ ہو تو مفید پروگرام کا مشاہدہ کرنا اور
ا سے رکھنا جائز ہے۔ اور اگر ٹیلی ویژن کے مفاسد سے
محفوظ نہ رہا جائے تو اسے اپنے یہاں رکھنا اور اسکا
مشاہدہ کرنا جائز نہیں۔
علمی رد:
ٹیلی ویژن پر
ایسی متعدد معلومات پیش کی جاتی ہیں کہ ان آلات کے نہ
ہونے کی صورت میں ان معلومات کا حصول بہت سے لوگوں کے
لئے مشکل ہوتا ہے یہ معلومات اور پروگرام اصلاً جائز
ہوتے ہیں۔ اور انسانی عقیدے اور اخلاق پر ان کے منفی
اثرات مرتب نہیں ہوتے۔ اور اگر یہ نقصان دہ نہ ہو تو
ان کا سننا اور مشاہدہ کرنا جائز ہے۔ اور اگر ٹیلی
ویژن پر پیش کئے جانے ولاے پروگرام اس کے برعکس ہو ںتو
یہ ممنوع ہیں اور اس کی ذمہ داری مشاہدہ کرنے والے اور
پروگرام پیش کرنے والے دونوں پر عائد ہوتی ہے۔ اس کے
بارے میں اکثر یہ دریافت کیا جاتا ہے کہ اس میں ناچنے
والی عورتوں ، اداکاراؤں اور دوسری عورتوں کو دکھایا
جاتا ہے۔ جو اپنی زیب و زینت اور سنگھار کو ظاہر کرتی
ہیں۔ اور جسم کے اُن حصوں کو کھلا رکھتی ہیں جنہیں
ڈھاپنے کا اللہ رب العزت نے حکم دیا ہے۔ تو اس کے جواب
میں یہ کہا جاتا ہے کہ مشاہدہ کرنے والا عورتوں کو
نہیں دیکھتا بلکہ ان کی تصویروں کو دیکھتا ہے ۔ ٹیلی
ویژن کے آنے سے پہلے فقہاء کرام نے آئینہ میں عورت کی
صورت کو دیکھنے کے حکم کے بارے میں اپنی آرا ء کا
اظہار کیا تھا آیا آئینہ میں عورت کی شبیہہ دیکھنا
عورت کو دیکھنے کے حکم میں آتا ہے یا نہیں؟اس کے بارے
میں اُن کی آرا ء مختلف ہےں۔ راجح رائے یہ کہ اگر یہ
شہوت کے ارادے سے ہو تو یہ جائز نہیں۔ کیونکہ یہ
ممنوعہ امر اور بڑی معصیت اور گناہ میں مبتلا ہونے کا
ذریعہ ہے۔ اس طرح کا ہر مشاہدہ اور فعل دونوں حرام
ہیں۔ خواہ یہ براہ راست ہو یا آئینہ کے واسطہ سے ہو۔
اور اگر معیار اور وجہ فتنہ ہو تو لوگوں میں اس امر
میں اختلاف ہے کہ کس میں فتنہ ہے اور کس میں فتنہ
نہیں۔ ہر شخص اپنے آپ سے زیادہ واقف ہے۔ بے ضرر اور
اچھے کھیلوں نیز ڈراموں کے مشاہدہ کے جائز ہونے کی
دلیل وہ حدیث شریف ہے جو امام بخاری اور امام مسلم نے
( اُم المومنین حضرت) عائشہ صدیقہ (رضی اللہ تعالیٰ
عنہا) سے روایت کی ہے۔ انہوں نے کہا : میں نے نبی اکرم
- صلى الله عليه وسلم- کو دیکھا کہ آپ - صلى الله عليه
وسلم- مجھے اپنی چادر مبارک میں چھپائے ہوئے تھے اور
میں حبشیوں کو دیکھ رہی تھی جو کھیل رہے تھے اور میں
نو عمر تھی۔ تم بھی (اے مسلمانوں ) نو عمر لڑکی جو
کھیلنے پر مفتون ہو، کی قدر کیا کرو۔ ایک دوسری روایت
کا مفہوم ہے :حبشی عید کی خوشی میں نیزے ہلا ہلا کر
پہلوانی کے کرتب دکھا رہے تھے۔ ( اُم المومنین حضرت)
عائشہ صدیقہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) نے یہ کرتب دیکھنا
چاہا تو آپ - صلى الله عليه وسلم- آگے اور وہ پیچھے
کھڑی ہوگئیں۔ اور جب تک وہ خود تھک کر نہ ہٹ گئیں آپ-
صلى الله عليه وسلم- برابر اوٹ کئے کھڑے رہے۔
کتاب المطالب
العالیہ از ابن حجر ([1])میں
ہے کہ ( اُم المومنین حضرت) عائشہ صدیقہ (رضی اللہ
تعالیٰ عنہا) در گلہ نامی کھیل دیکھتی تھیں یہ بچوں کے
مارنے کے کھیلوں میں سے ایک ہے اور یہ بھی کہا گیا کہ
یہ رقص ہے ۔ اسلام نے بے ضرر لطف اندوزی کی اجازت دی
ہے۔ اور اس کی تاکید اس حدیث شریف سے ہوتی ہے کہ رسول
اللہ - صلى الله عليه وسلم- نے (حضرت )ابو بکر صدیق
(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے اس وقت جب کہ حضرت ابو بکر
صدیق (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے اُن بچیوں کو گانے سے
منع کیا جو ( اُم المومنین حضرت) عائشہ صدیقہ (رضی
اللہ تعالیٰ عنہا) کے لئے عید کے دن گارہی تھیں ، یہ
فرمایا کہ: "دعهن يا أبا بكر فإنها أيام عيد، لتعلم
اليهود أن في ديننا فسحة، وإنى أرسلت بالحنيفية
السمحة"
اے
ابو بکر انہیں گانے دو یہ عید کے ایام ہیں تاکہ یہودی
جان لیں کہ ہمارے مذہب میں خوشی ہے اور میں رواداری
والے دینِ حنیف کے ساتھ بھیجا گیا ہوں۔ یہ حدیث امام
احمد نے ( اُم المومنین حضرت) عائشہ صدیقہ (رضی اللہ
تعالیٰ عنہا) سے روایت کی ہے۔
یہاں یہ کہنے کی چنداں ضرورت نہیں کہ رسول اللہ - صلى
الله عليه وسلم- نے (اُم المومنین حضرت) عائشہ صدیقہ
(رضی اللہ تعالیٰ عنہا) کو حبشہ کھیل دیکھنے اور گیت
سننے کی اجازت اس وجہ سے دے دی تھی کہ وہ ابھی کم سن
اور بالغ نہیں تھیں۔ یا ان پر حجاب (پردہ) فرض اور
کھیل ممنوع ہونے سے پہلے تھا۔ اور اگر ایسا ہوتا تو اس
حکم کے بارے میں فقہاء کے درمیان اختلاف نہیں ہوتا۔ ([2])
ڈاکٹر
عبداللہ الفقیہ کی زیر نگرانی مرکز فتویٰ کی رائے:
ٹیلی ویژن
رکھنے اور اس کا مشاہدہ کرنے کا بیان اس سے پہلے ہوچکا
ہے ۔ سابق جواب نمبر ١٨٨٦ ۔ ہمارا فیصلہ یہ ہے کہ اگر
ٹیلی ویژن کے مفاسد سے محفوظ رہا جائے تو مفید پروگرام
دیکھنا اورٹیلی ویژن رکھنا جائز ہے اور اگر اس کے فساد
اور خرابیوں سے بچا نہ جاسکے تو اسے رکھنا اور اسکا
مشاہدہ کرنا جائز نہیں۔ ([3])
ڈاکٹر یاسر
عبدالعظیم
[1]
المطالب العا لیۃ از ابن حجر جلد ٤ صفحہ نمبر
١٢٨.
[2]
فتاویٰ دارلافتاء المصریہ : الموضوع (٧٢)
المفتی فضیلۃ الشیخ عطیۃ صقر مئی ١٩٩٧ء.
[3]
د عبداللہ الفقیہہ کی زیر نگرانی فتویٰ مرکز:
فتویٰ نمبر ١٥٧٠٢ تاریخ فتویٰ ٩ صفر ١٤٢٣ھ.