اسلامى ٹيليفون سروس كى بنياد عرب جمہوريہ مصر ميں 2000ء ميں ڈالى گئى، يہ اعتدال پر مبنى دينى خدمت ہے. |    
 
 
   
English عربى الاتصال بنا روابط اخرى فتاوى شائعة من نحن Q & A الرئيسية
 
   
سوال اور جواب --> دوازدهم حلال و حرام --> فوٹو گرافی تصویروں ، مجسموں اور بچوں کے کھلونوں کا حکم  

سوال : فوٹو گرافی ، تصویروں ،مجسموں اور بچوں کے کھلونوں کے حکم کے بارے میں بارے دریافت کیا گیا۔  

خلاصہ فتویٰ: ذی روح (جاندار) کی تصویر بنانا حرام ہے۔ خواہ یہ مجسم ہو یا کاغذ یا کسی اور چیز پر ہاتھ یا آلے سے بنائی گئی ہو۔ اور تصویر کی کمائی حرام ہے۔ اور اسے دیواروں پر لٹکانا یا یادگار کے طور پر انہیں رکھنا حرام ہے۔ جس جگہ تصویریں ہو وہاں یا جن کپڑوں پر تصویریں ہو انہیں پہن کر نماز پڑھنا جائز نہیں سوائے ضرورت کے۔ بچوں کی گڑیا حرام ہیں۔ ضرورت کیلئے مثال کے طور پر پاسپورٹ اسی طرح ویزا کے امور کے لئے تصویر کھنچوانے کی اجازت دی جاتی ہے۔                                                  

اللجنۃ ادائمۃ للبحوث العلمیہ والافتاء ١/٤٥٥۔ ٤٥٧ 


تبصرہ:

انسان اور جانوروں کی فوٹو گرافی تصویروں یا ہاتھـ سے تصویریں یا تصویر بنانے میں کوئی حرج نہیں بہ شرطیکہ لوگوں کیلئے مفید علمی مقاصد کیلئے کی گئی ہوں۔ تصویریں اور رسوم تعظیم کے مظاہر اور تکریم و عزت کے خیالات یا فواحش اور ممنوعہ امور کے ارتکاب کے خاطر خواہشات کو ابھارنے سے خالی ہوں۔ اور جاندار کا پورا مجسمہ جائز نہیں ۔ بچوں کی تعلیم اور ان کی تفریح کیلئے بچوں کے کھلونوں خواہ یہ مجسموں کی صورت میں ہو استعمال کرنا جائز ہے۔

علمی رد:

ایک بت پرست قوم اور معاشرے میںرسول اللہ -صلى الله عليه وسلم-  پر قرآن کریم نازل ہوا۔ یہ قوم اپنے بت تراش کر خانہ کعبہ کے اطراف رکھتی تھی وہ تصویریں بناتے اور اُن کی عبادت کرتے تھے۔ رسول اللہ -صلى الله عليه وسلم-  نے اپنی بہت سی احادیث میں تصویروں اور انہیں بنانے کی مذمت کی ہے۔ غالباً یہ اللہ رب العزت کی تخلیق سے مشابہت اور اسے چھوڑ کر اِن تصویروں اور بتوں کی عبادت کرنے کی وجہ سے ۔ امام بخاری اور حدیث شریف کی کتابوں کے دیگر مؤلفین کی روایت کردہ احادیث شریف اسی مفہوم پر دلالت کرتی ہیں ۔ فقہاء کی کتابوں میں بار بار آیا ہے کہ انسانوں اور جانوروں کی اس وقت معروف ضوئی تصویر اور ہاتھ کی بنائی ہوئی تصویر اگر لوگوں کیلئے مفید علمی مقاصد کیلئے ہوں تو ان میں کوئی حرج نہیں۔اور یہ تصویریں اور خاکے تعظیم کے مظاہر ، عزت و تکریم کے خیالات اور عبادت سے خالی ہوں اسی طرح یہ تصویریں ممنوعہ جنسی خواہشات کو ابھارنے ، فحاشی کو پھیلانے ، ممنوعہ باتوں کے (حرام افعال) کے ارتکاب پر آمادہ کرنے والے عوامل سے پاک ہوں۔
جہاں تک سنگ تراشی اور کھدائی کے کام جن سے جاندار کا پورا مجسمہ تیار ہوتا ہے كا تعلق ہے  تو یہ حرام ہے۔ امام بخاری اور امام مسلم نے (حضرت) مسروق سے روایت کی ہے: انہوں نے کہا: ہم عبداللہ کے ساتھ ایک گھر میں داخل ہوئے جس میں مجسمے تھے انہوں نے ان میں سے ایک مجسمہ کے بارے میں کہا : یہ کس کا مجسمہ ہے؟ انہوں نے کہا: یہ (حضرت) مریم کا مجسمہ ہے، (حضرت) عبداللہ نے کہا: رسول اللہ -صلى الله عليه وسلم-  نے فرمایا: "إن أشد الناس عذابا يوم القيامة المصورون
، وفي رواية الذين يصنعون هذه الصور يعذبون يوم القيامة يقال لهم أحيوا ما خلقتم''، "روز قیامت مصوروں کو شدید ترین عذاب دیا جائے گا''۔ ایک اور روایت میں ہے کہ: ''ان تصویروں کو بنانے والوں کو روز قیامت عذاب دیا جائے گا۔اور ان سے کہا جائے گا ، تم نے جو بنایا ہے اسے زندہ کرو۔ (ان میں جان ڈالو)۔

یہ نص واضح ہے کہ مجسموں کا بنانا گناہ ہے اور اس کی حکمت بت پرستی اور انہیں اللہ رب العزت سے تقرب کا وسیلہ بنانے کا دروازہ بند کرنا ہے۔  امام قرطبی نے اپنی کتاب الجامع لاحکام القرآن میں اللہ رب العزت کے اس فرمان: ﴿یَعْمَلُوْنَ لَہ، مَا یَشَآءُ مِنْ مَّحَارِیْبَ وَ تَمَاثِیْلَ﴾ (سورۃ سبأ آیت نمبر ١٣)، (وہ جنات) اُس کیلئے وہ چیزیں بناتے جو کچھ وہ چاہتا ، اونچے اونچے محل اور تصویریں۔


اسکی تفسیر میں لڑکیوں کے مجسم کھلونوں (گڑ یوں) کو بت تراشی کی حرمت سے مستثنیٰ قرار دیتے ہیں۔ جیسا کہ ثابت ہے کہ( اُم المومنین حضرت) عائشہ صدیقہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) جب دلھن بن کر رسول اللہ - صلى الله عليه وسلم-  کے پاس آئیں اور ان کا کھلونا اُن کے پاس تھا ، وہ رسول اللہ -صلى الله عليه وسلم-  کے سامنے اس کھلونے سے کھیلا کرتی تھیں۔ اور ان کے ساتھ ان کی سہیلیاں بھی ان کے ساتھ کھیلا کرتی تھیں۔ اور جب رسول اللہ - صلى الله عليه وسلم-  تشریف لاتے تو وہ حیاء کرتی ہوئی آپ - صلى الله عليه وسلم-  سے چھپ جاتی تھیں۔ ([1])


ڈاکٹر عبداللہ الفقیہ کی زیر نگرانی فتویٰ مرکز کے مطابق تصویریں ٣ قسم کی ہوتی ہیں:     
(١) جاندار کی مجسم تصویر : یہ شرعی طور پر ممنوع ہے اور اس میں اختلاف نہیں ہونا چاہئے۔

 (٢)ہاتھـ سے بنائی ہوئی جاندار کی غیر مجسم تصویر : یہ تصویر اللہ رب العزت کی تخلیق کے مشابہہ ہونے کے ضمن میں آتی ہے اس وجہ سے اکثر اہل علم نے اس سے منع کیا۔ اور بعض علماء نے اس کی اجازت دی ہے۔

 (٣) عکسی تصویر: یہ کیمرے اور ویڈیوں کی تصویریں ہوتی ہیں۔ ان کے بارے میں اہل علم کے درمیان اختلاف ہے۔ بعض اسے جائز قرار دیتے ہیں اور بعض اس سے روکتے ہیں۔ ہم اس کے جائز ہونے کی طرف مائل ہیں ۔ ([2]) واللہ اعلم.

                                                                                       ڈاکٹر یاسر عبدالعظیم


[1] اسے امام مسلم نے روایت کیاہے.

[2] فتاویٰ دارالافتاء المصریہ : موضوع (١٢٧٩) المفتی: فضیلۃ الشیخ جاد الحق علی جاد الحق جمادی الآخر ١٤٠٠ھ ، ١١ مئی ١٩٨٠ء (٢)    
ڈاکٹر عبداللہ الفقیہ کی زیر نگرانی فتویٰ مرکز : فتویٰ نمبر ٦٨٠ تاریخ فتویٰ ١٦ صفر ١٤٢٠ھ ۔ اور شیخ عثیمین کے فتووں میں ہے (٢/٣١٨)فوٹو گرافی تصویریں جو آج ہم دیکھتے ہیں فوری طور پر آلہ تیار کرتا ہے اور اس تصویر کی تیاری میں انسان کا کوئی عمل نہیں ہوتا ہمارے خیال میں یہ تصویر بنانے کے ضمن میں نہیں آتی اور احادیث شریف میں جن تصاویر کا ذکر ہے وہ وہ تصویریں ہیں جو بندے کے فعل سے ہوں۔ اور وہ اس سے تخلیق خدا سے مشابہہ ہوتا ہو۔ اور یہ بات آپ کے سامنے اس طرح واضح ہوجاتی ہے کہ اگر کوئی شخص آپ کو خط لکھے اور فوٹو گرافی کے آلے سے اس کی تصویر لے لی جائے تو اس خط کی تصویر سامنے آتی ہے تو یہ خط جو تصویر ہے اس شخص کا عمل نہیں جس نے آلہ استعمال کیا اور اس آلہ کو حرکت دی۔ کیونکہ یہ شخص جس نے آلے کو حرکت دی ممکن ہے کہ وہ بنیادی طور پر لکھنا ہی نہ جانتا ہو۔ اور لوگ یہی جانتے ہیں کہ یہ پہلی تحریر ہے۔ اور دوسری تحری میں آلہ کو حرکت دینے والے کا کوئی عمل نہیں۔ لیکن یہی آلہ ممنوعہ مقاصد کیلئے تصویر بنائے تو وسائل کے حرام ہونے کی وجہ سے تصویر حرام ہوگی۔ انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ جدید ذرائع سے تصویر بنانے کی دو قسمیں ہیں۔ پہلی قسم کی تصویر کشی میں کوئی منظر ، مشہداور مظہر نہیں ہوتا جیسا کہ ویڈیوں تصویر کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ تو یہ مطلق حرام کے دائرے میں نہیں آتی۔ اس وجہ سے کیمرے سے کاغذ پر تصویر لینے والے کو منع کرنے والے علماء نے اس کی اجازت دی ہے۔ اور انہوں نے کہا: اس میں کوئی حرج نہیں۔ الشرح الممتع ١/١٩٧۔١٩٩.