اسلامى ٹيليفون سروس كى بنياد عرب جمہوريہ مصر ميں 2000ء ميں ڈالى گئى، يہ اعتدال پر مبنى دينى خدمت ہے. |    
 
 
   
English عربى الاتصال بنا روابط اخرى فتاوى شائعة من نحن Q & A الرئيسية
 
   
سوال اور جواب --> عقيده --> اسلام سے خارج كرنے والے دس امور اور معصيت پر اصرار كرنے والے شخص كى تكفير كرنا    

سوال : اسلام اور كفر كے درميان حد فاصل(فرق) كيا ہے؟ اور كيا وه شخص جو زبان سے كلمہء شهادت (دو شهادتيں) ادا كرنے كے بعد اسكے منافى اعمال كا مرتكب ہو تو كيا وه اپنے روزوں اور نمازوں كى ادائيگى كے باوجود كفاركے زمرے ميں شامل كيا جائے گا؟ اور معصيت پر اصدار كرنے والے كا كيا حكم ہے.  

خلاصہء فتوى: اسلام سے خارج كرنے والے دس امور:

1-     شركـ..

2-     الله تعالى اور اسكے بندوں كے درميان واسطے بنانا.

3-     مشركين كى تكفير نہ كرنا.

4-     كسى شخص كے كلام اور حكم كو حضور صلى الله عليہ وسلم كے كلام اور حكم كو ترجيح دينا.

5-     رسول كريم صلى الله عليہ وسلم كے رائے ہوئے دين كى كسى بات سے بغض ركهنا.

6-     دين اسلام كى كسى بات كا مذاق اڑانا.

7-     جادو.

8-     مسلمانوں كے خلاف مشركين كى مدد ومعاونت كرنا.

9-     يہ عقيده ركهنا كہ بعض لوگ ايسے بهى ہيں جن پر حضور صلى الله عليہ وسلم كى اتباع واجب نہيں ہے.

10-  الله تعالى كے دين سے روگردانى، اسكى تعليم حاصل نہ كرنا اور نہ ہى اس پر عمل كرنا.

                                           (شيخ محمد بن عبد الوهاب. الدرر السنية ط 5(10/ 91)

معصيت پر اصرار كرنے والا شخص وه ہے جو يہ جانتا ہے كہ يہ گناه ہے چنانچہ يہ حلال سمجهنا ہوا اور يہ اسكا ظاہرى كفر ہے گويا وه يہ كہتا ہے. سود، ميں جانتا ہوں كہ يہ حرام ہے ليكن ميں يہ لونگا اور زنا،  حرام ہے ليكن ميں اسے كرونگا چنانچہ يہى حلال قرار دينا ہے اسميں واضح طور پر جائز ٹہرانے كى خواہش ہے اس جيسے شخص كے كفر ميں كوئى شكـ نہيں.

          (ابو اسحاق الحوينى  اتباع اور اسكے اثر كے زير عنوان انكى ٹيپ)

 

تبصره:

يہ فتوى غير دقيق يعنى مكمل طور پر صحيح نہيں ہے يہ عام اور انشائيہ عبارتوں ميں لكها ہوا ہے جو كہ انتهائى خطر ناكـ نتائج كا موجب ہوتى ہيں. كيونكہ اس سے ان مذهبى لوگوں كيلئے مسلمانوں كى تكفير كے دروازے پورے طور پر كهل جاتے ہيں جو اسكى عبارتوں كو غلط سمجهـ كر اس پر عمل كرتے ہيں.

چنانچہ كسى بهى غافل انسان كے بارے ميں يہ كہا جا سكتا ہے كہ وه لاپروا ہى كا شكار يعنى وه الله تعالى كے دين سے روگردانى كرتا ہے ، نہ تو اسكى تعليم حاصل كرتا ہے اور نہ ہى اس پر عمل كرتا ہے جيسا كہ اس فتوے ميں كہا گيا ہے. نتيجہ كے طور پر وه كافر ہوگا. مثال كے طور پر اگر كوئى شخص علمى دروس ميں بلائے جانے كے باوجود حاضر نہيں ہوتا. يا وه حضور نبى كريم صلى الله عليہ وسلم كے كلام اور حكم پر كسى اور كے كلام اور حكم كو ترجيح ديتا ہے تو وه بهى كافر ہوگا.اور اگر اس نے داڑهى منڈائى تب بهى كافر ہوگا-

اور معصيت پر اصرار كرنے والے كى تكفير كرنا خوارج كا مذهب ہے-

علمى رد:

 مسلمان جس سے صغيره يا كبيره گناه سرزد ہو جائيں وه الله تعالى كے اس فرمان كے مطابق دائره اسلام سے خارج نہيں ہوتا ہے.

ارشاد بارى تعالى: ﴿إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ (النساء 116)، ترجمہ: بے شكـ الله تعالى اس(بات) كو معاف نہيں كرتا كہ اسكے سا تو كسى كو شريكـ ٹہرايا جائے اور جو(گناه) اس سے نيچے ہے جيسكے لئے چاہے معاف فرما ديتا ہے.

اور حضرت عباده بن صامت سے مروى حديث مباركہ جسميں رسول كريم صلى الله عليہ وسلم نے فرمايا".....ومن أصاب من ذلك شيئا ثم ستره الله فهوإلي الله إن شاء عفا عنه وإنشاء عاقبه"

اور جس نے ان چيزوں ميں سے كسى كى خلاف ورزى كى پهر الله تعالى نے اسكى پرده پوشى فرمائى تو اسكا معاملہ الله تعالى پر ہے چاہے تو وه اسے معاف فرما دے اور چاہے تو اسے سزا دے([1]).

اور علماء كرام نے بيان كيا ہے كہ بے شكـ كفر بہت بڑى چيز ہے چنانچہ جبتكـ كسى كے كفر نہ كرنے كا احتمال پايا جائے تو مسلمان كى تكفير نہيں جاتى. سوائے اسكے كہ علماء اسكے كسى ايسے عمل پر متفق ہو جائيں كہ جس سے مرتد ہونا واجب ہوتا ہو. اور اسى طرح اس مسلمان كو بهى كافر نہيں كہا جائيگا جسكے كلام اور عمل ميں عدم  كفر پر دور كا احتمال بهى پايا جائے.

حضور نبى كريم صلى الله عليہ وسلم كا ارشاد گرامى ہے: «وَمَنْ دَعَا رَجُلًا بِالْكُفْرِ أَوْ قَالَ عَدُوَّ اللَّهِ وَلَيْسَ كَذَلِكَ إِلَّا جَازَ عَلَيْهِ»، "اور جس نے كسى آدمى كو كافركہ كر پكارا يا(اسے) الله تعالى كا دشمن كہا اور وه ايسا نہيں تها تو اس كا اطلاق اسى(كہنے والے) پر ہوگا".

اور يہ اس كيلئے بہت بڑى وعيد ہے جس نے مسلمانوں ميں سے كسى كو كافر كہا اور وه ايسا نہيں تها. اور يہ ايسا گڑها ہے جسميں تكفير كا حكم لگانے ميں تساهل كرنے والے بہت سے گر چكے ہيں. كيونكہ انكا مخالف حقيقتًا ايسا نہيں تها.

در حقيقت اهل قبلہ ميں سے كسى كى تكفير نہيں كى جاتى سوائے اسكے كہ وه رسول كريم صلى الله عليہ وسلم كى شريعت كا تسلسل سےهم پہنچنے كا انكار كرے. تو اس حالت ميں وه شريعت كو .جهٹلانےوالا ہے.

تو وه شخص جس نے اس چيز كو حلال سمجها جسكے حرام ہونے پراجماع ہے اور مسلمانوں ميں يہ حكم معروف ہے جيسے خنزير كا گوشت، زنا اور اسى طرح كے دوسرے امور جن ميں كوئى اختلاف نہيں، تو اس نے كفر كيا. اور اگر بے گناہوں كے قتل اور كسى شبہ كے بغير انكے مال غصب كرنے جيسے ظاهرى گناہوں كو حلال سمجهتا ہے تويہ كفر كى علّت نہيں. اگرچہ خوارج جيسوں كى تأويل كے مطابق ايسا ہے. ليكن اكثر فقهاء(انہيں) مسلمانوں كے خون اور انكے اموال كو انكى جانب سے حلال جاننے كے باوجود انكے عدم كفر كے قائل ہيں اور بر ممنوعہ امر كو حلال سمجهنے والے شخص پر كفر كى تأويل نہ ہونے كى بناپر يہى حكم لگايا جاتا ہے.

ابن قدامہ نے كہا ہے كہ قدامہ بن مظعون كے بارے ميں مروى ہے كہ انہوں نے شراب كو حلال جانتے ہوئے پى ليا، تو حضرت عمر نے ان پر حد لگادى مگر كفر كا فتوى نہيں لگايا.

اسى طرح حضرت ابو جندل بن سهيل اور انكے ساتهـ ايكـ جماعت نے شام ميں شراب كو حلال سمجهتے ہوئے اسے پى ليا، اور انہوں نے اس آيت كريمہ سے استدلال كيا.

﴿لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِيمَا طَعِمُوا([2])، ترجمہ: ان لوگوں پر جو ايمان رائے اور نيكـ عمل كرتے رہے. اس(حرام) ميں كوئى گناه نہيں جو وه(حكم حرمت اتر نے سے پہلے) كها پى چكے ہيں.

چنانچہ انہيں كافر قرار نہيں ديا. جب انہيں اسكى حرمت سے اگاه كيا گيا تو انہوں نے توبہ كى اور ان پرحد لگائى گئى(اب) جو انكى مانند ہيں ان پربهى انہي جيسا حكم لگايا جائے گا. اسى طرح كسى چيز كا علم نہ ركهنے والا شخص ہو سكتا ہے كہ اس سے نا واقف رہے اس سے اسپر  كفر كا حكم نہيں لگايا جاتا يہاں تكـ كہ وه اسے جان لے اور اسكے بارے ميں شبہ دور ہو جائے اور اسكے بعد وه اسے حلال سمجهے.([3])

ابن قدامہ جيسے اهل علم محققين سے منقول يہ ٹهوس قواعد تكفير ميں جلدى كرنے، اسلام كو توڑنے والے دس خود ساختہ امور جيسى عمومى غير صحيح اور غير دقيق عبارتيں وضع كرنے سے كہيں بہتر ہيں، اور يہى مسلمانوں كى نا حق تكفير ميں مبتلا ہونے كے راستے ہيں اور جنكے چالوں ميں اس زمانے كے بہت سے مذهبى نوجوان گر چكے ہيں اور اسكى وجہ ان عبارتوں كا عمومى، غير صحيح اور كسى بهى دليل وحجت كے بغير تكفير كا دروازه كهولنا ہے. والله أعلم بالصواب.

شيخ ڈاكٹر عبد الوهاب بن ناصر الطريرى كہتے ہيں ابو الحسن الأشعرى كے بارے كسى نے كہا كہ جب انكى وفات كا وقت قريب آ گيا تو انہوں نے كہا. تم شهادت دو كہ ميں كسى بهى اهل قبلہ كى تكفير نہيں كرتا كيونكہ سارے لوگ ايكـ ہى معبود كى جانب اشاره كرتے ہيں. امام ذهبى نے كہا يہى انداز زياده دينى ہے اور همارے شيخ ابن تيميہ اپنے آخرى ايّام ميں اسى طريقے پر تهے. وه كہتے ہيں كہ ميں امت ميں سے كسى كى تكفير نہيں كرتا اور كہتے ہيں كہ رسول الله صلى الله عليہ وسلم نے فرمايا: وضوء كى حفاظت صرف مومن ہى كرتا ہے. چنانچہ وضوء كے ساتهـ نماز كى پابندى كرنے والا مسلمان ہے. اب آپ ان ائمہ كرام ابو الحسن الاشعرى، ابن تيميہ اور امام ذهبى كو ديكهئيے وه فرقوں سے واقف تهے انہوں نے انكے حالات انكى شخصيتوں كے مطالعے كئے اور انكے افكار كے جوابات دئيے چنانچہ يہ لوگ ان فرقوں كے خيالات سے سب سے زياده واقف تهے اسكے باوجود وه كسى كى تكفير كرنے ميں انتهائى محتاط تهے، چانچہ ان كے علاوه دوسرے لوگ جو انكے علم تكـ نہيں پہنچتے اور كسى بهى دليل كے بغير لوگوں كى تكفير كرين انكے بارے ميں آپكا كيا خيال ہے؟ ([4])

ڈاكٹر عبد الله الفقيه كى زير نگرانى فتوى مركز ميں مسلمان كى تكفير نہيں كى جاتى بجز اسكے كہ وه كوئى ايسا قول يا فعل يا عقيده لے كر آئے جو كتاب وسنت كى رو سے بڑا كفر ہو اور وه ملت اسلاميہ سے نكلتا ہو يا علماء كرام كا اتفاق ہو كہ يہ بڑا كفر ہے، كسى مسلمان كى تكفير كفر كى شرطيں پورى ہو نے ، اس راه ميں مانع سارى باتيں ختم  ہونے پر ہى كى جاتى ہے انہيں ميں سے ہے كہ   وه بالغ، عاقل اور خود مختار ہو اور لا علمى يا تأويل جيسا عذر نہ ہو([5]) الله أعلم بالصواب.

ڈاكٹر محمد فؤاد


[1] البخاري، ص 18.

[2] سورة المائدة، ص 93.

5 المغنى ابن قدامة، 9/ 31، حاشہ ابن عابدين ميں ہے كہ كفر بہت بڑى چيز ہے تو جب تكـ كسى كے كفر نہ كرنے كى روايت موجود ہو تو ميں اسے كافر قرار نہيں ديتا ہوں. الخلاصہ وغيره ميں ہے كہ اگر كسى مسئلے ميں اكثر وجوهات كفر ثابت كر رہى ہوں اور ايكـ وجہ كفر سے منع كر رہى ہو تو مفتى پر لازم ہے كہ وه مسلماں پر حسن ظن كى وجہ سے كفر سے منع كرنے والے سبب كى طرف مائل ہو، بزازيہ مزيد بيان ہے كہ اگر وه كفر كے موجب ارادے كا واضح اظہار كرے تو اس كيلئے تأويل سود مند نہيں ہے. اور كتاب التتارخانيہ ميں ہے كہ احتمال كى بنا پر كافر قرار نہيں ديا جاتا كيونكہ كفر آخرى سزا ہے چنانچہ يہ حرام كى  انتهائى آخرى حد كى متقاضى ہوتى ہے. اور احتمال كى كوئى آخرى حد نہيں. اور جو شخص مسلماں پر كفر فتوى ديتے كا عزم كرے  تو اسكى اس بات خوش كن سمجها جاتا ہے يا نيكـ نيتى سمجهى جائے گى، يا اسكے كفر ميں خواه كمزور روايت ہى سے اختلاف ہو اس پر كفر كا فتوى نہيں لگايا جائے گا اسى بنياد پر تكفير كے اكثر مذكوره الفاظ پر عدم كفر كا حكم لگايا جائے گا  اور ميں نے اس امر كفركو اپنے اوپر لازم كيا كہ ان چيزوں ميں سے كسى كے بارے ميں فتوى نہيں دو نگا، كلام البحر باختصار حاشية ابن عابدين، 4/ 334.

[4] فضيلت مآب شيخ ڈاكٹر عبد الوهاب بن ناصر الطربرى، امام محمد بن سعود اسلامى يونيورسٹى كے تدريس عملے سابق ركن. يہ اقتباس"اسلام اليوم" ويب سائيڈ  سے ليا گيا.

[5] ڈاكٹر عبد الله كى زير نگرانى فتوى مركز فتوى نمبر 6، 81.بعنوان: وه امور جن كى بنا پر انسان پر كفر كا حكم لگايا جاتا ہے، تاريخ فتوى، 28 صفر 1422هـ.