بسم لله الرحمن
الرحيم
مقدمھ کتاب:
بقلم پروفيسر ڈاکٹر م رأفت
عثمان
سابق عميد
کليھ
الشريعھ والقانون
جامعع الازھر
الشريف
أحمدالله - - - -
- - إلي يوم الدين.
اللہ تبارک و
تعالی کی حمد و ثنا کرتا ہوں اسی سے معاونت اور ہدايت کا خواستگار
ہوں صلاة و سلام ہو ہمارے آقا و سردار حضرت محمد مصطفی
–
صلی اللہ عليہ وسلم، آپکی اولاد ، اور قيامت تک آپ
–
صلی اللہ عليہ و سلم –
کی اتباع کرنے والوں پر۔
اسلامی ٹيلفون
سروس کی مجلس انتظاميہ کے صدر محترم شريف عصمت عبدالمجيد نے مجھـ
سے کتاب فتاوی اور شريعت کے آسان احکام کا مقدمہ لکھنے کی فرمائش
کی ۔ يہ ملاحظہ کيا گيا ہے بعض فتووں کا انداز بہت سخت ہے جبکہ
احکام ميں آسانی ، اسلامی تشريع کی بنياد ہے ۔ جيسا کہ اللہ رب
العزت نے قرآن کريم ميں ارشاد فرمايا :
﴿يُرِيدُ
اللَّهُ بِكُمْ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمْ الْعُسْرَ﴾
اللہ تعالی
تمھارے حق ميں آسانی چاہتا ہے اور تمھارے ليے دشواری نہيں چاہتا.
ايک اورمقام پر
فرمايا:
﴿وَمَا
جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ﴾
اوراس نے تم
پر دين ميں کوئی تنگی نہيں ركهي.
فقہ اسلامی کا
مسلمہ امر يہ ہے کہ ظنی مسائل ميں کئی آرا ہو سکتی ہيں بشرطيکہ
فقہی رائے شريعت اسلامی کے سر چشموں کے دلائل ميں سے کسی ايک دليل
پر مبني ہو ۔ چنانچہ ہمارے علم کے مطابق فقہ اسلامی کے کسی بھی
امام يا بڑی مشہور شخصيت ميں سے کسی نے اور نہ ہی شرعی علوم کی کسی
بهي غير فقہی شخصيت نے کبھی يہ نہيں کيا کہ اسکی رائےہى حق ہےجسميں
کوئی قابل اعتراض بات نہيں ، بلکہ انکے بارے ميں ہم يقينی طور پر
جانتے ہيں کہ وہ اپنی آراء سے اختلاف کرنے والوں کا مکمل احترام
کرتے تھے ۔ اسوجہ سے ہم فقہ اور ديگر شرعی علوم کی کتابوں ميں کئی
اختلافی آراء پاتے ہيں انکے ساتھـ ساتھـ مؤلف کتاب کے لئے رحمھ
اللہ تعالی اللہ تعالی ان پر رحمت فرمائے جيسے دعائيہ کلمات بھی
ہوتے ہيں ۔
حضرت امام ابو
حنيفھ –
رضی اللہ تعالی عنہ –
کا يہ قول نقل کيا گيا ہے ۔ ہم جانتے ہيں کہ يہ رائے ہے اور ہماری
صلاحيت کے مطابق يہی بہترين رائے ہے پس اگر کوئی اس سے بہتر لائے
تو ہم اسے قبول کرتے ہيں ۔
حضرت امام شافعی
–
رضی اللہ تعالی عنہ –
کا يہ قول نقل کيا گيا ہے : ميری صحيح رائے ميں غلطی کا امکان ہو
سکتا ہے ، دوسرے کی غلط رائے صحيح ہو سکتی ہے ۔
رسول اللہ
–
صلی اللہ عليہ و سلم –
کے بعد کسی کا قول غلطی سے محفوظ نہيں ہے ( يعنی پر ايک سے غلطی
ممکن ہے ) اس سلسلہ ميں ہم ديکھتے ہيں کہ حضرت عبداللہ بن عباس ،
عطاء ، مجاہد اور مالک بن انس –
رضی اللہ عنہم –
فرماتے ہيں کہ کوئی ايسا نہيں جس کا کلام ليا گيا ہو اور پھر اسے
اس کی طرف رد نہ کر ديا کيا ہو سوائے رسول اللہ
–
صلی اللہ عليہ و سلم –
کے ۔[1]
( رسول اللہ –
صلی اللہ عليہ و سلم –
کے کلام مقدس کے علاوہ کسی اور شخص کا کلام نا قابل رد نہيں ہے ) ۔
ايک ہی مسئلہ کے
بارے ميں فقہاء کے درميان اختلاف رائے سے فقہ اسلامی مالامال ( ميں
ترقی ہوئی ) اور اسکا دائرہ وسيع ہوا ۔ اور فقہائے اسلام کی آراء
ايک ہی کارخانے ميں ايک ہی سانچے ميں ڈھلے ہوے نمونے کی مانند نہيں
تھيں ۔ بلکہ انميں تنوع اور رونما ہونے والے متعدد قضيئے ہوتے ہيں
جو افراد ، جماعتوں اور ملکوں ميں پائے جاتے ہيں اور اس سے آزادی
رائے کے اصول کے احترام ، عظمت اور شريعت اسلامی کی بلندی واضح
ہوتی ہے ۔ اگر شريعت اسلامی ميں آزادی رائے اور اسکا احترام نہيں
ہوتا تو ہمارے سامنے فقہ اسلامی کا يہ عظيم اور زبردست ذخيرہ نہيں
ہوتا ۔ فقہی مسالک کے درميان کثرت رائے اور تعدد کے ساتھـ ساتھـ
ہمارے علمائے کرام کا مقصد دوسروں کی شان کو کم کرنا ہرگز نہيں تھا
اور نہ ہی کسی ايک رائے کے خلاف تعصب پايا گيا ۔ سوائے بعض حالتوں
کے جن ميں بعض لوگوں نے اپنے مسلک کے لئے شہرت اختيار کی ہے اور يہ
بات خود ان کے اپنے مذہب کے بانی کے اصول کے خلاف ہے اور ہمارے علم
کے مطابق ايسا بہت ہی کم حالتوں ميں ہوا ہے ۔ اور يہ مسالک بھی
اسوقت سامنے آئے جبکہ دوسرے مذاہب کے خلاف تعصب عام ہوا ليکن مذاہب
کے اماموں نے اپنے مذاہب کے ليے شہرت اختيار نہيں کی.
اس سلسلہ ميں فقہ
حنفی کے ايک عالم کے بارے ميں مبالغہ آرائی کا ذکر کيا گيا ہے اور
وہ ہيں حضرت عبيد اللہ بن الحسن الکرخی جنکا وصال سنھ 340 ھـ ہجری
ميں ہوا تھا انہوں نے کہا ہر آيت جو ہمارے اصحاب ( جن سے انکا مقصد
حنفی مسلک کے بڑے فقہاء ہيں ) کی آراء کے ( بظاہر ) مطابق نہيں ہيں
وہ تاويل شدہ يا منسوخ ہيں ، اسی طرح حديث شريف بھی تاويل شدہ يا
منسوخ ہے ([2])۔
ليکن يہ بات اس
عام قاعدے سے ہٹ کر ہے چسپر مسالک کے آئمہ کرام عمل پيرار ہے ۔ اور
يہ قول فقہ اسلامی کے صرف اس ايک دور کا اظہار کرتا ہے . جسميں
اجتہاد نہيں بلکہ اماموں کی تقليد کا رجحان عام تھا ۔ جبکہ يہ فقيہ
جس مسلک سے وابستہ ہيں اس مسلک کے بانی امام ابو حنيفہ - رضی اللہ
تعالی عنہ- نے نہ تو خود اور نہ ہی فقہی مسلک کے کسی اور امام نے
اپنے صحيح ہونے اور دوسرے كے صحيح نہ ہونے کا دعوی کيا ہے۔
چنانچہ آئمہ کرام
واضح طور پر يہ کہتے تھے کہ ان ميں سے کسی سے بھی مسائل کے استنباط
ميں غلطی ہو سکتی ہے۔ يہانتک کہ ايک سے زائد آئمہ سے يہ قول منقول
ہے " اگر حديث صحيح ہے تو يہ ميرا مسلک ہے اور ميری بات کو ترک کر
دو " ۔ يہی وہ منہج اور اسلوب علم ہے –
جسپر صحابہ کرام –
رضوان اللہ تعالی عليہم اجمعين –
عمل پيرار ہے.
حضرت ابو بکر
صديق –
رضی اللہ تعالی عنہ –
جب کسی مسئلہ کے بارے ميں اجتہاد فرماتے تو کہتے : يہ ميری رائے ہے
اگر صحيح ہے تو اللہ رب العزت کی جانب سے ہے اور اگر غلط ہے تو
ميری طرف سے ہے اور ميں اللہ رب العزت سے استغفار کرتا ہوں۔ حضرت
عمر بن خطاب –
رضی اللہ تعالی عنہ –
کے کاتب نے جب يہ لکھا کہ يہ اللہ رب العزت کی جانب سے ہے اور يہ
عمر کا خيال ہے تو حضرت عمر –
رضی اللہ تعالی عنہ –
نے فرمایا : تم نے برا کہا ، کہو يہ عمر –
رضی اللہ تعالی عنہ –
کی رائے ہے ۔ اگر صحيح ہے تو اللہ رب العزت کی جانب سے ہے اور
اگر غلط ہے تو عمر کی طرف سے ہے ۔ اور کہا سنت وہ ہے جو اللہ اور
اسکے رسول –
صلی اللہ عليہ و سلم –
کا طريقہ ہے غلط رائے کو امت کے ليے سنت نہ بناؤ ۔(2)
جب بعض لوگ اس
عورت کے بارے ميں جسکے شوہر کا انتقال ہو گيا تھا اور اسکا مہر
مقرر نہيں کيا گيا تھا ۔ مسئلہ دريافت کرنے کے ليے حضرت عبداللہ بن
مسعود –
رضی اللہ تعالی عنہ –
کے پاس گئے ۔ تو آپ نے جواب کے ليے ايک ماہ کی مدت مقرر کی ۔ ايک
ماہ کے بعد آپ –
رضی اللہ تعالی عنہ –
نے فرمايا ۔ اس مسئلہ کے بارے ميں،ميں اپنی رائے کہتا ہوں اگر صحيح
ہو تو اللہ رب العزت کی جانب سے ہے اور اگر غلط ہو تو ايک غلام کی
ماں کے بيٹے کی جانب سے ہے ۔ اسکا مہر اسکی مثل عورت کے مہر کی
مانند ہے نہ کم اور نہ زيادہ ، اسکے ليے ميراث ہے اور اسپر عدت ہے
۔
چنانچہ متعدد آراء
ميں کوئی ممانعت نہيں ہے. رسول اللہ –
صلی اللہ عليہ و سلم –
کے بعد کسی کا قول غلطی سے محفوظ نہيں ہے ۔
اس کتاب ميں دی
گئيں آراء ازھر شريف کے علماء کی ہيں ۔ انہوں نے علماء کی بعض آراء
سے اختلاف کيا جوان سے پہلے دی گئيں تھيں اور جب مسائل ظنی ہوں تو
اختلاف ميں کوئی حرج نہيں ۔ ظنی مسائل ميں متعدد آراء ہو سکتی ہيں
اور وہ رائے ہی معتبر ہوگی جو دليل پر مبنی ہو[3] ۔
اور اللہ رب العزت
صحيح راہ کی جانب ہدايت دينے والا توفيق عطا فرمانے والا ہے۔
28 صفر سنہ 1430 ھ
بمطابق 23 فروری
سنہ 2009 م
ڈاکٹر محمد رأفت عثمان
پروفيسر تقابلی فقہ
دکن اکيڈمی اسلامی تحقيقات
-1
الانصاف فی بيان اسباب الاختلاف فی الاحکام الفقھيھ . از
شاہ ولی اللہ احمد بن عبدالرحيم الفاروقی الدھلوی صـ 20 ،
المطبعھ السلفيہ بالقاھرہ سنھ 1385 ھ۔ ۔
2-
تاريخ التشريع
الاسلامی ، از شيخ محمد الخضری صــ 325 ، 347 .
3- تاريخ
التشريع الاسلامی ، از شيخ محمد الخضری صــ 117، 118.
|