اسلامى ٹيليفون سروس كى بنياد عرب جمہوريہ مصر ميں 2000ء ميں ڈالى گئى، يہ اعتدال پر مبنى دينى خدمت ہے. |    
 
 
   
English عربى الاتصال بنا روابط اخرى فتاوى شائعة من نحن Q & A الرئيسية
 
   
سوال اور جواب --> عقيده --> سلاسل طريقت    

سوال : سلاسل طريقت (صوفياء کرام کے سلسلوں) کي پيروي کے بارے ميں سوال کيا گيا؟  

خلاصۃ فتوی: متصوفين کے سلسلے بعد ميں شروع کئے گئے ہيں (يعني بدعتي سلسلے ہيں) اور اھل اسلام کيلۓ جائز نہيں کہ وہ بدعتي سلسلوں کي اتباع کريں-

شيخ ابن باز مجلۃ البحوث شمارۃ 39-145-148

تبصرہ:

طريقت (صوفياء کرام) کے سلسلے در حقيقت تربيتي مدارس ہيں اگر انکا طريقہ واسلوب دين کے مطابق ہو تو يہ مشروع (جائز) ہيں وگرنہ جائز نہيں، يہ تمام علماء کرام کي رائے ہے اور انہي ميں ابن تيميہ بھي ہين، اور کوئي بھي عالم دين تمام صوفياء کرام پر گہر رہي يا بدعت کا حکم نہيں لگاتا، جيسا کہ اس فتوی ميں دعوی کيا گيا ہے، بلکہ علماء کرام اسميں فرق کرتے ہيں.

علمي رد:

طريقت کے سلسلے عمومي طور پر تربيتي مدارس ہيں اگر انکا اسلوب اور طريقہ مذھب، عقيدے اور شريعت کے مطابق ہو تو يہ جائز ہيں وگرنہ غير مشروع ہيں اور اسے حکمت اور موعظت حسنہ (اچھي پند ونصيحت) سے انکي اصلاح کرنا واجب ہے.

ابن تيميہ نے ايک بيان ميں کہا کہ اھل تصوف ميں سے کچھـ علم دين اورمذھب کے ائمہ ہيں-([1] ) اور باوجود اسکے اس ميں صراط مستقيم پر قائم عارفين مشايخ ،صوفیاء کے قلبی اعمال کے بارے فرمودانت ہيں جو کتاب وسنت کے عين مطابق ہيں، اسکے علاوہ عبادات اور ادب سے متعلق بھی انکا کلام ہے جو کتاب وسنت کے مطابق ہے([2]).

اور انہوں نے يہ بھی کہا کہ امت کے مشہور صوفياء کرام جن کا امت ميں ذکر خير ہوتا ہے وہ اس قسم کي باتوں کو پسند نہيں فرماتے بلکہ ان سے روکتے ہيں([3]).

ابن تيميہ نے ذکر کيا ہے کہ صوفياء کے لۓ وقف (مال يا جائيداد مخصوص کرنا) صحيح ہے، انہوں نے کہا: صوفيا کرام کيلۓ وقف کرنا صحيح ہے، چنانچہ جو شخص محض مال جمع کرنے والا ہو اور پسنديدہ اخلاق کا مالک نہ ہو ، شرعی آداب سے عاری اور گھٹيا عادات اس پر غالب ہوں يا وہ فاسق ہو تو وہ (وقف ميں سے) کسی چيز کا بھی مستحق نہيں ہوتا ہے-([4]).

اگر صوفياء کے تمام سلسلے بدعتي ہوتے جيسا کہ اس فتوی ميں کہا گيا ہے ، تو ائمہ کرام انکے لۓ وقف صحيح قرار نہ دیتے.

اور انہوں نے يہ بھی کہا کہ عقل صريح اور کشف صحيح والے مشائخ فقہ اور عبادتگزار جنکا امت ذکر خير کرتی ہے ، يہی علم اور مذھب کے ائمہ ہيں اور وہ تمام ائمہ علم اور مذھب جنکا امت ميں عام طور پر ذکر خير ہوتا ہے يہی لوگ فقہ اور تصوف کی طرف منسوب ہيں-([5]).

ان عبارتوں ميں يہ بيان ہيکہ اھل تصوف ہی علم اور دين کے ائمہ ہيں، اور امت ميں انکا ذکر خير کيا جاتا ہے يہ ابن تيميہ کا کلام ہے جنکے بارے ميں اکثر لوگ گمان کرتے ہيں کہ وہ اھل تصوف کی مطلقا مخالفت کرتے ہيں.

 

ڈاکٹر عبداللہ فقيھ کی زير نگرانی فتوی مرکز کے فتوے ميں آيا ہے:

جب صحابۂ کرام اس دنيا سے تشريف لے گۓ اور دنياوی امور انسانی زندگی ميں داخل ہوگۓ، کھانے پينے، لباس، اسی طرح کی دوسری اشياء کی فراوانی ہوئی تو لوگوں کو اس دنيا ميں زہد و تقوی اور ہر مشتبہ بات سے دور رہنے پر خلوص عبادت ،مجاھدہ نفس کی پر زور دعوت دی گئی، انہيں اچھے اخلاق سے مزين کيا گيا اسکے بعد ان عبادتگزار بندوں کو زاہد کا نام ديا گيا آگے چل کر انہي کو صوفياء کا لقب ديا گيا انہی شخصيات ميں سے حضرت ابو سليمان دارانی، حضرت معروف کرخی ، حضرت فضيل بن عياض ، حضرت سھل بن عبداللہ تسترى اور حضرت جنيد ہيں.

اوائل صوفياء کرام نے کوئی نئی بات پيش نہيں کی بلکہ انہوں نے اسى کی دعوت دی جسکی دعوت رسول کريم صلی اللہ عليہ وسلم- اور آپ صلی اللہ عليہ وسلم- کے صحابہ کرام نے دی تھی- ايک طرف تو يہ بات ہے اور جہاں تک بعض علماء حديث کی کسی سلسلۂ طريقت سے وابستگی کا تعلق ہے تو وہ تزکيہ نفس ميں مشغول رہنے والے عبادتگزاروں اور زاہدوں کے طريقے پر ہيں، چنانچہ انکی تعريف کی جاتی ہے اور وہ لوگ جو کہ خرافات اور انحرافات کے راستے پر چلے وہ شرک اور بدعت ميں ملوث ہو‎ۓ تو ان لوگوں کا کوئی عمل حجت نہيں ہے-([6]). اللہ اعلم بالصواب.

ڈاکٹر محمد فؤاد


[1] امام غزالی کي احياء علوم الدين ميں ہے.

[2] الفتاوی الکبری ج 5 صـ 86.

[3] الفتاوی الکبری ابن تيميہ 1/ 294.

[4] الفتاوی الکبری 5/ 425.

[5] الفتاوی الکبری 6/ 625.

[6] فتوی مرکز زير نگرانی ڈاکٹر عبداللہ فقيہ ، ج 9 صـ 3735 ۔ فتوی نمبر 64733 تاريخ فتوی ۔ جمادی الثانی 1426هـ.